"RS" (space) message & send to 7575

کون ہوگا کپتان کا جانشین؟

نو مئی 2023ء کے پُرتشدد واقعات پی ٹی آئی کی طرف سے خان صاحب کی گرفتاری کے خلاف ردعمل کا اظہار تھے‘ مگر یہ کوئی ایک واقعہ نہ تھا بلکہ پورے ملک میں جلاؤ گھیراؤ اور تشدد کے مظاہرے دیکھے گئے۔ چونکہ مختلف شہروں میں قومی تنصیبات پر حملوں کے واقعات پیش آئے تھے اس لیے مختلف واقعات کی مختلف تھانوں میں ایف آئی آر درج ہوئیں۔ پی ٹی آئی کے کچھ رہنماوں پر کئی کئی ایف آئی آر درج ہو گئیں۔ یہ پس منظر اس لیے جاننا ضروری ہے کہ کچھ لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ بعض مقدمات میں عدالتوں سے ریلیف ملنے کے بعد بھی خان صاحب یا پی ٹی آئی کی قیادت پابند سلاسل کیوں ہے۔ ایک کیس میں بری ہونے کے بعد اگر ملزم دوسرے کیس میں بھی مطلوب ہو تو رہائی کے بعد کسی دوسرے کیس میں گرفتاری عمل میں لائی جاتی ہے‘ سو خان صاحب اور پی ٹی آئی رہنماؤں کے تاحال پابند سلاسل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ تمام مقدمات میں وہ بری نہیں ہوئے۔ عدالتوں سے تمام مقدمات میں بری ہونے کے بعد بھی اگر انہیں جیل میں رکھا جاتا ہے تو اس صورت میں پی ٹی آئی کا شکوہ بجا طور پر درست ہو گا۔ ایسے ہی ایک مقدمے کا فیصلہ لاہور کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے سنایا ہے۔ لاہور کے تھانہ ریس کورس میں درج مقدمے میں کلب چوک جی او آر کے گیٹ پر حملے پر شاہ محمود قریشی‘ یاسمین راشد‘ اعجاز چوہدری‘ عمر سرفراز چیمہ‘ میاں محمود الرشید سمیت 21 افراد پر توڑ پھوڑ اور انتشار پھیلانے کا الزام لگایا گیا تھا۔ انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے اس مقدمے میں شاہ محمود قریشی کو بری کر دیا جبکہ یاسمین راشد سمیت دیگر رہنماؤں کو دس‘ دس سال قید کی سزا سنا دی۔ موضوعِ بحث شاہ محمود قریشی کا نو مئی کے مقدمات میں بری ہونا ہے‘ اس سے قبل جولائی‘ اگست اور ستمبر میں بھی شاہ محمود قریشی کو کم از کم پانچ مقدمات میں ریلیف مل چکا ہے۔ شاہ محمود قریشی پر نو مئی کے الزمات میں نو مقدمات درج تھے۔ کہا جا رہا ہے کہ آئندہ چند دنوں میں نو مئی کے مزید دو مقدمات کا فیصلہ آنے والا ہے۔ جولائی میں جب انسدادِ دہشت گردی کی عدالت سے شاہ محمود قریشی کو ریلیف ملا تو اسی وقت سے یہ سوالات اٹھنے لگے تھے کہ شاہ محمود قریشی کو ریلیف کیوں مل رہا ہے اور دوسرے رہنماؤں کو سزائیں کیوں ہو رہی ہیں؟ نو مئی کے مقدمات کے ضمن میں شاہ محمود قریشی کا شروع سے ہی یہ مؤقف ہے کہ اس دن وہ کراچی میں تھے۔ اب ایک بندہ بیک وقت کراچی اور لاہور میں کیسے موجود ہو سکتا ہے؟ نہ ہی کوئی ایسی بات سامنے آئی ہے کہ شاہ محمود قریشی لوگوں کو ہنگامہ آرائی پر اکسا رہے تھے۔ عدالتیں ٹھوس شواہد کے بغیر کسی نامزد ملزم کو سزا کیسے سنا سکتی ہیں؟ یہ مؤقف شاہ محمود قریشی کی طرف سے سامنا آیا ہے‘ لیکن کیا معاملہ واقعی اتنا سادہ ہے جیسے بیان کیا جا رہا ہے؟
پی ٹی آئی قیادت اور کارکنان کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ خان صاحب کو مائنس کر کے شاہ محمود قریشی کو پارٹی کی باگ ڈور سونپنے کیلئے انہیں مقدمات میں ریلیف دیا جا رہا ہے اور یہ پہلے سے طے شدہ منصوبے کا حصہ ہے۔ اگلا سوال یہ ہے کہ اگر اس مفروضے میں کسی حد تک صداقت ہے تو کیا شاہ محمود قریشی کارکنان کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے؟ اس کا جواب نفی میں ہے کیونکہ پی ٹی آئی فردِ واحد کا نام ہے اور وہ ہیں خان صاحب۔ اگر انہیں مائنس کیا جائے تو پیچھے کچھ بھی نہیں رہ جاتا۔ یہ الگ بات ہے کہ خان صاحب نے پارٹی کو طویل مدت تک زندہ رکھنے کیلئے متبادل قیادت تیار کیوں نہیں کی؟ لیکن یہ حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی کارکنان خان صاحب کے علاوہ شاہ محمود قریشی سمیت کسی شخصیت پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔ تو پھر آگے کیا ہو گا؟
پی ٹی آئی کے سیاسی مستقبل اور آگے کے منظر نامے کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ ماضی قریب میں ایم کیو ایم کے احوال کو سمجھا جائے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پی ٹی آئی عوامی سطح کی سیاسی جماعت ہے‘ ملک بھر میں اس کا ووٹ بینک موجود ہے۔ بالکل ایسے ہی ایم کیو ایم کا کراچی‘ حیدرآباد اور سندھ کے بعض دیگر شہروں میں ووٹ بینک تھا اور اب بھی ہے۔ یہ جملے زبان زدِ عام تھے کہ الطاف حسین کے ایک اشارے پر پورا کراچی بند ہو جاتا تھا۔ وہ برسوں سے لندن میں بیٹھ کر پارٹی کی قیادت کر رہے تھے اور پاکستان میں موجود ایم کیو ایم کی قیادت ان سے احکامات لینے کیلئے لندن جایا کرتی تھی۔ قیادت میں سے کسی کا الطاف حسین کے خلاف بولنے کا تصور بھی محال تھا مگر جب مئی 2015ء میں الطاف حسین نے کارکنوں سے ٹیلی فونک خطاب میں اپنی پارٹی پر ہونے والے مظالم کا ذکر کرتے ہوئے بھارت کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی را سے مبینہ طور پر مدد طلب کی تو ظاہر ہے اس پر ردِعمل آنا تھا سو قومی اداروں‘ سیاستدانوں سمیت ملک کے ہر ذی شعور شخص نے اس کی مذمت کی۔ اگلے روز الطاف حسین کو اس کی سنگینی کا اندازہ ہوا کہ جوشِ خطابت میں وہ کس قدر خطرناک بات کہہ گئے ہیں سو انہوں نے کمال مہارت سے پینترا بدلا اور اپنے متنازع بیان پر معافی مانگتے ہوئے کہا کہ را سے مدد کی بات طنز کے طور پر کی گئی تھی اور جملے کا مقصد حقیقتاً ہندوستانی ایجنسی سے مدد مانگنا نہیں تھا۔ الطاف حسین نے کہا کہ اگر قومی سلامتی کے اداروں اور محب وطن افراد کی دل آزاری ہوئی تو میں معافی کا طلب گار ہوں لیکن تب شاید تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ ایم کیو ایم کی متبادل قیادت نے چند گھنٹوں میں پریس کانفرنس کرکے الطاف حسین سے لاتعلقی کر دی۔ کئی ایک نے تو سیاست ترک کرنے کا اعلان کر دیا۔ یہ وہ مقام تھا جب الطاف حسین تنہا رہ گئے‘ جو لوگ الطاف حسین کے کہنے پر چند گھنٹوں میں پورا شہر بند کر دیا کرتے تھے ان میں سے کوئی الطاف حسین کا ساتھ دینے کیلئے تیار نہ تھا۔ یوں مہاجر کمیونٹی میں مقبول سمجھا جانے والا لیڈر مائنس ہو گیا مگر چونکہ پارٹی کا ووٹ بینک تھا تو ایم کیو ایم کی بکھری قیادت یکجا ہونے لگی اور مہاجروں کو ایم کیو ایم پاکستان کے نام سے سیاسی پلیٹ فارم مل گیا۔
دیکھا جائے تو پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کا معاملہ کافی حد تک مطابقت رکھتا ہے۔ دونوں جماعتوں کے لیڈر مقبول تھے‘ دونوں نے ریڈ لائن کراس کی‘ الطاف حسین نے تو اگلے ہی روز معافی مانگ لی تھی اس کے باوجود انہیں معافی نہیں ملی۔ اس کے برعکس خان صاحب نو مئی کے واقعات پر معافی مانگنے کیلئے آمادہ نہیں‘ وہ خود بھی کئی بار کہہ چکے ہیں کہ وہ کسی صورت نہیں جھکیں گے حالانکہ انہیں واضح طور پر اشارہ دیا گیا کہ وہ معافی مانگ لیں تو معاملات آگے بڑھ سکتے ہیں۔ یوں لگتا ہے اب بہت بہت دیر ہو چکی ہے۔ ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کا ایک جیسا انجام دکھائی دیتا ہے جس طرح ایم کیو ایم سیاسی میدان میں موجود ہے‘ پی ٹی آئی بھی کسی نہ کسی شکل میں باقی رہے گی‘ شاہ محمود قریشی نہیں تو کوئی اور ہو گا جو پارٹی کی قیادت کرے گا۔ معاملات ریورس نہیں ہوں گے۔ فیض حمید کو سزا کے بعد خان صاحب اور بشریٰ بی بی کو توشہ خانہ کیس میں 17‘ 17 سال کی سزا ہونا‘ پوری کہانی کو سمجھنے کیلئے کافی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں