پاکستان میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے اس پر لکھناگویا اوکھلی میں سر دینے کے مترادف ہے کہ پاکستانی سیاست پر لکھنا کانٹوں کا ہار گلے میں ڈالنے سے بڑھ کر باعثِ مصیبت ہو چکا ہے۔ اگر لکھتے ہوئے کسی بھی معاملے میں کسی ایک فریق کی کسی بات پر اعتراض کر دیا تو گویا آپ دوسرے فریق کے حامی و حمایتی ہیں۔ درمیان میں نہ کوئی حدِ فاصل ہے اور نہ ہی کوئی رعایت۔ تقابلی جائزہ لیتے ہوئے کسی کو بہتر قرار دیا تو آپ دوسرے فریق کے نزدیک قابلِ گردن زدنی ٹھہرا دیے جاتے ہیں‘ یا آپ پٹواری ہیں یا آپ یوتھیے ہیں۔ ایسی صورت میں سمجھداروں اور عقلمندوں نے گالیاں کھانے کے ایک طے شدہ فریق کا اور تعریف کے ڈونگرے سمیٹنے کیلئے اپنے لیے ایک پکے فریق کا انتخاب کر رکھا ہے۔ لیکن ہم جیسے احمقوں کا حال زیادہ خراب ہے کہ کسی فریق کے نہ تو پسندیدہ ہیں اور نہ ہی فیورٹ۔ ہاں! البتہ یہ ضرور ہے کہ دونوں طرف سے برا بھلا ضرورکہا جاتا ہے۔
کئی دوستوں نے مشورہ دیا کہ اس دوطرفہ دشنام طرازی سے بچنے کیلئے بہتر ہے کہ کسی ایک فریق کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کر لیں اور کم از کم ایک طرف سے تو اطمینان ہو جائے مگر دل کم بخت اس کام پر راضی نہیں ہوتا۔ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ درجہ عرفان پر فائز وہ منافقین جو عرصۂ دراز سے ہر دو فریقوں کو راضی رکھنے اور فائدے اٹھانے کے فن میں ماہر تھے‘ ان کی منافقت کی دال بالکل بھی نہیں گل رہی اور الحمدللہ وہ ہر دو اطراف سے کھل کر ذلیل ورسوا ہو رہے ہیں۔ عدم برداشت اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ اب گالی گلوچ‘ برا بھلا کہنے سننے اور دشنام طرازی سے کوئی بھی بچ نہیں رہا۔ ایسے عالم میں کہ جب گالیاں اور دشنام طرازی بہرحال آپ کا مقدر ہے تو پھر منافقت اور جھوٹ لکھتے ہوئے کسی ایک فریق کی اندھی حمایت میں بے مزہ ہونے کے بجائے بندہ اپنے دل کی بات مان کر کے بے مزہ کیوں نہ ہو؟ بقول چچا غالب:
وفا کیسی کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا
تو پھر اے سنگدل تیرا ہی سنگ آستاں کیوں ہو
سو قارئین! اپنی مرضی اور ضمیر کے مطابق لکھ کر برا بھلا سنتے ہوئے کم ازکم یہ تسلی ضرور ہوتی ہے کہ ہمارے ساتھ جو کچھ بھی ہو رہا ہے ہماری ذاتی کوششوں اور حماقتوں کے باعث ہو رہا ہے اور ہم اپنی اس خرابی کے خود ذمہ دار ہیں۔ کم از کم کسی کی خاطر ذلیل نہیں ہو رہے۔
یہ تو ممکن نہیں کہ کوئی ایک فریق معصوم عن الخطا ٹھہرے اور دوسرا فریق سراسر راندۂ درگاہ قرار پائے۔ یہ بھی ممکن نہیں کہ ایک فریق سراسر سچا ہو اور دوسرا فریق سر سے پاؤں تک خرابیوں میں لتھڑا ہوا ہو۔ مگر ہمارے ہاں آج کل کا سیاسی وفاداریوں کا چلن ہی ایسا ہے کہ ہر سیاسی غلام زادے کے نزدیک اس کا لیڈر دودھ کا دُھلا ہوا اور اس کا مخالف سیاسی لیڈر دنیا کا بدترین شخص ہے۔ کسی نے اپنے لیڈر کو مرشد قرار دے رکھا ہے اور کسی نے اپنے لیڈر کو قائداعظم ثانی کے سنگھاسن پر بٹھا دیا ہے۔ اس ساری سیاسی انتہا پسندی میں ہر شخص کے پاس اپنا اپنا سچ ہے اور اپنا اپنا بے عیب لیڈر ہے۔
افتخار چودھری کی معزولی اور پھر عوامی ردِعمل اور احتجاج کے نتیجے میں (بہت سے لوگوں کے نزدیک یہ سب کچھ ایک طے شدہ سکرپٹ کے مطابق تھا۔ اس میں اصلی بڑوں کی اشیرباد کی سازشی تھیوری پر بحث کے بغیر) ان کی بحالی کے بعد وکلاء کی بطور ایک مزید پریشر گروپ کے ظہور کے بعد میں نے دوستوں کو کہا کہ اب اس ملک میں عام آدمی کو اپنے آئینی اور قانونی حقوق اس وقت تک نہیں ملیں گے جب تک وہ کسی مافیا یا جتھے کا حصہ نہیں ہوگا‘ بلکہ اگر وہ کسی مافیا یا جتھے کا حصہ ہوگا تو اسے اس ملک کے آئین و قانون میں دیے گئے حقوق سے بھی کہیں زیادہ حقوق حاصل ہوں گے اور وہ آئین وقانون سے بالاتر بھی ہوگا۔ لہٰذا اب وقت ہے کہ آپ کسی نہ کسی مافیا کو یا جتھے کو جوائن کر کے اپنی زندگی آسان بنا لیں‘ وگرنہ بعد میں آپ کو افسوس ہوگا کہ آپ نے کسی جتھے کو اپنا محافظ یا سرپرست نہیں بنایا۔
یہ ملک ایک عرصے سے جتھوں کے نرغے میں ہے۔ کبھی سوات میں جتھے بند پوری وادی کو یرغمال بنا لیتے ہیں اور ریاست کو کھدیڑتے ہوئے مالاکنڈ اور درگئی سے پار دھکیل دیتے ہیں۔ کبھی یہ جتھے دل کے ہسپتال پر حملہ کرکے مریضوں کی آکسیجن بند کرکے ان کی موت کا سامان بنتے ہیں‘ مگر کسی کے خلاف کچھ نہیں ہوتا۔ کبھی اپنے جتھے کے زور پر مسیحا ہڑتال کر دیتے ہیں اور مریض بے چارگی میں اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کر دیتے ہیں‘ مگر کسی کو اس جتھے پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہیں ہوتی۔ کبھی یہ جتھے ملک کے دارالحکومت کی شہ رگ پر دھرنا دے کر سارا نظام جامد کر دیتے ہیں اور ریاست ان کو خرچہ پانی‘ کرایہ آمدورفت اور ٹی اے ڈی اے کے لفافے عطا کرتی ہے۔ کبھی تاجر مافیا دکانوں کے اوقات مقرر کرنے پر احتجاج کے طور پر ملک کا سارا کاروباری نظام بند کر دیتا ہے اور سرکار اپنے گھٹنے ٹیک دیتی ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ تاجر عوام الناس سے خریداری اور ہوٹلوں میں کھانے پر لگنے والا سرکاری ٹیکس وصول کر کے سرکاری خزانے میں جمع کرانے کے بجائے اپنی جیب میں ڈال لیں اور سرکار ان تاجروں سے عوام کی جیب سے اپنے نام پر لیا جانیوالا ٹیکس وصول کرنے کی کوشش کرے تو کاروباری ادارے وتاجر حضرات سرکار کو اسی کا وصول کردہ ٹیکس دینے سے انکار کر دیں اور سرکار بے بسی کی تصویر دکھائی دے تو حکومت کی اس سے بڑھ کر بے بسی اور جتھوں کی طاقت کا اندازہ کس بات سے لگایا جا سکتا ہے؟
عام آدمی کو عدم انصاف کی شکایت ہے اور جتھوں کی سرپرستی میں رہنے والوں کو ہر بات کی آزادی ہے۔ لکھتے ہوئے مثال کے طور پر جب میں ملتان کا حال لکھتا ہوں تو بعض قاری اسے میرا ذاتی مسئلہ قرار دے دیتے ہیں لیکن میری یہ مثال کسی ایک خاص شہر کی نہیں پورے ملک کے عمومی حالات کی وہ تصویر ہوتی ہے جو میں ملتان کے نام سے لکھتا ہوں مگر آپ اس تصویر میں اپنا اپنا شہر آرام سے دیکھ سکتے ہیں۔
اہلِ ملتان صبح سے شام تک شہر کے مرکز کچہری چوک پر فلائی اوور کے نیچے سے گزرتے ہوئے جو تکلیف اور کوفت برداشت کرتے ہیں وہ ناقابلِ بیان ہے۔ نیچے سڑک پر چار چار قطاروں میں گاڑیاں پہلو بہ پہلو پارک ہوتی ہیں۔ اس غیر قانونی پارکنگ کے طفیل ٹریفک بری طرح پھنستی ہے۔ کمشنر‘ ڈپٹی کمشنر اور ضلعی پولیس کے سربراہ سمیت ساری ضلعی انتظامیہ اس چوک سے روزانہ کم از کم دو بار گزرتی ہے مگرکسی کو جرا ٔت نہیں ہوتی کہ وہ اس ناجائز پارکنگ کو بند کرا سکے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ سرکار کی سڑک پر قائم اس غیر قانونی اور قبضے کی پارکنگ کی پارکنگ فیس بار ایسوسی ایشن وصول کرتی ہے۔ سارے شہر میں آر پی او کے متعین کردہ پرائیویٹ لفٹر شرفا کی گاڑیوں کو صرف اٹھانے کی دھمکی دے کر فی چالان دو ہزار روپے وصول کر رہے ہیں‘ اور یہ ساری آمدنی سرکار کے کھاتے کے بجائے ویلفیئر فنڈ کے نام پر سرکاری افسروں کی جیبوں میں جا رہی ہے‘ مگر ان کمائی گیر افسروں کو یہ جرأت نہیں ہوتی کہ ساری سڑک کو بند کرنے والی اس پارکنگ سے ایک گاڑی بھی اپنے پرائیویٹ لفٹروں سے اٹھا سکیں۔ دوسری طرف کسی کو یہ جرأت بھی نہیں ہوتی کہ پولیس افسروں کے اس نام نہاد فلاحی فنڈ کا آڈٹ کرائے اور لاکھوں روپے روزانہ کی آمدنی کا حساب لے۔ یہ صرف دو معمولی قسم کے جتھوں کا تذکرہ تھا۔ خان کی رہائی بذریعہ اسلام آباد چڑھائی ان جتھوں کی طاقت کا تازہ ترین واقعہ ہے۔ اگر اس میں بھی سرکار اور ان کے سرپرستوں کو خود متاثر ہونے کا خوف نہ ہوتا اور محض عوام نے ذلیل وخوار ہونا ہوتا تو سب اس وقت ستو پی کر سو رہے ہوتے۔(جاری)