موجودہ سیاسی کھیل میں مولانا فضل الرحمن نے اپنی اُفتادِ طبع‘ تحمل اور دور اندیشی کے سبب اپنی قائدانہ حیثیت کو ایسا منوایا کہ سب اُن کی تعریف میں رطب اللّسان ہوگئے حتیٰ کہ پی ٹی آئی کو‘ جنہوں نے اُن کی توہین میں دینی‘ سماجی اور تہذیبی اقدار کی ساری حدیں عبور کر لی تھیں‘ ایسا یوٹرن لینا پڑا کہ اپنے آپ پر ہنسی آتی ہو گی یا رونا آتا ہو گا‘ نجانے اپنے ضمیر کو کیسے مطمئن کرتے ہوں گے‘ لیکن آج اُن کے نزدیک مولانا کی تعریف سب سے بڑی سعادت کی بات ہے۔ مولانا نے قومی اتفاقِ رائے پیدا کرنے میں بڑی ذہنی اور فکری کاوش کی‘ جو انتہائی قابلِ تحسین ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے پی ٹی آئی کو اس آئینی ترمیم کا حصہ بنا دیا۔ آج وہ بظاہر انکار کے باوجود چیف جسٹس کیلئے پارلیمانی کمیٹی کی رکنیت اختیار کر کے نظام کا حصہ بن چکے ہیں۔ ولی دکنی نے کہا تھا:
پہلے جو ''آپ‘‘ کہہ کر بلاتے تھے‘ اب وہ ''تُو‘‘ کہتے ہیں
وقت کے ساتھ خطابات بدل جاتے ہیں
اس شعر میں آپ تصرّف فرماکر ''آپ‘‘ کی جگہ ''تُو‘‘ اور ''تُو‘‘ کی جگہ ''آپ‘‘ لکھ دیں تو کچھ لوگوں کی حقیقت آپ کو سمجھ آ جائے گی۔ تاریخ یہ فیصلہ کرے گی کہ خان صاحب کی حکومت کے پورے عرصے میں جنرل فیض حمید نے سیاسی اور پارلیمانی بندوبست کو اپنے ہاتھ میں لے کر اُن کی سیاسی اہلیت کو نفع پہنچایا ہے یا نقصان۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا فضل الرحمن نے کسی حد تک ملک کو ایک بڑے سیاسی بحران سے بچا لیا اور امتناعِ ربا کیلئے آئین میں ایک حتمی تاریخ مقرر کرا کے ایک بڑا دینی ہدف حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ دینی مدارس کیلئے بھی ایک مطلوبہ ہدف خاموشی سے حاصل کر لیا‘ اس حوالے سے ہم اُن سے رابطے میں تھے۔
مولانا کے اس کردار میں دیگر دینی سیاسی جماعتوں کیلئے بھی درسِ عبرت ہے کہ کیا دین ومسلک کا اعلیٰ ترین ہدف آئے روز جلسوں‘ ریلیوں اور دھرنوں کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے یا اس کیلئے حُسنِ تدبیر وتدبُّر اور حکمتِ عملی کیساتھ ساتھ چہار دیواری کے اندر اجلاسوں میں اپنی قیادت اور کارکنوں کی تربیت اور ذہن سازی کی ضرورت ہوتی ہے‘ کیا ہر وقت سب کو ملامت کرنا مسئلے کا حل ہے۔ ہر قیادت کو یہ سمجھنا ہو گا کہ آج اگر انہیں قومی رہنمائی کا منصِب مل جائے تو ملک جس حالت میں بھی ہے‘ انہیں یہیں سے اُسے آگے لے کر جانا ہو گا‘ ہر ایک کو ادراک ہونا چاہیے کہ ملک کے حالات مثالی نہیں ہیں۔ بس یہی صلاحیت ہمارے ہاں کمیاب بلکہ نایاب ہے۔
دوسرا اہم سبق یہ ہے کہ اگر آپ نظام کے اندر ہیں تو کسی وقت تعداد کم ہونے کے باوجود آپ کی اہمیت غیر معمولی ہو سکتی ہے اور نظام سے باہر بہت بڑی عوامی حمایت کے باوجود آپ بے وَقعت ہیں‘ گنتی میں نہیں آتے‘ کیونکہ ہم ایک پارلیمانی جمہوری نظام کے اندر کام کر رہے ہیں۔ نظام سے اقتدار کے وہ ایوان مراد ہیں جہاں ہمارے ملکی وملّی امور کے فیصلے ہوتے ہیں۔ بعض دینی سیاسی جماعتوں نے آئے روز سڑکوں پر آنے کو سیاست کی معراج سمجھ لیا ہے اور اپنے آپ کو نظام سے باہر کر دیا ہے‘ کیونکہ ایسے لوگوں کو مقتدرہ‘ سیاسی حلیف وحریف سب ناقابلِ پیشگوئی سمجھتے ہیں۔ کسی صاحب نے پنجابی زبان کا یہ مقولہ نقل کیا تھا: ''عقل نہ ہووے تے موجاں ای موجاں‘ عقل ہووے تے سوچاں ای سوچاں‘‘۔ کاش کہ ہم نعرہ زنی کی طلاطم خیز موجوں سے کچھ وقت نکال کر سوچوں کی طرف بھی آئیں‘ اپنی حکمتِ عملی کے نقائص پر غور کریں اور اُن پر قابو پا کر اپنی غلطیوں کی تلافی کریں۔ آج کل کسی سیاسی قیادت کی پسند کے خلاف مشورہ دینا اپنے آپ کو اُن کے جاں نثاروں کی نظر میں مغضوب‘ معتوب اور ناپسندیدہ بنانا ہے‘ لیکن کسی کو تو کلمۂ حق کہنا ہو گا۔
معروف صحافی ظہور احمد نے ''جاوِداں‘‘ کے نام سے لاہور سے جواخبار نکالا تھا ‘ اس کی لوح پر اپنا اصول لکھا تھا: ''سب کی خبر دیں گے‘ سب کی خبر لیں گے‘‘۔ آج کی صحافت کا اصول ہے: ''سب کی خبر بنائیں گے‘ سب کو خبر بنائیں گے‘‘۔ الغرض صحافت کو کبھی مقدس فریضہ سمجھا جاتا تھا‘ لیکن چند مستثنیات کے سوا بہت پہلے دفن ہو چکی ہے۔ اب صحافت خواہشات کو خبر کا رنگ دینے یا حصولِ زر کا زینہ ہے۔ ایسی صحافت کیلئے اصول پسندی زہرِ قاتل ہے‘ اس لیے صحافی اس سے بچ کر رہتے ہیں۔ دوسرا المیہ یہ ہوا: وقت اتنا برق رفتار ہے کہ اُس کی نبض پر ہاتھ رکھنا صحافی کیلئے مشکل ہے‘ اگرچہ آج کے ''نام نہاد‘‘ صحافی کو اداکار و صداکار کہنا زیادہ موزوں ہو گا۔ آسمانِ صحافت پر صرف چند ستارے رہ گئے ہیں‘ انہیں انگلیوں پہ گنا جا سکتا ہے۔ سب کی نظریں خبر لینے کیلئے نادیدہ مقام یا سونے کی کان کی طرف لگی ہوتی ہیں‘ صحافت اور اصول پسندی اب متضاد چیزیں ہیں۔ جب تک مطبوعہ ذرائع ابلاغ تھے‘ خبر کیلئے چوبیس گھنٹے کا انتظار برداشت کر لیا جاتا تھا۔ وقت اتنا سست رفتار تھا کہ بعض اوقات چوبیس گھنٹے گزرنے کے باوجود خبر تخلیق نہیں ہو پاتی تھی۔ پھر پی ٹی وی آیا‘ اس کے بعد نجی چینل آئے‘ پھر سوشل میڈیا کے مختلف الانواع ڈیجیٹل فورم آ گئے کہ سیکنڈ اور منٹ کے اعتبار سے خبریں تخلیق ہونے لگیں اور خبر نگاروں و تجزیہ کاروں کیلئے خبروں کا انتخاب مشکل ہو گیا۔ ڈیجیٹل میڈیا پر تبصرہ فروشی کرنے والے اپنے آپ سے شرمسار ہونے لگے کہ ابھی تبصرہ اور تجزیہ کر کے فارغ نہیں ہوتے کہ وہ خبر باسی ہو جاتی ہے حتیٰ کہ اُس سے سڑاند آنے لگتی ہے۔ اب سوچتے ہیں کہ اسے اَپ لوڈ کیا جائے یا نہ کیا جائے‘ اگر اپنے ضمیر سے حیا آئے اور اپ لوڈ نہ کریں تو مال کہاں سے آئے‘ الغرض مسائل کا انبار ہے۔
گزشتہ کچھ عرصے سے ہمارے ہاں سیاسی اُکھاڑ پَچھاڑ‘ مکالمات‘ مذاکرات اور جوڑ توڑ میں اتنا اتار چڑھائو آتا رہا کہ اُسکی خبر نگاری مشکل ہو گئی‘ کسی کو معلوم نہیں ہو رہا تھا کہ اگلے لمحے کیا تبدیلی آئے گی۔ ہماری عدلیہ آج جس مقام پر پہنچی ہے‘ اس بارے شاعر نے بہت پہلے کہا تھا:
میں اگر ''سوختہ ساماں‘‘ ہوں تو یہ رُوزِ سیاہ
خود دکھایا ہے‘ میرے گھر کے ''چراغاں‘‘ نے مجھے
''کافر‘‘ مری تذلیل نہ کر سکتا تھا
یہ ''سوغات‘‘ عطا کی ہے ''مسلماں‘‘ نے مجھے
اس رباعی میں اگر 'کافر‘ کی جگہ ''مقتدرہ‘‘ 'مسلمان‘ کی جگہ ''عدلیہ ‘‘ 'چراغاں‘ کی جگہ ''عدلیہ کی بے لگام آزادی‘‘ اور 'سوغات‘ کی جگہ ''عدلیہ کا زوال‘‘ مراد لے لیں تو معنویت سمجھ میں آ جائے گی۔ الغرض خان صاحب کو بھی اس مقام پر خود خان صاحب اور آئین وقانون سے بالا عدلیہ نے پہنچایا ہے۔ عدلیہ نے ''بے لگام آزادی‘‘ کا اتنا بے دردی سے استعمال کیا کہ پورے نظام کو اپنے شکنجے میں جکڑ کر جام کر لیا اور ''جوڈیشل کُو‘‘ کی اصطلاح ایجاد ہوئی۔ ایوانِ عدل کو سیاست کا اَکھاڑا بنا دیا‘ آئین وقانون کے بجائے پسند اور ناپسند پر مبنی فیصلے ہونے لگے‘ ایسے کرتوتوں کا انجام ایسا ہی ہوتا ہے۔ اسی طرح عمران خان اپنے موجودہ انجام کے خود ذمہ دار ہیں‘ انہیں کسی اور کو ملامت کرنے کے بجائے خود کو ملامت کرنا چاہیے‘ لیکن ہمارے ہاں اپنے تزکیہ اور احتساب کی سرے سے کوئی روایت ہی نہیں ہے‘ جبکہ خان صاحب تو اپنے آپ کو ''راستی‘‘ کا مظہرِ کامل سمجھتے ہیں۔ اگر وہ اپنے عہدِ اقتدار میں اپنے مخالفین کو جینے دیتے تو انہیں کچھ اور نہیں چاہیے تھا۔ انہیں خان صاحب کے انتقام سے بچنے کیلئے مقتدرہ کی پناہ لینی پڑی۔ اگر اہلِ سیاست ایک دوسرے کو فنا کرنے اور نشانِ عبرت بنانے کے بجائے برداشت کرنے کا جذبہ پیدا کرتے تو ایک دوسرے کی تقویت کا باعث بنتے‘ اب ایک دوسرے کی بربادی کا باعث بن گئے ہیں اور اس میں ہر ایک کی باری اپنے اپنے وقت پر آ جاتی ہے۔ راحت اِندوری نے کہا ہے:
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے