کیا' شام ‘میں صبح ہو گئی؟ظلم کی طویل رات کیا ختم گئی؟
اس میں تو کوئی شبہ نہیں کہ اسد خاندان کا عرصہ ا قتدار‘ظلم کی ایک طویل رات تھی جو تمام ہوئی۔یہ وحشیانہ اقتدار کا ایک دور تھا جو نصف صدی کو محیط تھا۔ حافظ الاسد ‘ان کے بھائی رفعت الاسد اور ان کے صاحبزادے بشار الاسد نے اپنے ہی عوام پر جو ظلم ڈھایا‘مہذب دنیا اس کا تصور نہیں کر سکتی۔ 1982ء میں رفعت الاسد نے اپنے بھائی حافظ الاسد کے کہنے پر حمہ شہر کے ہزاروں مکینوں کو تہ تیغ کر دیا۔ یہ شہر الاخوان المسلمون کا مرکز تھا۔ رفعت نے پھراپنے بھائی کے خلاف بغاوت کر نا چاہی جو ناکام رہی۔سزا ملی تو یہ کہ فرانس میں 36سال جلا وطن رہا۔ بشار الاسد کا معاملہ یہ تھا کہ 2011ء میں عرب ِ بہار کو خزاں میں بدلنے کے لیے کم و بیش پانچ لاکھ افراد کو قتل کروایا۔ جس اقتدار کے لیے یہ سب کچھ کیا‘وہ بھی باقی نہیں رہا۔ سوال یہ ہے کہ یہ تبدیلی شام ا ور دنیا پر کیا اثرات مرتب کرے گی؟
حافظ الاسد کی جگہ ہیئت تحریر الشام نے لے لی ہے۔اس کے راہنما ابو محمد الجولانی اس 'جہادی ‘کلچر کا ثمرہیں جس نے بیسویں صدی کے آخری عشرے میں جنم لیا۔ یہ القاعدہ میں رہے‘ داعش میں رہے اور پھر الگ گروپ بنا لیا۔ القاعدہ اور داعش کی کوکھ سے کئی انتہا پسند گروہوں نے جنم لیا۔ ان میں سے ایک گروہ جولانی کا بھی ہے۔ ان کے خیالات میں ایک تبدیل آئی جس کا اظہار انہوں نے اپنے ایک انٹر ویو میں کیا۔القاعدہ کا ایجنڈا عالمگیر تھا۔اس نے امریکہ کی عالمی حیثیت کو دنیا بھر میں چیلنج کیا۔داعش بھی عالمی خلافت کے قیام کے لیے بنی۔جولانی نے خود کو اس عالمی ایجنڈے سے الگ کر لیا اور سرزمینِ شام میں اسلام کے قیام اور اقتدار کی تبدیلی کو اپنا ہدف قرار دیا۔حکمتِ عملی البتہ ان کی بھی وہی ہے جو القاعدہ یا داعش کی ہے۔
گزشتہ تین عشروں کی تاریخ کو سامنے رکھیں تو شام کا معاملہ‘ آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا‘جیسا دکھائی دیتا ہے۔ اس کا امکان موجود ہے کہ شام میں مختلف عسکری گروہ ایک دوسرے سے برِ سرپیکاررہیں اور ایک نئی خانہ جنگی شروع ہو جا ئے۔بادشاہت کا یہ فائدہ ضرور ہوتا ہے کہ وہ قومی وحدت کو برقرار رکھتی ہے۔ایک دوسرے سے معرکہ آرا گروہوں میں سے کوئی اقتدارتک پہنچ جا ئے تو اسے دوسروں کی مزاحمت کا سامنا رہتا ہے۔ شام میں ‘اس لیے یہ امکان موجود ہے کہ ایک نئی خانہ جنگی کا آغاز ہو جائے اور شام کے عوام تنگ آکر ایک بار پھر اُس دور کو یاد کر یں جو ظالمانہ تھا مگر اس نے ملک کی و حدت کو قائم رکھا تھا۔اس لیے مجھے خوف ہے کہ شام میں شاید وہ امن نہ آ سکے جو اس کی اشد ضرورت ہے۔
علاقائی سیاست پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوں گے جو بہت اہم ہیں۔ایران بشار الاسد کا حامی تھا۔اب جو گروہ برسرِ اقتدار آیا ہے‘وہ مسلکی اور سیاسی اعتبار سے ایران مخالف ہے۔ایران کی طرف سے بشار الاسد کو ہر مشکل میں کمک ملتی رہی ہے۔بشار الاسد نے جو آخری ملاقات کی‘وہ ایرانی وزیر خارجہ ہی سے کی۔تاہم ا س وقت ایران ان کی کوئی مدد نہیں کر سکا۔ اس تبدیلی سے علاقائی سطح پر ایران کے اثرات کم ہو ں گے۔عرب حکمران کے لیے بھی الجولانی کا برسرِ اقتدار آنا کوئی خیر کی خبر نہیں‘ مگر ان کو کچھ خاص فرق نہیں پڑے گا۔عرب اس وقت کسی محاذ آرائی کے حق میں نہیں ہیں۔ اس لیے اس کا کوئی براہ ِراست اثر ہو گا تو وہ ایران پر ہو گا۔
بشار الاسد کا زوال عرب دنیا میں بعث پارٹی کے خاتمے کا غیر رسمی اعلان بھی ہے۔ صدام حسین اور حافظ الاسد وغیرہ اس کے نمایاںراہنماتھے۔'بعث ازم ‘ کے علمبردارعرب ازم اور سوشلزم کے علمبردار تھے۔ انقلابی نظریاتی سیاست میں چونکہ اخلاقیات اہم نہیں ہوتے‘اس لیے یہ سب لوگ موجود نظام کے خلاف بغاوت کے نتیجے میں اقتدار پر قابض ہو ئے اور انہوں نے بدترین آمریت کا مظاہرہ کیا۔حافظ الاسد نے اپنی جانشینی کے لیے سب سے پہلے اپنے بھائی رفعت کا انتخاب کیا۔اس نے حافظ کی علالت کے دوران اس کا تختہ الٹنے کی ناکام کو شش کی تو اس کا انتخاب اس کا بڑا بیٹا بسال بنا۔بسال کی ایک کار حادثہ میں موت واقع ہوگئی تو اس نے اپنے دوسرے بیٹے بشارکو جانشین بنا دیا۔
سوشلزم کے ساتھ اس وابستگی کی وجہ سے روس کے ساتھ ان کے گہرے تعلقات رہے۔روس نے ہر مشکل میں ان کی معاونت کی۔جب بھی ان کی حکومت کے خاتمے کی کوشش ہوئی‘روس ان کی مدد کوپہنچا۔یہ عالمی سیاست کا وہ بے رحم روپ ہے جو دنیا ہمیشہ سے دیکھتی آئی ہے۔یہ امریکہ ہو‘آنجہانی سوویت یونین یا پھر روس‘ان کو انسانی اقدار یا انسانیت سے کوئی دلچسپی نہیں۔ان کو صرف اپنے مفادات عزیز ہیں۔روس نے اسی وجہ سے حافظ الاسد اور بشار الاسد کا ساتھ دیا جب وہ اپنے ہی عوام کو ‘محض اقتدار کے لیے قتل کر رہے تھے۔یہ پہلی دفعہ ہوا کہ ایران کی طرح‘روس بھی ان کی مدد کو نہیں پہنچا اور یوں ان کا عہد ِحکومت ختم ہو گیا۔
امریکہ اس تبدیلی سے خوش ہو گا اور نہیں بھی۔خوشی بشار الاسد کے خاتمے کی ہے مگر جولانی کی آمد سے اسے تشویش ہوگی۔ ٹرمپ صاحب کا کہنا تو یہی ہے کہ وہ شام کے معاملات سے لاتعلق ہیں مگر عملاً ایسا نہیں ہو گا۔ امریکہ یقینا یہ دیکھے گا کہ وہ کیسے قدم آگے بڑھاتے ہیں۔میرا خیال ہے اس معاملے میں امریکہ نے سعودی عرب‘قطر اور ترکیہ سے مشاورت شروع کر دی ہوگی۔اگر ہیئت التحریر الشام نے طالبان کی طرح خود کو اپنی جغرافیائی حدود تک محدود رکھا توامریکہ کو زیادہ پریشانی نہیں ہو گی۔اس نے طالبان کے ساتھ اگر محاذ آرائی نہیں کی تو تحریر الشام سے کیوں کرے گا؟
اہم سوال یہ ہے کہ ایران اس تبدیلی کو کیسے دیکھ رہا ہے؟اس کا گہرا تعلق پاکستان کے ساتھ ہے۔جس طرح ‘عرب‘عراق اور شام وغیرہ سے‘ایک دور میں لوگ مذہبی لڑائی لڑنے افغانستان اور پاکستان آتے تھے‘اسی طرح اب یہاں سے لوگ شام ا ور عراق جا رہے تھے۔اگر ایران نے جولانی کی مزاحمت کا فیصلہ کیا اور وہاں ہم خیالوں یا بشار الاسد کو دوبارہ برسرِ اقتدار لانے کی کوشش کی تو آمد ورفت کا یہ سلسلہ دراز ہو سکتا ہے۔ جولانی صاحب جس راستے سے اقتدار تک پہنچے ہیں‘وہ راستہ دوسروں کے لیے بھی کھلا ہوا ہے۔اس لیے شام میں خانہ جنگی کے ا مکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔یہ جنگ جاری رہتی ہے تو پاکستان اس کے اثرات سے بچ نہیں سکتا۔
مسلم ممالک کی قیادت کو سوچنا ہو گا کہ صاحبِ اقتدار طبقہ کب تک عوام سے برسرِ پیکار رہے گا؟ساری دنیا جمہوریت کو اپنا چکی۔مسلم ممالک ابھی تک اس کی مزاحمت کر رہے ہیں۔سعودی عرب کی قیادت کو اس کا احساس ہے۔اس لیے اس نے عوام کے لیے اظہار کے راستے کھولے ہیں۔دوسرے مسلمان ممالک کو بھی عوام کو راستہ دینا ہو گا۔بادشاہت‘آمریت اور پاپائیت سے دنیا نجات پا چکی۔ مسلم دنیا میں بدستور ان کا غلبہ ہے۔ عوام مر رہے ہیں مگر کوئی بنیاد ی سوال پر غور کر نے کے لیے آمادہ نہیں۔شام میں ایک ظلم کا خاتمہ ہوا ہے۔اگر اس کی جگہ عدل اور انصاف نہیں آتا تو ہمیں سوچنا ہوگا کہ کہیں ہماری سماجی تشکیل میں خرابی کی کوئی صورت تو مضمر نہیں؟