"SUC" (space) message & send to 7575

خونِ خاک نشیناں

رات تین بجے تھکا ہوا محمد شہباز گھر پہنچا تھا۔ بھوکا پیاسا بھی تھا۔ اس کی بیوی صغریٰ اس کی خیر کی دعائیں مانگتی ہوئی جاگ رہی تھی۔ شہباز گھر میں داخل ہوا تو گویا اس کی جان میں جان آئی۔ اس نے کھانا گرم کیا‘ شہباز کو دیا لیکن شہباز کے چہرے کی تھکن اور پریشانی دیکھ کر اسے زیادہ کچھ پوچھنے کا حوصلہ نہیں ہوا۔ بس اتنا پتہ چلا کہ دو دن کی کڑی ڈیوٹی کے بعد شہباز کو کچھ گھنٹے گھر کیلئے ملے تھے اور علی الصبح اسے واپس پہنچنا تھا۔ ان چند گھنٹوں میں وہ اسے مزید پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔ پانچ جماعت پاس سیدھی سادی صغریٰ کو اس سے زیادہ کچھ نہیں چاہیے تھا کہ اسکا گھر اور اس کا شوہر پریشانی میں نہ رہیں۔ شہباز کی تین سالہ بیٹی باپ کا انتظار کر کے سو چکی تھی۔ شہباز کی بیمار ماں اپنی بیماری سے کئی سال سے لڑ رہی تھی لیکن جب سے صورتحال سنگین ہوئی تھی وہ بھی اپنی بیماری بھول کر دعاؤں میں لگی ہوئی تھی۔ شہباز آیا تو گویا اس کی سانسیں دوبارہ چلنے لگیں۔ شہباز نے ماں کو سلام کیا‘ طبیعت پوچھی اور سوئی ہوئی بیٹی کو پیار کیا۔ پتا چلا کہ پورے محلے میں سب عورتیں مرد پریشان ہیں۔ محلے کے کئی گھروں میں باہمی رشتے داری تھی اور سب کے بچے پولیس‘ رینجرز اور دیگر سکیورٹی اداروں میں ملازمت کرتے تھے۔ کوئی سپاہی‘ کوئی انسپکٹر۔ لیکن انہی گھروں میں کچھ بچے اس احتجاجی سیاسی جماعت کے بھی پُرجوش کارکن تھے اور جلوس میں شامل۔ سو تمام گھروں میں پریشانی تھی اور ایک جیسی صورتحال‘ اور یہ صورتحال بدلنا کسی کے بس میں نہیں تھا۔ ایک یا چند لوگوں کی بساط ہی کیا تھی۔ صورتحال عام لوگوں کیلئے بدلنا ممکن ہوتا تو کروڑوں انسان بدل نہ چکے ہوتے؟
شہباز کی ڈیوٹی ان سکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ تھی جو دارالحکومت میں اس سیاسی جماعت کے جلوس روکنے کیلئے مامور تھے۔ ایک صوبے پر حکومت کا بس نہیں چلتا تھا اس لیے وہاں تو کچھ نہیں ہو سکتا تھا لیکن اس کے پار افسران کے پاس ہر انتظام تھا۔ آنے والے قافلوں کو روکنے کیلئے ہر چھوٹے بڑے راستے کو بند کر دیا گیا تھا۔ موٹر ویز بند تھیں۔ جس راستے پر جہاں جہاں کنٹینر ممکن تھے وہاں کئی منزلہ آہنی دیوار کھڑی کر دی گئی تھی‘ جہاں گڑھے کھودے جا سکتے تھے وہاں گہری خندقیں کھود دی گئی تھیں۔ ان رکاوٹوں کے پار سکیورٹی اہلکارمتعین تھے۔ ان سب کے پاس آنسو گیس سمیت ہجوم کو منتشر کرنے کیلئے ضروری سامان تھا۔ پتھراؤ سے بچنے کیلئے ڈھالیں اور ہیلمٹ۔ سکیورٹی افسروں کو ہدایت تھی کہ ہر قیمت پر جلوس کو دارالحکومت پہنچنے سے روکنا ہے۔ اس لیے سب کی جان پر بنی ہوئی تھی۔ ہر افسر اپنے ماتحت افسر کو سخت ہدایات دے رہا تھا اور وہ اپنے نچلے اہلکاروں کو۔ ان سب احکامات کی تعمیل انہی اہلکاروں کو کرنی تھی۔ ان میں کچھ لوگ پہلی بار مظاہروں کا مزا چکھ رہے تھے۔ شہباز بھی انہی میں تھا جسے بھرتی ہوئے دو سال ہوئے تھے۔
اور یہ بھرتی کوئی آسان تھی کیا؟ کتنے چیک اَپ‘ کتنے امتحان‘ ہلکان کر دینے والے جسمانی ٹیسٹ اور پھرکتنی سفارشیں۔ کوئی اور ہنر آتا‘ کوئی اور ملازمت ممکن ہوتی تو ان سب کو چھوڑ کر وہ اختیار کر لیتے لیکن نجی ملازمت بھی کوئی آسان تھوڑی تھی؟ اور پھر وہ بھی کہاں ملتی تھی۔ معمولی تعلیم اور پھیلی ہوئی بیروزگاری کے ساتھ یہی ایک راستہ دکھائی دیتا تھا۔ جس کے پاس ایک ہی راستہ ہو وہ اور کہاں جائے۔ بھرتی ہو جاتے تو حکومتی ملازمت کے اپنے فوائد بھی تھے اور ریٹائر ہونے پر کچھ نہ کچھ پنشن بھی۔ شاید کچھ عرصے بعد کوئی سرکاری کوارٹر بھی مل جائے تو نصیب کھل جائیں اور کرائے سے نجات بھی ممکن ہو جائے۔ کرائے کا گھر‘ تنگدستی‘ چھوٹی بچی اور بیمار ماں کے ساتھ شہباز کی واحد امید یہی بھرتی تھی۔ اور شہباز ہی کی نہیں‘ اس کے چچا زاد اور ماموں زاد ہم عمروں اسلم‘ شاہد اور عمران کی بھی۔ سب ایک ہی کشتی کے سوار تھے اور وہ کشتی طوفانی لہروں میں ہچکولے کھاتی تھی۔ ان ہچکولوں میں ان کی ماؤں‘ بہنوں اور بیویوں کی دعائیں ہی ان کیلئے چپو تھے جن کے ساتھ وہ یہ دریا عبور کررہے تھے۔
بھرتی میں پہلی بارکا جسمانی امتحان شہباز پاس نہیں کر سکا تو گویا اس کے راستے پر چٹان آ گری۔ اسلم اور شاہد بھرتی ہو گئے تھے لیکن شہباز اور عمران رہ گئے تھے۔ یہ دو طرفہ تکلیف تھی۔ اپنے گھر‘ محلے کے گھروں اور ہم عمروں سے آنکھیں ملانا مشکل ہو رہا تھا۔ اگر شاہد یہ نہ بتاتا کہ دو ماہ بعد دوبارہ امتحان میں شامل ہوا جا سکتا ہے تو شہباز اور عمران کی زندگی اندھیر تھی۔ شہباز دوبارہ امتحان میں شامل ہوا تو اُس دن ماں اور بیوی سجدے سے نہ اٹھتی تھیں۔ اگلا دن وہ خوشخبری لایا جس کا پورے گھر کو بے چینی سے انتظار تھا۔ شہباز اور عمران امتحان میں کامیاب ہو کر بھرتی ہو چکے تھے۔
جس دن شہباز نے پہلی بار وردی پہنی‘ وہ دن ایک اور خوشخبری لے کر آیا۔ اسکی بیوی پھر امید سے تھی۔ شہباز کو امید تھی کہ ان کے گھرانے کے اچھے دن شروع ہو گئے ہیں۔ جلد ہی وہ وقت آنیوالا ہے جب دوسرے گھرانے انہیں رشک سے دیکھا کریں گے۔ لیکن دوسری طرف ملک کے حالات تیزی سے بدل رہے تھے۔ جو پہلے حکومت میں تھے‘ اب وہ احتجاج کر رہے تھے اور گرفتار ہو رہے تھے۔ جو پہلے احتجاج کرنے والے تھے‘ اب حکومت میں تھے اور مخالفوں کو گرفتار کر رہے تھے۔ اوپر سب کچھ بدل گیا تھا لیکن نیچے وہی سب کچھ تھا۔ اہلکاروں کیلئے احتجاجیوں کے پاس صرف دھمکیاں‘ پتھر اور گالیاں تھیں اور ان کے پاس بندوقیں‘ لاٹھیاں اور آنسو گیس۔ حکومت کے پاس صرف سخت احکام تھے۔ شہباز اور اسکے ساتھیوں کی دشمنی دوستی ان میں کسی سے نہیں تھی‘ انہیں غرض نہیں تھی کہ حکومت میں اب کون ہے اور مخالف کون؟ وہ حکم کے تابع تھے اور ان کے افسر احکام کے تابع۔ کون سا راستہ بند کرنا ہے‘ کب ڈنڈا چلانا ہے‘ کب آنسو گیس پھینکنی ہے۔ حکم ملتا تھا اور وہ مشینی انسانوں کی طرح حرکت میں آجاتے تھے۔ وہ مشینیں جو کھانے پانی اور نیند سے چارج ہوتی تھیں اور ان کے پاس اپنا دل اور دماغ نہیں ہوتا تھا۔ انہی مشینوں میں سے ایک شہباز بھی تھا۔
مظاہرین کے قافلے‘ جلوس دارالحکومت کی طرف نکل پڑے تھے۔ ان کے رہنما نے انہیں مارو یا مر جاؤ کی ہدایت کی تھی۔ سکیورٹی اہلکار کئی کئی دن گھر نہیں آتے تھے۔ وقت پر انہیں کھانا پانی مل جاتا تھا لیکن کم نفری اور فوری ضرورت کی وجہ سے کسی کو گھر جانے کی اجازت بہت مشکل سے ملتی تھی۔ ان کا دن سڑکوں پر طلوع ہوتا اور گاڑیوں میں غروب ہو جاتا۔ تھکے ہارے‘ گھر کو ترستے اہلکار فون پر بات کر لیتے تھے اور بس۔ ان کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں تھا اور یہ نوکری وہ کھونا نہیں چاہتے تھے۔
محلے کے ایک گھر میں ساری عورتیں جمع تھیں۔ خبریں اچھی نہیں آرہی تھیں اور ان کے بچے گھر نہیں آرہے تھے۔ پتھراؤ‘ فائرنگ کی اطلاعات تھیں‘ مسلسل گرفتاریوں کی بھی اور اہلکاروں کے زخمی ہونے کی بھی۔ مظاہرین ڈٹے ہوئے تھے کہ ہم نے مرکزی چوک تک پہنچنا ہے۔ حکومت اڑی ہوئی تھی کہ ہرگز نہیں‘ حساس علاقے میں جانے کی اجازت نہیں۔ کئی دن سے یہی چل رہا تھا لیکن ابھی ایک بڑی خبر آنی تھی۔ ٹی وی پر چلتی اس خبر نے سب کی توجہ کھینچ لی۔ کسی گاڑی تلے آکر چار اہلکار شہید ہو گئے تھے اور سات شدید زخمی تھے۔ اب تک 100 سے زیادہ اہلکاروں کے زخمی ہونے اور متعدد کے شدید زخمی ہونے کی خبریں تھیں۔ ایک یہ بھی خبر تھی کہ مظاہرین میں بھی لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ کسی کو علم نہ تھا کہ یہ جو شہید ہوئے‘ وہ کون تھے؟ جو زخمی ہوئے وہ کون؟ اندھی گولی کبھی آنکھیں کھول کر دیکھتی ہے کہ یہ کس ماں کا بیٹا تھا؟ کچلتی گاڑی کسی بیٹی کے باپ کا نام کب جانتی ہے؟ کسی پھینکے جانے والے پتھر نے کبھی پوچھا ہے کہ یہ شخص کس کا سہاگ ہے؟ پتا نہیں چل رہا تھا۔ عورتوں کی چیخیں بلند ہونی شروع ہو چکی تھیں۔ سب مسلسل اپنے اپنے بچوں کے فون نمبر ملا رہے تھے اور کسی کا فون نہیں مل رہا تھا۔ سب کے نمبر بند تھے۔ کیا اہلکار‘ کیا مظاہرین۔ سب خاک نشینوں کے نمبر خاموش ہو چکے تھے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں