(3)ابن الہیثم کو آج بھی Father of Optics یعنی علم البصریات کا موجدِ اوّل مانا جاتا ہے اور اس کے تجربات آج بھی قبول کیے جاتے ہیں۔ اس کی کتاب ''المناظر‘‘ کی یاد میں 2015ء کو عالمی سطح پر ''روشنی کا سال‘‘ قرار دیا گیا۔ یہ المناظر کے چھپنے کی ہزارویں سالگرہ تھی۔ (4) محمد بن موسیٰ الخوارزمی کو ''Father and Founder of Algebra‘‘ یعنی الجبرا کا موجد مانا جاتا ہے۔ (5) ابوالقاسم الزہراوی کو آج بھی ''Father of Surgery‘‘ یعنی علمِ جراحی کا موجد مانا جاتا ہے۔ اُسکے ایجاد کردہ آلاتِ جراحی آج بھی زیرِ استعمال ہیں۔ (6) ابوبکر محمد بن زکریا رازی کو ''Father of Pediatrics‘‘ یعنی امراضِ اطفال کا موجد مانا جاتا ہے اور دنیا کے دو یا تین بہترین طبیبوں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ وہ کیمسٹری میں ایک درجن ایسے نئے تجربات کے موجد ہیں جو آج بھی زیرِ استعمال ہیں۔ (7) بوعلی سینا کی ''القانون فی الطب (Canon of Medicine)‘‘ کے نام سے پانچ سو سال تک علم الطب کے نصاب میں شامل رہی۔ (8) ابو ریحان البیرونی مختلف علوم میں اتنے ماہر تھے کہ انہیں آج بھی تقابلِ ادیان ‘ علم مساحۃُ الارض‘ علم البشریات اور ہند کی تاریخ‘ ادب‘ فلسفہ اور ثقافت کے مطالعے (Indology) کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ واضح رہے: ''علمِ مساحۃُ الارض‘‘ سے مراد خلا سے زمین کی ہیئت‘ پیمائش‘ کششِ ثقل اور فضا کی دیگر اشیا کے ساتھ نسبت کا نام ہے۔ (9) ابن البیطار کو آج بھی قرونِ وسطیٰ کا ماہرِ نباتات کہاجاتا ہے۔ (10) جابر بن حیان کو بین الاقوامی طور پرعلمِ کیمیا کا موجدِ اوّل مانا جاتا ہے۔ (11) ابوالحسن بن ابی الرجال کو آج بھی قرونِ وسطیٰ کا سب سے بڑا ماہر علمِ نجوم مانا جاتا ہے۔ (12) ابن العوام کی کتاب ''اَلْفَلَّاحَۃ‘‘ کو زراعت و آبپاشی پر آج بھی سب سے بنیادی کتاب مانا جاتا ہے۔ یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ جدید امریکہ میں بلند مقامات پر آبپاشی کیلئے اس کتاب کے ترجمہ سے استفادہ کیا جاتا ہے۔یہ اسلام کے عروج کا دور تھا۔ ان حوالوں سے ایک معقول اور منصف مزاج انسان پر واضح ہو جاتا ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی اور سیکولرازم لازم و ملزوم نہیں ہیں بلکہ اسلام ہر نوعِ علم کے فروغ کا داعی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی بھی علوم ہیں اور ان کی مہارت اور قیادت مسلمان کے ہاتھ میں ہو گی تو یہ اسلام اور مسلمانوں کیلئے عزت و افتخار کا باعث بنے گی اور مسلمانوں کے مخالفین کے ہاتھ ہو گی تو یہ دشمنانِ اسلام کے غلبے کا باعث بنے گی‘ یعنی سائنس اور ٹیکنالوجی اپنی اصل میں نہ خیر ہے اور نہ شر‘ اس کا مدار اس پر ہے کہ ان علوم کی امامت کس کے ہاتھ میں ہے۔
(4) جمہوریت یقینا اپنی جبلت اور روح کے اعتبار سے سیکولر ہے‘ یہ امر مسلّم ہے‘ لہٰذا ''اسلامی جمہوریت‘‘ کی اصطلاح بھی زیادہ بامعنی نہیں ہے۔ اسلام میں اصل شورائیت ہے‘ جو عقلِ اکثری کا نام نہیں بلکہ عقلِ صائب (Righteous Wisdom) کا نام ہے۔ ہمارے لیے مشکل یہ ہے کہ جاری نظام اور دستیاب حالات میں ان چیزوں کو اصل اسلامی بنیادوں پر اٹھانے کے مواقع ہمیں میسر نہیں ہیں‘ جب تک مسلمان اپنے ''نظامِ شورائیت‘‘ کی کوئی ایسی عملی تعبیر پیش نہ کریں جو روئے زمین کے کسی ملک پر نافذ العمل صورت میں نظر آئے اور اس کے ثمرات کا مشاہدہ بھی دنیا اپنی کھلی آنکھوں سے کرے‘ خالی خولی دعوے دنیا کو اس طرف مائل نہیں کر سکتے کیونکہ موجودہ دنیا علم اور نظام کی درجہ بندی محض نظریاتی بنیادوں پر نہیں کرتی بلکہ عملی مظاہر کو دیکھ کر کرتی ہے۔ عمل کی صورت میں تطبیق چاہتی ہے اور ہم خلا میں جی رہے ہیں‘ محض ماضی کی حسین یادوں پر گزارا کر رہے ہیں‘ اس سے انقلاب برپا ہوتے ہیں اور نہ نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ کئی ایسی تنظیمیں موجود ہیں جو احیائے خلافت کا خواب دیکھ رہی ہیں اور اسی کو امتِ مسلمہ کے تمام دکھوں کا مداوا سمجھتی ہیں۔ ماضی میں ڈاکٹر اسرار احمد بھی ایک عرصے تک احیائے خلافت کی بات کرتے رہے بلکہ ایک مرحلے پر تو انہوں نے بیعت بھی لینا شروع کردی تھی‘ لیکن پھر اس مہم سے دستبردار ہو گئے۔ مسئلہ یہ ہے کہ احیائے خلافت کے دعویداروں کے پاس قیامِ خلافت کی کوئی عملی صورت نہیں ہے‘ بس ایک تخیلاتی نعرہ ہے اور جاری سیکولر لبرل نظام کی خرابیوں اور بربادیوں کو بیان کر کے سمجھتے ہیں کہ ہمارے لیے گنجائش موجود ہے‘ حالانکہ یہ دور ''بقائے اصلح‘‘ کا ہے‘ محشر بدایونی نے کہا:
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا
فارسی کا مقولہ ہے: ''خانۂ خالی را دیومی گیرد‘‘، یعنی گھر ویران ہو تو آسیب کا بسیرا ہو جاتا ہے۔ ہم آج بھی حضرت فاروقِ اعظمؓ کی دو چادروں کی مثالیں دے کر اپنے دل کو تسلی دیتے ہیں‘ یہ نہیں جانتے کہ دورِ حاضر کے حکومتی نظام نے تمام نجی اور اجتماعی امور کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ اسلام اپنی جبلت کے اعتبار سے باطل کی آمیزش قبول کرنے کے حق میں نہیں ہے‘ رسول اللہﷺ کو بھی ان کے چچا ابوطالب نے اعتقادی امور میں مفاہمت یعنی کوئی درمیانی راستہ نکالنے کی فرمائش کی تو آپﷺ نے فرمایا تھا: ''چچا جان! اللہ کی قسم! اگر یہ اس شرط پر کہ میں اپنے مشن سے باز آجاؤں‘ سورج کو میرے دائیں ہاتھ میں اور چاند کو میرے بائیں ہاتھ میں لاکر رکھ دیں تب بھی میں اپنے مشن سے ہرگز باز نہیں آؤں گا حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ اس دین کو غالب کردے یا اس راہ میں میری جان قربان ہو جائے‘‘ (ابن ہشام‘ ج:1،ص:266)۔ یہی شعار خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اختیار کیا تھا۔ رسول اللہﷺ کے وصالِ مبارک کے فوراً بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ کو جب یہ مشورہ دیا گیا کہ حالات کی نزاکت اور حساسیت کے پیشِ نظر ''جیشِ اُسامہ‘‘ یعنی اقدامی جہاد کو موقوف کر دیں تو آپؓ نے فرمایا: ''اگر (مدینے کی گلیوں میں) کتے اور بھیڑیے میری لاش کو نوچیں تب بھی میں رسول اللہﷺ کے فیصلے کو واپس نہیں لوں گا‘‘(تاریخ الطبری‘ ج:3، ص:226)۔ خیر قلیل کو باطلِ محض کے مقابلے میں یقینا ترجیح حاصل ہے بشرطیکہ خیرِ کل کی پُرخلوص سعی جاری رکھی جائے‘ اس کوشش کی نوعیت کیا ہو‘ یہ مخلص اور صالح مجتہدین پر چھوڑ دی جائے۔
خلاصۂ کلام یہ کہ اسلام اور جدید سائنسی و فنی علوم میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ اسلام تحقیق و ایجاد اور انسانی فلاح کیلئے اصولی طور پر جدید علوم کا مخالف نہیں ہے۔ اسلامی عقائد و عبادات کا تعلق مادّیات اور مادّی پیمانوں سے نہیں ہے‘ یہ انبیائے کرام علیہم السلام کے ذریعے اللہ تبارک و تعالیٰ کی عطا کردہ تعلیمات ہیں‘ جن میں بندے کا تعلق اپنے خالق ومالک ربّ تبارک و تعالیٰ کے ساتھ استوار ہوتا ہے۔ کسی سائنسی دلیل نے آج تک عقیدۂ آخرت کو رد نہیں کیا۔ البتہ جدید دنیا میں ایسے فلاسفہ گزرے ہیں اور آج بھی ہیں جو مابعد الطبیعاتی امور (Metaphysics) پر بات کرتے ہیں‘ ان کیلئے اسلام کا بنیادی اصول یہ ہے: (ترجمہ) جس چیز کا انجام ممنوع پر ہو‘ وہ اصلاً ہی ممنوع ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح‘ ج: 4، ص: 1269)
''اَلضَّرُوْرَۃُ تُبِیْحُ الْمَحْظُوْرَات‘‘ یعنی ضرورت ممنوعات کو مباح کر دیتی ہے‘ بھی ایک مسلّمہ ضابطہ ہے لیکن اس اصول کے اطلاق کو بھی ہر ایرے غیرے پر نہیں چھوڑا جا سکتا‘ بلکہ یہ مجتہدین اور اہلِ فتویٰ کا کام ہے۔ بڑی برائی کے مقابلے میں چھوٹی برائی کو اختیار کرنا‘ دین میں عشرتوں اور آسائشوں کی راہ ہمور کرنے کیلئے نہیں بلکہ یُسر اور مشکل صورتحال سے نکلنے کیلئے ہونا چاہیے۔ دوسروں کے علوم یا تحقیقات سے استفادہ کا اصول یہ ہے: جو چیز اسلام کی ضد نہ ہو یا جسے اختیار کرنے سے اسلام کے کسی قطعی حکم کی نفی نہ ہوتی ہو‘ اسے اختیار کرنا مباح ہے۔ ہاں! جو چیز اسلام کی ضد ہے‘ اس سے اجتناب لازم ہے۔ احادیث کے اخذ و قبول کے میدان میں چھان پھٹک کیلئے مسلمانوں نے ''عِلْمُ الرِّجاَل وعِلْمُ الْجَرْحِ وَالتَّعْدِیلْ‘‘ جیسے علوم وضع کیے‘ اس کی مثال دیگر اقوام کی نقل و روایت میں نہیں ملتی۔(جاری)