پاکستان میں عدلیہ کی تاریخ کبھی بھی تابناک اور مثالی نہیں رہی۔ جسٹس منیر احمد سے اس کے زوال کا آغاز ہوا اور فیلڈ مارشل محمد ایوب خان اور جنرل محمد ضیاء الحق کے مارشل لاء اور جنرل پرویز مشرف کے دستورِ پاکستان کو معطل کر کے اقتدار پر قبضے اور پھر ایمرجنسی لگا کر عدلیہ کو معزول کر کے من پسند جج صاحبان سے پی سی او کا حلف لینے کی مثالیں اس کی روشن دلیل ہیں۔ جسٹس انوار الحق جنرل ضیاء الحق کو اور جسٹس ارشاد حسن خان جنرل پرویز مشرف کو شخصی طور پر آئین میں ترمیم کرنے اور تین سال حکمرانی کا اختیار بھی دے چکے تھے۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی معزولی‘ پھر عدالت کے ذریعے بحالی‘ پھر معزولی اور اس کے بعد ایک طویل ''عدلیہ بحالی تحریک‘‘ کے نتیجے میں دوبارہ بحالی کی تاریخ سب کو معلوم ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے 'روشن خیالی‘ کے ایجنڈے کو فروغ دینے کیلئے پرائیویٹ ٹیلی ویژن چینلوں کو لائسنس دیے‘ انہیں امید تھی کہ اُن کے ہاتھ کا کاشت کردہ یہ پودا ہمیشہ اُن کا ہمنوا اور مدح سرا رہے گا۔ لیکن یہی آزاد میڈیا اُن کے خلاف ہو گیا اور عدلیہ بحالی تحریک کو بلندیوں پر پہنچا دیا۔ اُس وقت اُن کے طویل ریلیوں اور مختلف بار ایسوسی ایشنوں سے خطابات کو گھنٹوں لائیو کوریج دی جاتی تھی اور فیض احمد فیض کی نظمیں بڑی شان سے سنائی جاتی تھیں‘ جن کے چند اشعار درج ذیل ہیں: ''جب ارض خدا کے کعبے سے‘ سب بت اٹھوائے جائیں گے؍ ہم اہلِ صفا مردودِحرم مَسند پہ بٹھائے جائیں گے ٭سب تاج اُچھالے جائیں گے‘ سب تخت گرائے جائیں گے؍ ہم دیکھیں گے‘ لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے ٭بس نام رہے گا اللہ کا‘ جو غائب بھی ہے حاضر بھی‘ جو منظر بھی ہے ناظر بھی ٭اور راج کرے گی خلق خدا‘ جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو ٭ہم دیکھیں گے‘ لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘‘
اُس وقت تاثر یہ تھا کہ یہ ایک فطری تحریک ہے‘ طبقۂ وکلا‘ سیاسی جماعتیں‘ سول سوسائٹی‘ الیکٹرانک وپرنٹ میڈیا اور عوام سب یک زبان ہو گئے ہیں اور گویا سب دل وجان سے اس تحریک کے پشتیبان ہیں اور یہ سب کے دل کی آواز ہے۔ طبقۂ وکلا میں سے بیرسٹر اعتزاز احسن اس تحریک کے سرخیل تھے اور سپریم کورٹ کے موجودہ مستعفی جج اطہر من اللہ چیف جسٹس کے ترجمان ‘ مگر بعد میں پتاچلا کہ اس کے پیچھے غیبی طاقتیں کارفرما تھیں اور اس تحریک کو جنرل کیانی کی اشیرباد حاصل تھی۔ اس لیے جب اسلام آباد کی طرف نواز شریف کا احتجاجی مارچ گوجرانوالہ پہنچا تو جنرل صاحب کا اعتزاز احسن کو فون آیا کہ آپ کا مطالبہ مان لیا گیا ہے‘ اس لیے تحریک کو موقوف کر دیں اور اس وقت کے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے ٹیلی ویژن پر آ کر جسٹس افتخار چودھری کی بحالی کا اعلان کیا۔ اس تحریک کے نتیجے میں جنرل پرویز مشرف کی اقتدار پر گرفت کمزور پڑ گئی اور آخرکار انہیں وردی اتارنا پڑی اور برّی افواج کی کمان جنرل کیانی کے حوالے کرنا پڑی۔ بعد میں اعتزاز احسن نے اس تحریک سے برآمد نتائج کو دیکھ کر برملا کہا: ''اس تحریک نے ہمیں متعصب جج اور متشدد وکلا دیے‘‘ اور حال ہی میں انہوں نے کہا ہے: ''میں عدلیہ سے مایوس ہوں‘‘۔ جسٹس افتخار محمد چودھری کو پوری قوم کی طرف سے اعزاز ملا تھا‘ مگر اُن کا ظرف چھوٹا تھا اور وہ بہت جلد چھلک گیا‘ لگا کہ معاذ اللہ! انہیں کوئی غیبی منصب مل گیا ہے‘ پھر انہوں نے پورے نظام کو شکنجے میں کَسنا شروع کر دیا‘ سب سے زیادہ زور آزمائی اُس وقت کے صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی پر ہوئی اور انجامِ کار سید یوسف رضا گیلانی کو توہینِ عدالت کا مرتکب قرار دے کر وزارتِ عظمیٰ کے منصب سے معزول کر دیا۔ اس کے بعد بھی اُن کی اَنا کو تسکین نہیں ملی اور انہوں نے پورے نظام کو لرزہ براندام کر دیا۔ اعتزاز احسن چونکہ افتخار محمد چودھری کی بحالی تحریک کے سرخیل تھے‘ اس لیے انہوں نے برتر اخلاقی پوزیشن اختیار کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ وہ جسٹس افتخار محمد چودھری کی عدالت میں بطورِ وکیل پیش نہیں ہوں گے۔ مگر افتخار محمد چودھری نے انہیں کہا: آپ ضرور میری عدالت میں پیش ہوں‘ پھر وہ سید یوسف رضا گیلانی کے وکیل بن کر پیش ہوئے اور افتخار محمد چودھری نے اپنے فیصلے میں سید یوسف رضا گیلانی کی وزارتِ عظمیٰ سے معزولی انہیں تحفے کے طور پر دی۔ چونکہ افتخار محمد چودھری ہر چیز کی شکست وریخت پر تُلے بیٹھے تھے‘ اس لیے انہوں نے ریکوڈک اور کارکے رینٹل کے بین الاقوامی معاہدوں کو منسوخ کر دیا‘ اس کی بعد بین الاقوامی عدالت میں پاکستان کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑی‘ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہمارے عالی مرتبت جج صاحبان ''قانونِ بین الاقوام‘‘ سے کس قدر بے بہرہ ہیں۔
اس کے بعد آنے والے چیف جسٹس صاحبان ثاقب نثار‘ آصف سعید کھوسہ‘ گلزار احمد اور عمر عطا بندیال نے تو ساری حدود پامال کر دیں۔ اس مہم میں بعض جج صاحبان اُن کے آلۂ کار تھے۔ بعض جج صاحبان کے اہلِ خانہ دھرنوں میں شریک ہوتے تھے۔ عوام کے مقدمات پسِ پشت ڈال دیے جاتے اور سیاسی مقدمات سجا کر ٹِکر چلوائے جاتے تھے۔ بعض فیصلوں کو جج صاحبان کے مقرّب میڈیا نمائندے پہلے ہی منکشف کر دیتے تھے۔
اس دوران اسلام آباد ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے بعض جج صاحبان نے قانونِ توہین عدالت کو اس قدر افراط کے ساتھ استعمال کیا کہ اُن کے نام ''گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ‘‘ میں درج ہونے چاہئیں۔ بات بات پر توہینِ عدالت کی دھمکی دی جاتی تھی‘ جسٹس ثاقب نثار کا تکیۂ کلام تھا: آرٹیکل 62F تو ہے نا۔ نظام لرزہ براندام رہا‘ دستور کی چھبیسویں اور ستائیسویں آئینی ترامیم کو کوئی بھی مثالی قرار نہیں دے گا‘ لیکن جب آپ نظام کو مفلوج کرنے پر تُلے بیٹھے ہوں‘ تو اگر نظام کمزور ہے تو ڈھ جائے گا اور طاقتور ہے تو اس کے بطن سے ایسی ہی آئینی ترامیم برآمد ہوں گی‘ یہ ایک ناخوشگوار حقیقت ہے۔ اگر عدالت کچھ توازن کے ساتھ چلتی تو شاید درمیانی راستہ نکل آتا۔ مقدمات کے فیصلے شخصی ترجیحات کی بنیاد پر آتے رہے‘ ایک فیصلے میں کہا گیا: ارکانِ پارلیمنٹ کو پارٹی سربراہ کی ہدایات کو ماننا ہوگا‘ ورنہ اُن پر ''خَلفِ وعد (Floor Crossing)‘‘ کی دفعہ لگے گی۔ دوسری بار جب صورتحال بدل گئی تو فیصلہ بھی بدل گیااور کہا گیا: ارکانِ پارلیمنٹ کو پارٹی کے پارلیمانی لیڈر کی ہدایات کو ماننا ہوگا‘ ورنہ ان پر فلور کراسنگ یعنی ''خَلفِ وَعد‘‘ کی دفعہ لگے گی‘‘۔ الغرض عالی مرتبت جج صاحبان نے بھی آئین کو موم کی ناک بنا دیا‘ تو کہنے والے کہہ سکتے ہیں: ''ایں گناہیست کہ در شہر شما نیز کنند‘‘۔ یعنی آئین سے کھلواڑ وہ گناہ ہے جو عدلیہ خود بھی کرتی رہی ہے۔ کیا دنیا کی کسی عدالت نے کوئی ایسی ضمانت دی ہے کہ آئندہ ہونے والے جرائم کیلئے بھی مؤثر ہو‘ جبکہ ہماری عدالتیں ایسی ضمانتیں بھی منظور کر چکی ہیں‘ لیکن یہ کس قانون کے تحت‘ اس کا ہمیں علم نہیں ہے۔ پس جب عدالتیں خود وزرائے اعظم کو معزول کر رہی تھیں‘ جن کے بارے میں آج پی ٹی آئی کے رہنما اور حامد خان صاحب جیسے وکلا کہہ رہے ہیں کہ وہ غلط تھا‘ تو کیا کسی جج نے اُس وقت احتجاجاً استعفیٰ دیا؟ جب اسلام آباد ہائیکورٹ کے سینئر جج جناب شوکت عزیز صدیقی کو جوڈیشل کمیشن کے ذریعے اُن کو سنے بغیر برطرف کیا جا رہا تھا تو جسٹس اطہر من اللہ نے اس کے خلاف ایک لفظ بھی کہا‘ حالانکہ وہ اسلام آباد بار ایسوسی ایشن میں کھلے عام بیان دے چکے تھے کہ مجھ پر جنرل فیض حمید نے بلا کر دبائو ڈالا اور من پسند فیصلہ کرنے کا حکم دیا اور اس کے نتیجے میں چیف جسٹس بنانے کی بشارت دی۔ لیکن جب انہوں نے اس حکم کو نہ مانا تو انہیں عدلیہ کو استعمال کرتے ہوئے برطرف کرا دیا‘ تب یہ اصول پسند جج کہاں تھے؟ جسٹس طارق محمود جہانگیری جب تک اپنی قانون کی ڈگری کی صحت وصداقت ثابت نہیں کر پاتے‘کیا اُن کے لیے عدالت کے منصب پر بیٹھنے کا اخلاقی جواز ہے؟ سو ہمارے آج اور کل میں کوئی فرق نہیں ہے۔ پس ملک کو آئین وقانون کے مطابق چلانے کے لیے ایک نئے قومی میثاق کی ضرورت ہے۔