جو کچھ ہوا‘ اس پر افسوس۔ صد افسوس۔ مگر یہ کیوں ہوا؟ اس حادثے کا ذمہ دار کون ہے؟
اس کے ذمہ دار وہ سیاسی راہنما‘ جہالت فروش اور جذبات کا کاروبار کرنے والے سوشل میڈیا کے نو مولود 'صحافی‘ ہیں جنہوں نے اقتدار کی معمول کی کشمکش کو حق و باطل کا معرکہ بنایا۔ جنہوں نے سیاسی کارکنوں کو کفن پہن کر نکلنے کو کہا۔ وہ سیاسی قیادت اس کی ذمہ دار ہے جس نے آخری کال دے کر پہلے جذبات کو اُبھارا اور پھر ایک سیاسی سرگرمی کو ریاست کے ساتھ تصادم میں بدل ڈالا۔
اگر یہ مقدمہ عقل کی عدالت میں پیش کیا جائے تو پہلی سماعت ہی میں خارج کر دیا جائے۔ تھوڑی دیر کے لیے یہ مان لیتے ہیں کہ ایک سیاسی جماعت الیکشن جیت چکی تھی۔ اس کی قیادت کو اقتدار سے دور رکھا گیا۔ اس پر جھوٹے مقدمات قائم ہوئے۔ اس کے کارکنوں کو بے وجہ گرفتار کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ اب اس کو کیا کرنا چاہیے؟ سیاست کے آداب کیا ہیں؟ قانون اور اخلاق کی تلقین کیا ہے؟ ان تمام سولات کے جواب عقل اور تاریخ نے دے رکھے ہیں۔
ان سب کو اگر ایک عنوان کے تحت بیان کیا جائے تو وہ ہے 'سیاسی جد و جہد‘۔ اس کا مطلب ہے آئین اور قانون کی حدود میں رہتے ہوئے اپنا مقدمہ پیش کرنا۔ ریاست کے ساتھ تصادم سے گریز کرنا کہ تصادم کسی سیاسی سفر کا آخری سنگِ میل ہے۔ اس کے بعد صرف منزل ہوتی ہے اور وہ کچھ بھی ہو سکتی ہے۔ تحریک انصاف اپنا مقدمہ عدالت میں لڑ رہی تھی اور اس میں اسے کامیابی مل رہی تھی۔ اس کی سیاسی سرگرمیاں جاری تھیں۔ وہ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے عوام تک اپنی بات پہنچا رہی تھی۔ قیدی رہا ہو رہے تھے۔ جلسوں کی بھی اجازت تھی۔ ایک صوبے میں اس کی حکومت قائم تھی اور مرکز کے ساتھ اشتعال آمیز رویے کے باجود اس حکومت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں تھا۔ اگر مشکل تھی تو اس کیساتھ آسانی بھی تھی۔ جبر تھا تو امکانات بھی موجود تھے۔ اس صورتحال میں آخری کال کی کیا کوئی ضرورت تھی؟
یہ تو عقلی اور منطقی مقدمہ ہے۔ تاریخ سے پوچھیں تو وہ بھی اس کی تائید کر رہی ہے۔ تمام اہم سیاسی جماعتیں اس سے کہیں بڑی سیاسی آزمائشوں سے گزری ہیں۔ کسی نے کبھی آخری کال نہیں دی۔ 1973ء میں راولپنڈی کے لیاقت باغ میں اپوزیشن کا ایک جلسہ ہوا۔ جلسہ چند گھنٹوں کی ایک سیاسی سرگرمی ہے۔ اس سے حکومت ختم نہیں ہو جاتی۔ اس کے باوجود جلسے پر حکومت کی طرف سے فائرنگ ہوئی اور کئی بے گناہ مارے گئے جو محض سامع تھے۔ مرنے والوں کا تعلق کے پی سے تھا۔ ولی خان مرحوم نے لاشیں اُٹھائیں اور واپس لوٹ گئے۔ کوئی آخری کال نہیں دی۔
پیپلز پارٹی کے ساتھ کیا نہیں ہوا؟ دو وزرائے اعظم قتل کر دیے گئے۔ ایک میں ریاست کا نظام براہِ راست ملوث تھا۔ جلسے کی اجازت بھی نہیں تھی۔ کارکنوں کو کوڑے مارے جاتے تھے۔ گرفتاریاں اس کے علاوہ۔ پیپلز پارٹی نے بھی کوئی آخری کال نہیں دی۔ (ن) لیگ نے دو عہد ہائے ستم گزارے۔ مشرف دور میں شریف خاندان جیل گیا‘ جلاوطن ہونا پڑا۔ اس کو ڈیل مان لیں تو بھی اس میں سیاسی جبر شامل تھا۔ (ن) لیگ کے لیڈر گرفتار ہوئے۔ پرویز رشید‘ جاوہد ہاشمی‘ رانا ثنا اللہ اور سعد رفیق کے ساتھ جیلوں میں ظلم ہوا۔ کوئی نفسیاتی مریض بن گیا اور کسی کے جسم پر آج بھی تشدد کے وہ نشان موجود ہیں جو ریاستی ظلم کی یاد کو محو نہیں ہونے دیتے۔ مسلم لیگ (ن) نے اس پر بھی کوئی آخری کال نہیں دی۔
صرف پاکستان نہیں‘ دنیا میں بھی یہی ہوتا ہے۔ بنگلہ دیش میں کیا ہوا؟ کیا کوئی گن کر بتا سکتا کہ جماعت اسلامی کے کتنے افراد کو پھانسی دی گئی؟ خالدہ ضیا کتنے برس جیل میں رہیں؟ نیلسن میڈیلا کی مثال بہت دی جاتی ہے۔ اُن کی سیاسی زندگی کا آغاز ہوا تو وہ مروجہ معنوں میں 'دہشت گرد‘ تھے۔ انہوں نے بندوق اٹھا رکھی تھی۔ پھر وقت نے انہیں سکھایا کہ یہ بربادی کا راستہ ہے۔ انہیں سیاسی جدو جہد کرنی چاہیے۔ 27 برس جیل میں گزار دیے۔ ان میں سے کسی نے کبھی آخری کال نہیں دی۔
یہ معلوم ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں کا پالا اُن لوگوں سے پڑا تھا جن کو حکومت میں رہنے کا کوئی آئینی حق نہیں تھا۔ پیپلز پارٹی کا سامنا مارشل لاء سے تھا اور (ن) لیگ کا بھی۔ ملک میں آئین اور بنیادی حقوق معطل تھے۔ ریاست کا نظام پی سی او کے تحت چلایا جا رہا تھا۔ عدالتیں آئین کے بجائے پی سی او کے مطابق فیصلے سنا رہی تھیں۔ بھٹو صاحب کو قتل کے مقدمے میں پھانسی دے دی گئی اور نواز شریف صاحب کو طیارہ اغوا کے مقدمے میں عمر قید۔ اس سب کچھ کے باوجود انہوں نے سیاسی جدو جہد کی اور اپنے کارکنوں کو تصادم کی راہ پر نہیں ڈالا۔
واقعہ یہ ہے کہ سیاست ایک صبر آزما کام ہے۔ تحریک انصاف کے لیڈر کو جیل گئے محض ایک سال ہوا ہے۔ بطور قیدی انہیں جو سہولتیں میسر ہیں‘ شاید ہی کسی قیدی کو ملی ہوں۔ کون سا قیدی ہو گا جسے جیل میں ورزش کی مشین دی جاتی ہے؟ کھانا بھی اپنی مرضی کا ملتا ہے۔ عدالتوں سے بھی مدد مل رہی ہے۔ مشکلات بھی ہیں مگر ایک سیاسی جماعت اسی طرح مشکلات میں سے راستہ نکالتی ہے۔ یہاں تک کہ حالات سازگار ہو جاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کا مشکل دور تمام ہوا اور اس پر اقتدار کے دروازے دوبارہ کھلے۔ (ن) لیگ پر بھی کھلے۔ تحریک انصاف پر بھی کھل سکتے ہیں۔ محض ایک برس میں ہمت ہارنا اور آخری کال دینا ایک غیرسیاسی عمل تھا۔
جب آخری کال دی گئی تو مطالبات کچھ اور تھے۔ جب اس کا باضابطہ آغاز ہوا تو یہ کہا گیا کہ خان صاحب کو ساتھ لے کر واپس لوٹیں گے۔ حکومت نے ایک عدالتی حکم کی موجود گی میں ریڈزون میں داخل ہو نے کی اجازت نہیں دی۔ حکومت نے یہ پیشکش کی کہ اسلام آباد کے ایک علاقے سنگجانی میں دھرنا دے سکتے ہیں۔ اس کو مان لیا گیا۔ اس کے باوصف ایک گروہ نے اپنی جماعت کی بات بھی نہیں مانی۔ ریاست کئی قدم پیچھے ہٹی۔ یہاں تک کہ دو پولیس والے مار دیے گئے۔ میں رینجرز کا ذکر نہیں کر رہا کہ اس واقعے کے بارے میں کوئی حتمی بات کہنا سرِ دست مشکل ہے۔ ریاست نے بار بارموقع دیا کہ مظاہرین لوٹ جائیں۔ اگر پھر بھی لوگ مان کر نہ دیں تو ریاست کو کیا کرنا چاہیے تھا؟
تمام شہریوں کے حقوق کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اس میں عام مزدور شامل ہیں۔ وہ دکاندار شامل ہیں جن کا کاروبار پانچ دن سے بند پڑا تھا۔ دارالحکومت ایک محاذِ جنگ کا منظر پیش کر رہا تھا۔ لاکھوں کے شہر میں معمول کی سرگرمیاں معطل تھیں۔ تعلیمی ادارے بند تھے۔ ریاست اس صورتحال پر کب تک خاموش رہ سکتی تھی؟ کیا دوسرے طبقات کا کوئی حق نہیں تھا؟ کیا ریاست اس کے لیے جواب دہ نہیں ہے؟
رینجرز اور پولیس کے جو لوگ مارے گئے‘ وہ شہید ہیں۔ وہ اپنے فرائضِ منصبی ادا کرتے ہوئے بے گناہ قتل کیے گئے۔ جو سیاسی کارکن اپنی سادہ لوحی میں مارے گئے‘ اللہ تعالیٰ ان کی بھی مغفرت کرے۔ اس واقعے کے اصل مجرم وہ سیاسی راہنما اور صحافتی سوداگر ہیں جنہوں نے اپنے دنیاوی مفادات کے لیے اقتدار کی اس کشمکش کو حق و باطل کا معرکہ بنایا اور آخری کال دے کر سیاسی عمل سے لاعلمی اور بے صبری کا انتہائی احمقانہ مظاہرہ کیا۔ رہا ریاست کا یہ نظام تو اس کی اخلاقی حیثیت پر میں لکھتا رہا ہوں۔ آج صرف یہ سوال پیشِ نظر ہے کہ جب بالفعل ایک سیاسی نظم قائم ہو تو اُس وقت مزاحمت کا درست طریقہ کیا ہوتا ہے؟ اس کی اخلاقی‘ قانونی اور عقلی حدود کیا ہیں؟ افسوس کہ یہ سب حدود پامال کر دی گئیں۔