عدالتوں سے ہمارا واسطہ نہیں رہتا اور دعا ہے: اللہ تعالیٰ ہمیشہ اس آزمائش سے محفوظ فرمائے۔ جسٹس سید منصور علی شاہ صاحب کو ہم ذاتی طور پر نہیں جانتے‘ البتہ سنتے اور پڑھتے رہتے ہیں کہ وہ آئین وقانون کے اچھے ماہر ہیں اور انگریزی بہت اچھی لکھتے ہیں۔ کسی زبان کی انشا پردازی کی صلاحیت اپنی جگہ‘ مگر آئینی وقانونی فیصلوں کا انشا پردازی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ فنی شعبہ ہے‘ سیسلن مافیا‘ گاڈ فادراور خلیل جبران کا عدالتی فیصلوں میں حوالہ دینا صرف ہماری عدلیہ کا امتیاز ہے‘ دنیا میں ایسا نہیں ہوتا۔ عدالتی فیصلوں میں آئین وقانون اور عدالتی نظائر کے حوالہ جات اور اُن کی تطبیق ہوتی ہے۔ جسٹس محمد رستم کیانی کے خطابات کی کتاب ''افکارِ پریشاں‘‘ موجود ہے‘ وہ اپنے خطابات میں طنز ملیح اور استعارات وکنایات خوب استعمال کرتے تھے‘ اس لیے اُن کے خطابات شاہکار سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن اس فن کا مظاہرہ انہوں نے اپنے عدالتی فیصلوں میں کیا‘ نہ اُن کے عدالتی فیصلے پی ایل ڈی میں رپورٹ ہوئے۔ جب ملک میں آمریت ہو‘ جبر ہو تو صریح تنقید کے بجائے استعارات اور کنایات سے کام لیا جاتا ہے اور بلاشبہ یہ ابلاغ کا ایک فن ہے۔ عربی کا مقولہ ہے: اَلْکِنَایَۃُ اَبْلَغُ مِنَ التَّصْرِیْح۔ ''کنایہ کا ابلاغ تصریح سے زیادہ مؤثر ہوتا ہے‘‘۔ اور قانون کی گرفت میں بھی نہیں آتا۔ مشہور کہاوت ہے: ''بادشاہ نے بینگن کی تعریف کی تو ایک درباری نے اُسکی تعریف میں زمین وآسمان کے قُلابے ملا دیے‘ پھر دوسرے وقت بادشاہ نے بینگن کی مذمت کی تو وہی درباری اُس کی مذمت میں حد سے گزر گیا۔ بادشاہ نے پوچھا: اُس دن تو تم بینگن کی بہت تعریف کر رہے تھے اور اب اس کی مذمت کر رہے ہو۔ درباری نے جواب دیا: عالَم پناہ! میں بادشاہ کا غلام ہوں‘ بینگن کا غلام نہیں ہوں‘‘۔
ہماری عالی مرتبت عدلیہ مختلف ادوار سے گزری ہے‘ سلطانِ وقت کی اطاعت پہ آئی تو مارشل لاء کو بھی ایک سے زائد بار آئینی تحفظ دے دیا اور اس پر آزادی کا دور آیا تو منتخب وزرائے اعظم کو بھی ''بہ یک بینی ودو گوش‘‘ ایوانِ اقتدار سے نکال کر گھر یا جیل بھیج دیا۔ عدلیہ کوآزادی ملی تو آئین وقانون کو بھی تلوار کی سان (دھار) پہ رکھ دیا۔ الغرض ہم جج بھی ہوں تو توازن برقرار رکھنا ہمارا مزاج نہیں ہے۔ گزشتہ دو عشروں میں عدلیہ کے کئی فیصلے ایسے ہیں جو ہمارے نظامِ عدل کی شرمساری کیلئے کافی ہیں لیکن جب ''حُسن‘‘ ناظر کی آنکھ کو بھا جائے تو کبھی محبوب کے رخسار کا تِل بھی اتنا گراں قدر ہو جاتا ہے کہ حافظ شیرازی نے کہا ہے:
اگر آں ترک شیرازی بہ دست آرد دل ما را
بہ خال ہندوش بخشم سمرقند و بخارا را
مفہومی ترجمہ: اگر وہ شیرازی محبوب میرا دل تھام لے تو میں انعام کے طور پر اُسکے رخسار کے تِل کے بدلے میں پورا سمرقند وبخارا اسکی نذرکر دوں۔ اسکے بارے میں ایک قول مشہور ہے: سمرقند وبخارا کے بادشاہ نے شاعر سے کہا: تو کون ہوتا ہے سمرقند وبخارا بخشنے والا؟ شاعر نے جواب دیا: ایسی ہی عطائوں کا نتیجہ ہے کہ میں اس حال کو پہنچ گیا ہوں۔ جناب جسٹس سید منصور علی شاہ صاحب کا تضاد یہ ہے: اُنکے بقول انہوں نے ثاقب نثار کو بھی احتجاجی خط لکھا تھا‘ لیکن اُسے عوام میں مشتہر نہیں کیا‘ اسکے برعکس قاضی فائز عیسیٰ کے بارے میں خط کو عوام میں مشتہر کیا‘ اس دہرے معیار کا کیا جواز ہے۔
دوسری اہم بات یہ کہ سپریم کورٹ کو جسٹس بندیال تقسیم کر چکے تھے اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو یہ تقسیم وراثت میں ملی۔ اپنے پورے دور میں جسٹس عمر عطا بندیال فُل کورٹ کا ایک اجلاس بلانے کی ہمت نہ کر سکے‘ جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدلیہ کی تقسیم کے باوجود اس کی بنیاد تو ڈالی۔ جنرلوں اور ججوں کی عاقل وبالغ اولاد اور بیگمات وغیرہ اپنی پسند وناپسند رکھ سکتے ہیں‘ لیکن اُسے ''ٹاک آف دی ٹائون‘‘ کس نے بنایا اور زبان زدِ خاص وعام کس نے کیا‘ کیا گھر کا بھیدی اس کا ذمہ دار نہیں ہے۔ نیز جج یا جنرل کا اپنے اہلِ خاندان سے متاثر ہو کر پالیسی بنانایا فیصلے کرنا نہ صرف یہ کہ یہ اُن کے شایانِ شان نہیں ہے‘ بلکہ اُن کے فرضِ منصبی کے بھی منافی ہے۔ نہایت احترام کے ساتھ جناب جسٹس سید منصور علی شاہ سے گزارش ہے: آپ کے خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر بعض تبصرے اور فتوے آپ کے منصِب کے شایانِ شان نہیں ہیں‘ اُن کا دور تو گزر گیا اور وہ اپنے محاسن وعیوب کو سمیٹ کر چلے گئے‘ لیکن آپ نے تو ابھی اپنا دور گزارنا ہے‘ آپ کو اپنے غیظ وغضب پر قابو رکھنا چاہیے تھا‘ یہی آپ کے منصِبی وقار کا تقاضا ہے۔ رسول اللہﷺ نے قاضی کو مغلوب الغضب ہو کر فیصلہ کرنے سے منع فرمایا تھا۔ قاضی پر تو لازم ہے: اپنی عصبیتوں‘ نفرتوں اور پسند وناپسند سے بالاتر ہوکر فیصلے کرے حتیٰ کہ اُسے اپنی ذاتی معلومات کی بنا پر بھی فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ اُسے عدالت میں پیش کردہ شواہد اور حقائق کی بنیاد پر فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔
انتہائی تجربہ کار صحافی وتجزیہ کار جناب مجیب الرحمن شامی بلاشبہ اپنی جوانی میں شعلہ بدہن اور آتش بداماں تھے‘ لیکن اب زندگی کے تجربات‘ پاکستانی تاریخ کامشاہدہ کرنے اور برتنے کے بعد وہ نہایت متوازن مزاج کے حامل ہو چکے ہیں۔ پہلے تولتے ہیں اور پھر بولتے ہیں‘ انہیں الفاظ کے معانی اور اُن کی تاثیر بھی معلوم ہے۔ لیکن اس توازنِ طبع کے باوجود انہوں نے جسٹس سید منصور علی شاہ کے اس خط کو پسند نہیں کیا۔ ہم انہی سے استفادہ کرتے ہوئے عالی مرتبت جج صاحب کے خط کا ترجمہ تحریر کر رہے ہیں: ''جب سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اپنے دائرہِ اختیار سے تجاوز کرتے ہوئے آئینی کردار سے باہر کے معاملات میں مداخلت کی تو میں نے ان کے ریفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور 17 جنوری 2019ء کو خط کے ذریعے اپنی وجوہ سپریم کورٹ میں رجسٹر کرائی تھیں۔ آج میں خود کو اسی فیصلے پر کھڑا پاتا ہوں‘ لیکن اس بار وجوہ مختلف اور زیادہ سنگین ہیں۔ ایک چیف جسٹس کا اصل فریضہ یہ ہے کہ وہ تمام لوگوں کے حقوق کا تحفظ کرے‘ عدلیہ کی خود مختاری کا دفاع کرے اور سب کیلئے انصاف کی فراہمی یقینی بنائے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ایک ''شترمرغ‘‘ کی طرح سر ریت میں چھپائے بیٹھے رہے۔ انہوں نے عدلیہ کو درپیش بحرانوں اور اندرونی مسائل کو نظر انداز کیا۔ چیف جسٹس نے مداخلت کے سامنے ڈھال بننے کے بجائے دروازے کھول دیے۔ طاقتوروں پر نظر رکھنا عدلیہ کا مقدس فریضہ ہے‘ لیکن انہوں نے اسے نظر انداز کر دیا۔ عدلیہ کا دفاع کرنے کی ان میں ''ہمت اور اخلاقی جرأت‘‘ نہ تھی‘ بلکہ انہوں نے ان کے لیے راہ ہموار کی جو اپنے ''ذاتی مفادات‘‘ کیلئے عدلیہ کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح انہوں نے عدلیہ کی خودمختاری پر ''سمجھوتا‘‘ کیا۔ انہوں نے اپنی کارروائیوں میں عدالتی ہم آہنگی کیلئے ساتھی ججوں کے ناگزیر تعاون اور احترام کو کھلم کھلا نظر انداز کیا۔ مشاورت اور باہمی رضامندی عدلیہ کا امتیاز ہے‘ وہ اپنی ''خود پسندی‘‘ کی وجہ سے اس کے ساتھ عدلیہ کی قیادت کرنے میں مسلسل ناکام رہے۔ انہوں نے ساتھی ججوں کے درمیان تقسیم کو بڑھایا‘ اختلافات کو فروغ دیا اور عدلیہ میں موجود آپسی تعلقات کو بگاڑا‘ جس کے اثرات دیر تک رہیں گے۔ ایسے چیف جسٹس کے اعزاز میں ریفرنس منعقد کرنا یہ پیغام دے گا کہ ایک چیف جسٹس اپنے ادارے سے ''دھوکا‘‘ کر سکتا ہے‘ اس کی طاقت کو ختم کر سکتا ہے۔ ''پست اور معیار سے گری ہوئی حرکتیں‘‘ کر سکتا ہے اور پھر بھی ایک معزز خادم کے طور پر سراہا جا سکتا ہے۔ معذرت کے ساتھ میں اپنے ضمیر کی آواز پر ایسے چیف جسٹس کے ریفرنس میں شامل نہیں ہو سکتا‘‘۔
ہمیں افسوس ہے کہ محترم شاہ صاحب کی شخصیت‘ معاملہ فہمی اور علم کے بارے میں سُن کر اور پڑھ کر جو تاثر ہمارے ذہن میں پیدا ہوا تھا‘ وہ چکنا چور ہو گیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے الوداعی ریفرنس میں نہ بیٹھنا اُن کا حق تھا اور اُن کے اجتناب سے اُن کا پیغام اورخاموش احتجاج اہلِ نظر کے علم میں آ جاتا اور شاید کسی درجے میں اُن کیلئے باعثِ تسکین بھی ہوتا۔ (جاری)