سیاسی بندوبست کیلئے جو اصطلاحیں مستعمل ہیں‘ ان میں ایک 'ریاست‘ بھی ہے۔
اس بندوبست کی صورتیں تبدیل ہوتی رہی ہیں اور وظائف بھی۔ قدیم یونان میں 'سٹی سٹیٹ‘ کا تصور پایا جاتا تھا۔ مسلمانوں میں اسے 'الجماعۃ‘ یا 'السلطان‘ کہا گیا۔ تاریخ میں قوم‘ سماج‘ ریاست اور نظمِ اجتماعی کے تصورات اس طرح الگ الگ دکھائی نہیں دیتے جیسے دورِ جدید میں ہو گئے ہیں۔ یہ دورِ جدید بھی کم و بیش پانچ سو سال پر محیط ہے۔ سولہویں صدی میں میکاولی نے اٹلی اور بودین نے فرانس میں اسے موضوع بنایا۔ پھر برطانیہ اور جرمنی کے اہلِ علم نے اس پر دادِ تحقیق دی۔ اس کے ساتھ تہذیب اور سیاسی عمل کے ارتقا نے انسانی تاریخ کا ایک رُخ متعین کیا اور یوں وہ سیاسی بندوبست وجود میں آیا جسے قومی ریاست کہا جاتا ہے۔ علمِ سیاسیات میں اب اس کی ایک باضابطہ تعریف کی جاتی ہے جسے سب نے مان لیا۔ اسی کی بنیاد پر آج دنیا کا سیاسی نظم قائم ہے۔ سیاسیات کے جدید علم نے حکومت اور ریاست میں فرق کیا ہے۔ عوام‘ جغرافیہ‘خود مختاری اور حکومت کو ریاست کے ضروری اجزا قرار دیا گیا ہے۔
مسلمانوں کی قدیم تاریخ میں نظمِ اجتماعی کے باب میں کسی باضابطہ اور منضبط علمی سرگرمی کا سراغ نہیں ملتا۔ اسی وجہ سے مسلمانوں کے ہاں 'پولیٹکل تھیوری‘ کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔ مسلمانوں کا پہلا سیاسی بندوبست اللہ کے رسول کی زیرِ قیادت وجود میں آیا۔ رسول بھی وہ‘ جن پر نبوت و رسالت کا باب ہمیشہ کیلئے بند ہو رہا تھا۔ رسول زمین پر خدا کا پیامبر ہوتا ہے۔ اس لیے جب تک نبی کریمﷺ بنفسِ نفیس موجود رہے‘ حاکمیت کے باب میں کسی اختلاف کا امکان نہیں تھا۔ آپﷺ کی اطاعت دینی فریضے کے طور پر کی جاتی تھی۔ غیر مشروط اطاعت‘ بعد میں آنے والوں کیلئے نہیں ہے۔ اس لیے قرآن مجید اور رسالت مآب سیدنا محمدﷺ نے وہ اصول بھی واضح فرما دیے جن کے حوالے سے آپﷺ کے بعد مسلمانوں پر لازم تھا کہ نظمِ اجتماعی کیلئے بنیاد بنائیں‘ جب انہیں اقتدار ملے۔
خلافتِ راشدہ کے بعد مسلمانوں کی تاریخ میں ان اصولوں پر کم ہی عمل ہوا۔ اس کی ایک وجہ تھی اسلام نے ریاست کو بطور ادارہ مخاطب نہیں بنایا۔ اس لیے ریاست کا کوئی واضح ماڈل موجود نہیں تھا جسے اپنانا دینی اعتبار سے لازم ہوتا۔ مذہب کا موضوع ادارہ سازی نہیں‘ انسان سازی ہے۔ انسان فطری یا وقتی ضرورت کے تحت ادارے بناتا ہے۔ فطری ادارے تو ہمیشہ سے ہیں جیسے خاندان مگر وقتی ادارے ہمیشہ نہیں ہوتے۔ جیسے ہمیں چند صدیاں قبل تک جدید ریاست کا سراغ نہیں ملتا۔ مذہب کا بنیادی وظیفہ انسان کی اخلاقی تطہیر ہے‘ اس لیے اس کی تمام تر توجہ انسان سازی پر ہے۔ انسان ایک عقلی وجود بھی رکھتا ہے‘ اس لیے وہ جن امورکے فیصلے عقل کی بنیاد پر کر سکتا ہے‘ مذہب ان میں راہنمائی کیلئے پیغمبرانہ وحی کا اہتمام نہیں کرتا۔ ریاست بھی ایسا ہی ایک ادارہ ہے۔ اس لیے مذہب نے اس کی کوئی تعریف بتائی ہے نہ خواص۔
اسلام یہ بتاتا ہے کہ خدا پر ایمان رکھنے والوں کو اگر کہیں اقتدار ملے تو انہیں کیا کرنا چاہیے۔ بالکل ایسے ہی جیسے وہ یہ بتاتا ہے کہ اگر ان کے پاس مال ہو تو وہ کیا کریں۔ نظمِ اجتماعی کے حوالے سے اس کی تعلیم یہ ہے کہ وہ مشاورت کے اصول پر قائم ہو۔ نیک آدمی اگر جبر سے حکمران بنے تو یہ قابلِ قبول نہیں۔ اس کے برخلاف‘ ایک آدمی جو حکمران کے مطلوبہ خواص نہیں رکھتا مگر مشاورت کے اصول پر عوام کی تائید سے اقتدار تک پہنچے تو اس کی حکومت جائز ہو گی۔ مسلما نوں کی علمی تاریخ میں امام غزالی نے خلافت کے قیام کو ضروری کہا۔ ماوردی اور دوسرے اہلِ علم نے جب سیاست کو موضوع بنایا تو 'خلیفہ کے اوصاف‘ جیسے عنوانات کے تحت بنایا۔ یہ بحث کہ ریاست کیا ہوتی ہے‘ اس کے وظائف کیا ہیں‘ مغرب ہی میں آگے بڑھی اور اس نے جدید دور کے مسلمان اہلِ علم کو بھی متاثر کیا۔ اسی کے زیرِ اثر 'اسلامی ریاست‘ کا ایک تصور سامنے آیا۔ یہ جدید ریاست کے ماڈل کو قبول کرتے ہوئے اسے مسلمان بنانے کی ایک کوشش تھی۔ اہلِ سنت کے ہاں خلافت‘ اسلامی ریاست اور اہلِ تشیع کے ہاں امامت کا ادارہ 'ولایتِ فقیہ‘ کے عنوان کے تحت زیرِ بحث آیا۔ یہ قدیم وجدید کا ملغوبہ ہے‘ جو اس وقت میرا موضوع نہیں۔
مذہبی اور سیکولر دائروں میں آگے بڑھنے والا ریاست و حکومت کا تصور اپنے ماخذ کے لحاظ سے مختلف‘ مگر اپنی ہیئت کے لحاظ سے بڑی حد تک یکساں ہے۔ اس کی تشکیل کا طریقہ اور اس کے وظائف بھی ایک جیسے ہیں۔ اسے نکات کی صورت میں کچھ اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے:
٭یہ فیصلہ عوام کریں گے کہ مسندِ اقتدار پر کون بیٹھے گا۔
٭ریاست ایک معاہدے کے تحت وجود میں آئے گی جو عوام اور حکومت کے مابین ہو گا۔ اسے سیاسیات کی لغت میں آئین کہتے ہیں۔ اس میں دونوں کے حقوق و فرائض کا تعین کر دیا گیا ہے۔
٭اس معاہدے میں اقتدار کو اداروں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ عدلیہ‘ انتظامیہ‘ سیاسی جماعتوں‘ پارلیمان‘ فوج سمیت سب کی حدود کا تعین کر دیا گیا ہے۔ پارلیمان کا کام قانون سازی اور حکومت سازی ہے۔ عدلیہ کا کام ریاستی اداروں یا عوام اور ریاست کے مابین تنازعات کا آئین و قانون کے مطابق تصفیہ کرنا ہے۔ ہر ادارے کیلئے اپنی حدود سے تجاوز جرم ہے جس کی سزا آئین میں بیان کر دی گئی ہے۔
٭اقتدار کی تبدیلی کا طریقہ بھی اس آئین میں لکھ دیا گیا ہے۔ اس سے انحراف کوئی ریاستی ادارہ کرے یا عوام کا گروہ‘ قانوناً جرم ہے۔
٭ریاست کی بنیادی ذمہ داری جان مال سمیت عوام کے بنیادی حقوق کی حفاظت ہے۔ رائے‘ حرکت اور اجتماع کی آزادی شہری کے بنیادی حقوق ہیں جن میں ریاست مداخلت نہیں کرے گی۔ اِلّا یہ کہ اس سے کسی دوسرے کا حق مجروح ہوتا ہو یا کسی قانون کی خلاف ورزی ہو تی ہو۔
٭ہتھیار اور طاقت کا ستعمال صرف ریاست کا حق ہے جو قانون کے دائرے میں استعمال ہو گا۔
دنیا میں اس تصور سے ماورا ریاستیں بھی موجود ہیں جہاں کا سیاسی نظم بادشاہت‘ پاپائیت یا آمریت کی بنیاد پر قائم ہے۔ انہیں بھی ریاست تسلیم کیا گیا ہے۔ پاکستان جدید آئینی ریاست ہے۔ اس میں پاپائیت‘ آمریت‘ بادشاہت یا آئین سے ماورا کسی سیاسی بندوبست کی کوئی گنجائش نہیں۔ جو اس کی خلاف ورزی کرتا ہے‘ وہ دراصل بدعہدی کا مرتکب ہوتا ہے۔ یہ بدعہدی قانونی لحاظ سے جرم اور اخلاقی و شرعی اعتبار سے گناہ ہے۔ پاکستان کا موجودہ سیاسی نظم اساسی طور پر آئین سے انحراف پر کھڑا ہے۔ یہ مقدمہ مان لینے کے بعد‘ سوال یہ ہے کہ اس انحراف سے نجات کیسے ممکن ہے؟ اس کا جواب میں اپنے پچھلے کالم میں دے چکا ہوں۔ اصول وہی ہے کہ اصلاح کی ایسی کوشش جائز شمار ہو گی جس کی نتیجہ خیزی کا امکان غالب ہو اور جو قانون کے مطابق ہو۔ اگر وہ مزید فساد کا باعث ہو تو پھر اس سے گریز بہتر ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ عوام کے پاس متبادل کیا ہے؟ ان دونوں حوالوں سے سماج کو تعلیم اور تربیت کی ضرورت ہے۔ اصول کا اطلاق‘ حالات کی رعایت سے ہوتا ہے اور یہ اجتہادی امر ہے۔ اس میں اختلاف ممکن ہے۔
آج ملک میں اقتدار کی جو کشمکش جاری ہے‘ اس میں یہ کہنا ممکن نہیں کہ ایک طرف محض حق ہے اور دوسری طرف محض باطل۔ اس ادراک کیساتھ اس نظام کی تطہیر اگر ہو سکتی ہے تو آئینی اور سیاسی جدو جہد ہی سے ہو سکتی ہے۔ جب ایک نظام بالفعل قائم ہو جاتا ہے اور طاقت کے مراکز وجود میں آجاتے ہیں تو پھر ان کیساتھ تصادم سے مسائل ختم نہیں ہوتے‘ بڑھ جاتے ہیں۔