یوں تو پوری دنیا ازل سے اور مسلسل تبدیلیوں کی زد میں ہے لیکن روئے ارض پر رونما ہونے والی حالیہ تبدیلیاں خاصی تعجب خیز ہیں اور معنی خیز بھی۔ باغیوں کی جانب سے شام پر قبضے کی کوششیں تو مارچ 2011ء سے ہو رہی تھیں‘ پھر ساڑھے تیرہ سال بعد آٹھ دسمبر 2024ء کو ایسا کیا ہو گیا کہ بشارالاسد کے 24برسوں سے زیادہ عرصہ پر محیط اقتدار کا اچانک خاتمہ ہو گیا؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے ہمیں تیرہ برس پیچھے جا کر ٹائم لائن کا جائزہ لینا ہو گا۔
شام میں خانہ جنگی کا آغاز 13 برس پہلے عرب بہار کے عروج کے زمانے میں ہوا تھا اور اس وقت خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ یہ ملک بھی عرب بہار کی انقلابی لہر کی نذر ہو جائے گا۔ عرب بہار دسمبر 2010ء سے دسمبر 2012ء تک‘ یعنی دو سال جاری والے ان پے در پے واقعات کا نام ہے جن کے تحت مشرقِ وسطیٰ میں حکمرانوں اور حکومتوں کی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ تیونس سے شروع ہونے والے حکومت مخالف احتجاج بعد ازاں لیبیا‘ مصر‘ یمن‘ شام اور بحرین میں بھی پھیل گئے۔ اس عرصے میں مراکش‘ عراق‘ الجیریا‘ لبنان‘ اردن‘ کویت‘ عمان‘ سوڈان‘ جبوتی‘ موریطانیہ‘ فلسطین‘ سعودی عرب اور مغربی سہارا میں چھوٹے بڑے متعدد مظاہرے ہوئے۔ اس سارے عرصے میں شام میں حالات مخدوش ہوئے لیکن نوبت حکومت کے خاتمے تک نہیں آئی تھی‘ لیکن اب یکایک جانے کیا ہو گیا کہ بشارالاسد کی حکومت ختم ہو گئی اور باغیوں نے ملک پر قبضہ کر لیا؟ یہ قبضہ اس وقت ہوا جب یہ تصور کر لیا گیا تھا کہ شام میں باغی عسکریت پسندوں کی طاقت ختم ہو چکی ہے۔ باقی دنیا کی طرح یہ حملہ بشارالاسد کے لیے بالکل غیرمتوقع تھا۔ باغی قوتوں نے شام کے دوسرے بڑے شہر یعنی حلب پر قبضہ کرتے ہوئے سرکاری فوج کو بے دخل ہونے پر مجبور کر دیا۔ دسمبر 2016ء میں باغیوں نے شکست قبول کرتے ہوئے یہ شہر شامی فورسز کے حوالے کر دیا تھا اور اب آٹھ سال بعد ایک بار پھر دسمبر میں ہی باغیوں نے حلب کو دوبارہ اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔
2018ء سے شام خانہ جنگی کی وجہ سے تین حصوں میں بٹ چکا تھا۔ ایک جانب صدر بشارالاسد کی حکومت کے زیر کنٹرول علاقے تھے۔ دوسرا حصہ باغیوں کے پاس تھا جبکہ تیسرا علاقہ کردوں کے زیر اثر تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ شام میں ایک عالمی بساط بچھی ہوئی ہے جس پر سبھی اپنی اپنی چالیں چل رہے ہیں۔ بشارالاسد کی حکومت کو ایران اور روس کی حمایت حاصل تھی۔ مسلح حکومت مخالف گروہ کی پشت پناہی سعودی عرب اور امریکہ کر رہے تھے جبکہ ترکیہ شام میں کردوں کی حمایت کر رہا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ بشارالاسد کی حکومت گزشتہ کئی برسوں سے بیرونی سہاروں پر قائم تھی۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا‘ اس کا زیادہ تر انحصار روس اور ایران کی جانب سے ملنے والی مختلف نوعیت کی امداد پر تھا۔ اب ہوا یہ کہ فلسطین میں اسرائیل اور حماس کے مابین جنگ کی وجہ سے وہ بیرونی ذرائع متاثر ہو رہے تھے۔ اسرائیل کی کارروائیوں کے نتیجے میں حزب اللہ کو پہنچنے والے نقصان‘ لبنان میں اسرائیل کے حملوں اور ایران کے ساتھ اسرائیل کی جھڑپوں کی وجہ سے ایران اس قابل نہیں رہا کہ شام میں بشارالاسد پر توجہ دے سکتا۔ اسی طرح یوکرین میں روس کی بڑھتی ہوئی توجہ کی وجہ سے پوتن کے لیے شام پر ارتکاز قائم رکھنا ممکن نہیں رہا تھا۔ یوں شام کی حکومت تنہا رہ گئی تھی اور یہی موقع تھا جب ہیئت تحریر الشام نے اچانک حملہ کیا اور کئی علاقوں پر قبضہ کر لیا جس کے بعد بشارالاسد کو اپنے ہی ملک سے فرار ہونا پڑا۔
یہ تو ماضی قریب کی بات ہے کہ 2020ء میں روس اور ترکی نے ادلب میں جنگ بندی کا معاہدہ کرایا اور مشترکہ پٹرولنگ کے لیے ایک سکیورٹی راہداری قائم کی تھی۔ اگرچہ اس معاہدے کے بعد بڑے پیمانے پر جھڑپیں ختم ہو گئی تھیں لیکن حالات مکمل طور پر اعتدال پر نہیں آئے تھے۔ شام کی حکومت بھی مکمل کنٹرول حاصل نہیں کر پائی تھی۔ موجودہ صورتحال میں کمزور حکومت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے باغی پھر متحرک ہو گئے تھے کیونکہ بشارالاسد کے اہم حامی‘ روس اور ایران دیگر تنازعات میں پھنسے ہوئے تھے۔
شام کے صدر بشارالاسد 24سالہ اقتدار کے خاتمے پر ملک سے فرار ہونے کے بعد اہلِ خانہ سمیت روس پہنچ گئے جبکہ باغیوں کی جانب سے سرکاری ٹی وی پر دمشق کی فتح کا اعلان نشر ہوتے ہی ہزاروں افراد نے دارالحکومت کے مرکز میں واقع امیہ چوک میں آزادی کا جشن منایا۔ یہ جشن دراصل شام کے ایک نئے دور میں شامل ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ شام کے عوام کے امتحان لگتا ہے کہ ابھی ختم نہیں ہوئے۔ اگر تیونس‘ مصر‘ لیبیا‘ یمن اور عرب بہار کا شکار ہونے والے ممالک میں خانہ جنگی کے نتیجے میں امن قائم ہو گیا تھا اور وہاں تعمیروترقی کے راستے کھل گئے تھے تو یہ موقع شام کو بھی ملنے والا ہے‘ لیکن اگر عرب بہار نے ان ممالک کو تباہی و بربادی کی داستان بنایا تو شام کے حالات بھی اس سے مختلف نہیں ہوں گے۔ اب آگے کیا ہوتا ہے‘ اس بارے میں ابھی وثوق کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا تاہم یہ واضح ہے کہ شام میں خانہ جنگی کا ابھی مکمل خاتمہ نہیں ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ آیا شام ایک ملک کے طور پر قائم رہے گا یا اس کے تین حصے ہو جائیں گے؟ پہلا بشارالاسد کے حامیوں والا حصہ‘ دوسرا ترکیہ کے حمایت یافتہ کردوں کا حصہ اور تیسرا امریکہ اور سعودی عرب کے حمایت یافتہ باغیوں کا حصہ؟ میرے خیال میں اس بات کا فیصلہ کرنے کے لیے اب مذکورہ بالا تینوں قوتوں یا سٹیک ہولڈرز‘ جو بھی انہیں نام دیں‘ یہ خانہ جنگی کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گا اور یوں شام میں تباہی و بربادی کا سلسلہ ابھی جاری رہے گا۔
یہ صورتحال سب سے زیادہ مشرقِ وسطیٰ اور اس کے بعد ملحقہ علاقوں میں واقع ممالک کے لیے تشویش کا باعث ہونی چاہیے۔ کئی سوالات پیدا ہو گئے ہیں جن کے جواب تلاش کرنا ضروری محسوس ہوتا ہے۔ کیا عرب بہار کا دوسرا مرحلہ شروع ہو رہا ہے؟ کیا اسرائیل کی جانب سے لبنان اور غزہ پر حملوں کا سلسلہ تھم سکے گا؟ مغربی طاقتوں کا حمایت یافتہ طاقتور اسرائیل غزہ اور لبنان میں جنگ بندی پر کیسے تیار ہو سکتا ہے؟ کیا لبنان اور غزہ کی مکمل تباہی نوشتہ دیوار بن چکی ہے؟ وہ تباہی جو پوری دنیا کے سامنے ہوئی اور جس کو روکنے کے لیے بیان بازی اور زبانی جمع خرچ کے سوا عالمی برادری کی جانب سے کچھ بھی نہ کیا جا سکا؟ کیا مشرقِ وسطیٰ کے عرب بہار اور اسرائیلی جارحیت سے بچ جانے والے ممالک ہوش کے ناخن لیں گے؟ اپنے مستقبل کے بارے میں کچھ سوچیں گے؟ اگلے ماہ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ ایک بار پھر اقتدار سنبھالنے والے ہیں اور انہوں نے اپنی جو کابینہ تشکیل دی ہے اس سے نہیں لگتا کہ امریکہ کے اندر یا باہر کچھ سکون ہو سکے گا۔ تو کیا دنیا ایک بڑی بربادی کے دہانے پر کھڑی ہے اور کیا تیسری عالمی جنگ کے لیے سٹیج تیار ہے؟ تیسری عالمی جنگ ہوئی تو اس کے روئے ارض پر بسنے والے آٹھ ارب انسانوں کے زندگیوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ کیا انسان ایک بار پھر غاروں کی طرف لوٹ جانے کا بندوبست کر رہا ہے؟ یہ اور اس سے ملتے جلتے بہت سے سوالات کا جواب ہم اگلے کالم میں تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔