مبارک ثانی بنام سرکار کیس میں سپریم کورٹ سے 6 جنوری 2024ء کو ایک فیصلہ آیا‘ اس پر پورے ملک میں اضطراب پیدا ہوا‘ پھر نظرِ ثانی پٹیشن دائر ہوئی۔ اس سے پہلے سپریم کورٹ نے مختلف دینی شخصیات اور اداروں سے رائے طلب کی تھی‘ اُن کو تحریری رائے بھیج دی گئی تھی لیکن 24 جولائی کو نظرِ ثانی کا جو فیصلہ آیا‘ اُس نے صورتحال کو پہلے سے بھی زیادہ گمبھیر بنا دیا اور اندیشہ تھا کہ ملک میں ایک اور تحریک بپا کرنی ہو گی‘ جو موجودہ صورتحال میں ملک کو عدمِ استحکام سے دوچار کر دیتی اور بعض قوتیں اس سے فائدہ اٹھانے کی منتظر تھیں۔ اس لیے ہم نے نظرِ ثانی فیصلے پر تمام مکاتبِ فکر کی جانب سے ایک متفقہ تحریر سپریم کورٹ کو ارسال کی‘ فیصلے کے نقائص‘ اُن میں مستور خطرات اور مسئلے کی سنگینی سے آگاہ کیا۔ حکومتِ وقت نے بھی ہوش کے ناخن لیے اور سپریم کورٹ سے فیصلے کی تصحیح کیلئے استدعا کی۔ سپریم کورٹ نے بھی اس موقع پر دانشمندی سے کام لیا۔ چیف جسٹس نے اپنی ذاتی اور ادارتی انا کو ایک طرف رکھ کر وسعتِ قلبی کا مظاہرہ کیا اور فیصلے کی تصحیح کیلئے ایک بار پھر سماعت کر کے مختصر حکم نامہ جاری کیا۔ اب الحمدللہ! 10 اکتوبر کو تفصیلی فیصلہ آ گیاہے۔ ہم اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر ادا کرتے ہیں کہ اُس نے اپنے حبیبِ مکرّمﷺ کے طفیل اس کارِخیر میں ہمیں اپنا حصہ ڈالنے کی سعادت عطا فرمائی۔ شاعر نے کہا ہے:
ہمارا خون بھی شامل ہے تزئین گلستان میں
ہمیں بھی یاد کر لینا چمن میں جب بہار آئے
ہمیں اس دنیا کی نہیں‘ آخرت کی بہار کی تمنا ہے‘ اللہ تعالیٰ ہمیں نصیب فرمائے۔ ہم چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے بنچ کے ارکان کی بھی تحسین کرتے ہیں کہ اپنے تحمل اور بصیرت کے سبب وہ قبولِ حق پر آمادہ ہوئے اور اپنی عاقبت کو سنوارا۔ انہیں بھی اس توفیق پر اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ ہم اس فیصلے کے اہم نکات ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں تاکہ علمااور دینی طبقات کو اس کی اہمیت کا احساس ہو:
(1) قبولِ ضمانت کی حد تک یہ فیصلہ مؤثر ہے‘ اس کے علاوہ اصل اور نظرِ ثانی فیصلے کو مجموعی طور پر یا اُس کے کسی اقتباس کو آئندہ کسی عدالت میں نظیر کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکے گا۔ اس اعتبار سے یہ دونوں فیصلے کالعدم اور غیر مؤثر ہیں۔ اس لیے عدالت نے سابق فیصلے کے بعض متنازع پیراگرافوں کو حذف کرنے پر اکتفا کرنے کے بجائے از سرِ نو فیصلہ لکھا تاکہ آئندہ اس حوالے سے کوئی ابہام باقی نہ رہے۔(2) ماتحت ٹرائل کورٹ کوہدایت کی گئی ہے کہ وہ اس کیس سے متعلق سپریم کورٹ کے سابق فیصلوں کے بعض پیراگرافوں سے متاثر ہوئے بغیر آزاد ذہن کے ساتھ مقدمے کے حقائق کی روشنی میں اس کا فیصلہ قانون کے مطابق کرے‘ کیونکہ وہ فیصلے غیر مؤثر ہو چکے ہیں۔(3) عدالت نے تصریح کر دی ہے کہ متنازع تفسیرِ صغیر میں کئی جگہ شرعی حدود سے تجاوز کیا گیا ہے‘ فیصلے میں اُن کے بعض حوالے موجود ہیں‘ لیکن اُن کے ذکر سے مسلمانوں اور مسیحیوں کے جذبات مجروح ہوں گے۔ (4) فیصلے میں کہا گیا ہے: امت کا اس پر اجماعِ کُلّی قطعی ہے کہ ''خاتَمُ النَّبِیّٖن‘‘ کے معنی ''اٰخِرُ النَّبِیّٖن‘‘ ہیں اور یہ کلماتِ قرآنی قطعی الثبوت ہونے کے ساتھ ساتھ قطعی الدلالۃ بھی ہیں‘ غیر مؤول ہیں (یعنی سیدنا محمد رسول اللہﷺ کے آخری نبی ہونے کے علاوہ ان کی کوئی اور تاویل وتوجیہ نہیں کی جا سکتی)۔ لہٰذا لفظِ ''خَاتَم‘‘ پر لفظی ابحاث قطعی غیر متعلقہ‘ بے محل اور ناقابلِ توجہ ہیں۔ اس پر قرنِ اوّل سے لے کر آج تک اُمّتِ مسلمہ کا اجماعِ کلی قطعی ہے کہ حضرت محمدﷺ کواللہ تعالیٰ کا آخری نبی مانے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں ہوتا۔ امام غزالی نے لکھا ہے: ''لفظِ خاتم النبیین اور اس کے قرائن سے امتِ مسلمہ نے اجماعی طور پر یہ سمجھا ہے کہ قرآن وحدیث سے قطعیت کے ساتھ یہ ثابت ہے کہ آپﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں‘ اس میں کسی تاویل‘ توجیہ‘ تخصیص اور تعمیم کی کوئی گنجائش نہیں ہے‘ اس لیے '' خاتَمُ النَّبِیّٖن بمعنی اٰخِرُ النَّبِیّٖن کا انکار کرنے والا اُمّت کے اجماع کا منکر ہے‘‘۔ (پیراگراف: 12)(5) آئینِ پاکستان نے بھی اس بنیادی اصول کو تسلیم کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ مسلمان وہ ہیں جو ختمِ نبوت پر مکمل اور غیر مشروط ایمان رکھتے ہیں۔ آئین کا آغاز اللہ تعالیٰ کے نام اور اللہ تعالیٰ کی حاکمیتِ اعلیٰ کے اقرار سے ہوتا ہے اور کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے مقررہ حدود کے اندر رہتے ہوئے پاکستان کے عوام اختیار کو ایک مقدس امانت کے طور پر عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کریں گے۔ مسلمان اپنی انفرادی واجتماعی زندگی قرآن وسنّت میں مذکور اسلامی تعلیمات کے مطابق بسر کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ (پیراگراف: 13)
(6) آئین اور قانون کسی کو اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ کسی اور مذہب کی توہین کرے یا اُس کی مقدس شخصیات کے متعلق غلط بیانی کرے۔ تفسیر صغیر میں اور مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی کتابوں میں بھی اسلام اور مسیحیت دونوں ہی کے متعلق اس اصول کی خلاف ورزی کی ہے‘ نیز اعلیٰ عدالتوں کے فیصلے قادیانیوں کو اس امر کا پابند کر چکے ہیں کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے دینی شعائر کو استعمال نہیں کر سکتے۔ (پیراگراف: 15)
(7) آئین کی دفعات میں مذہبی آزادی کے حق کو قانون‘ اخلاق اور امنِ عامّہ کے تابع کیا گیا ہے اور مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295A نے بھی مذہبی جذبات مجروح کرنے اور مقدسات کی توہین کو قابلِ سزا جرم قرار دیا ہے۔ پس آزادیٔ اظہار کے نام پر کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ کسی کے مذہبی جذبات کو مجروح کرے۔ حقوقِ انسانی کا بین الاقوامی قانون بھی اس کی ممانعت کرتا ہے اور اقوامِ متحدہ کے سیاسی وشہری حقوق کے بین الاقوامی میثاق 1966ء میں اس کی تصریح کی گئی ہے۔ نیز کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو کسی ایسے مذہب کا پیروکار ظاہر کرے‘ جس کے بنیادی عقیدے کا وہ منکر ہو۔ لہٰذا قادیانیوں کا اپنے آپ کو مسلمان یا احمدی مسلمان کہلانا درست نہیں ہے۔ (پیراگراف: 16) (8) گزشتہ فیصلے میں چہار دیواری کے اندر اور گھر میں قادیانیت کی تعلیم‘ تربیت اور فروغ کی جو چھوٹ دی گئی تھی‘ اس حتمی فیصلے کے بعد اب وہ ختم ہو گئی ہے‘ اس ممانعت کا اطلاق عام جگہ‘ چہار دیواری اور گھر سب پر ہو گا۔ نیز اسلامی شعار اور مسلمانوں کی مخصوص مذہبی اصطلاحات وتراکیب کے غیر مسلموں کیلئے مذہبی امور میں استعمال کرنے کو ممنوع قرار دیا گیا ہے‘ کیونکہ اس سے مسلمانوں کو دھوکے میں ڈالا جا سکتا ہے‘ یہ بھی طے کر دیا گیا ہے کہ تعزیراتِ پاکستان کی دفعات 298B/C قرآن وسنّت میں مذکور اسلامی احکام سے متصادم نہیں ہیں۔ (پیراگراف: 20)(9) آئین کی دفعہ 260(3) میں قرار دیا گیا ہے: (الف): ''مسلمان‘‘ سے مراد وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کی توحید اور وحدانیت پر ایمان رکھے‘ حضرت محمدﷺ کے آخری نبی ہونے پر مکمل اور غیر مشروط ایمان رکھے اور جو شخص کسی بھی معنی میں یا کسی بھی تاویل وتوجیہ کے تحت خود کو نبی کہتا تھا یا کہتا ہے‘ نہ اُس پر ایمان رکھے اور نہ اُسے نبی یا مذہبی مُصلح کے طور پر تسلیم کرے۔ (ب): ''غیر مسلم‘‘ سے مراد وہ شخص ہے جو مسلمان نہیں ہے اور اس کے مفہوم میں مسیحی‘ ہندو‘ سکھ‘ بدھ مت کے پیروکار‘ پارسی برادری سے تعلق رکھنے والے‘ قادیانی یا لاہوری گروپ (جو خود کو احمدی کہتے ہیں) کا ہر فرد یا بَہائی اور جدوَلی ذاتوں (Scheduled Castes) سے تعلق رکھنے والے تمام افراد شامل ہیں۔ (پیراگراف: 19)(10) بنیادی حقوق‘ اقلیتوں کے حقوق اور آزادیِ اظہار کا حق مُطلق یعنی مادر پدر آزاد نہیں ہے‘ بلکہ یہ قانون‘ امنِ عامّہ اور اخلاقیات کے تابع ہے۔ (پیراگراف: 21)
(11) جس طرح دنیا کے ہر ملک وریاست کے ہر پابندِ آئین وقانون شہری پر لازم ہے کہ وہ اپنے ملک کے آئین وقانون کو لفظاً و معنًی تسلیم کرے اور آئین ''اُمّ القوانین‘‘ ہوتا ہے‘ اس لیے قادیانیوں پر بھی لازم ہے کہ وہ آئین میں طے شدہ اپنی آئینی حیثیت کو تسلیم کریں‘ اُس کے دائرۂ کار میں رہتے ہوئے اُن کے حقوق کا تعین اور تحفظ بھی ہو سکے گا۔ (پیراگراف:23)