''دل میں خانہ خدا مکۃ المکرمہ میں حاضری کا شوق اور گنبد خضرا دیکھنے کی تڑپ تھی۔ ہم نے چند روز مکۃ المکرمہ میں عمرے کی سعادت حاصل کی اور پھر مدینہ منورہ میں ہم نے کچھ دن گنبد خضرا کی دید سے آنکھوں کو منور کیا اور مسجد نبوی میں نمازوں اور درود وسلام کی لذتوں سے فیض یاب ہوتے رہے۔ جب ہم پاکستان روانگی کے لیے مدینہ ایئر پورٹ پر پہنچے تو میں نے اپنی جیبوں اور بیگوں میں اپنا پاسپورٹ بہت تلاش کیا مگر ندارد۔ جو لوگ بیرونِ ملک سفر کرتے رہتے ہیں انہیں بخوبی اندازہ ہو گا کہ کسی بھی بیرونی ملک میں پاسپورٹ یا شناخت نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ غیرقانونی ٹورسٹ ہیں۔ سعودی عرب میں تو بطورِ خاص شرطے جگہ جگہ آپ کی شناخت چیک کرتے ہیں۔ آپ کے پاس پاسپورٹ یا کوئی اور قانونی دستاویز نہ ہونے کی صورت میں یہ شرطے سیدھا آپ کو جیل پہنچا دیتے ہیں‘‘۔
یہ واقعہ لاہور کے ایک 60 سالہ ممتاز آئی سپیشلسٹ کے ساتھ پیش آیا۔ اگلی کہانی کچھ ڈاکٹر صاحب اور کچھ میری زبانی سنیے۔ ''یقین کیجیے میں ذرا بھر بھی نہیں گھبرایا۔ مجھے خدا پر بھروسا تھا اور ڈاکٹر ہونے کی صورت میں مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ پریشانی یا گھبراہٹ میں حواس باختہ ہونے سے آپ کی جسمانی و ذہنی استعداد بہت متاثر ہوتی ہے۔ میں نے اپنی بیگم اور بیٹی سے کہا کہ آپ پاکستان روانہ ہو جائیں‘ میں بھی جلد پاکستان پہنچ جاؤں گا‘‘۔ اس کے بعد قدم قدم پر ڈاکٹر صاحب کو پہاڑ جتنی مشکلات پیش آتی رہیں مگر ہر مشکل پر کوئی نہ کوئی معجزہ ہوتا رہا۔ ڈاکٹر صاحب کی جیب میں صرف چند سو ریال تھے اور ایک پاکستانی بینک کا گولڈن کارڈ‘ جو وہاں سعودی عرب میں قبول نہیں کیا جا رہا تھا۔ ڈاکٹر صاحب سامان کے ساتھ مدینہ منورہ کے اُسی ہوٹل میں واپس گئے جہاں وہ پہلے قیام پذیر تھے‘ مگر ہوٹل والوں نے انہیں بغیر پاسپورٹ ایک منٹ بھی ہوٹل میں ٹھہرنے نہیں دیا۔ عربی میں پاسپورٹ کو ''جوازِ سفر‘‘ کہتے ہیں۔ ''بلا جواز‘‘ شخص کو ہوٹل میں قبول کیا جاتا ہے‘ نہ ٹیکسی ڈرائیور اپنی گاڑی میں بٹھاتا ہے اور نہ ہی اس کی کہیں اور رسائی ہو سکتی ہے۔
ہمارے ڈاکٹر صاحب ذرا بھر نہیں گھبرائے۔ وہ اپنے سامان کے ساتھ پوچھتے پوچھتے مدینہ منورہ میں پاکستانی قونصل خانے پہنچے۔ پاکستانی قونصل خانے کے ایک ذمہ دار افسر نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ آپ جدہ چلے جائیں اور وہاں کے پاکستانی قونصل خانے سے پاسپورٹ گم ہونے کا پیپر حاصل کریں۔ ڈاکٹر صاحب کو کچھ قونصل خانے والوں نے گائیڈ کیا اور کچھ پاکستانیوں سے معلومات ملیں۔ ٹیکسی یا ٹرین کے بجائے ان کے پاس کسی پرائیویٹ گاڑی پر ہی جدہ جانے کا آپشن تھا۔ رات کسی ہوٹل میں ٹھہر بھی نہیں سکتے تھے۔ انہوں نے سوچا تھا کہ جدہ اُتر کر کسی اور گاڑی میں ایئر پورٹ چلا جاؤں گا اور وہاں رات گزار کر صبح پاکستانی قونصل خانے حاضر ہو جاؤں گا۔
ڈاکٹر صاحب جس پرائیویٹ گاڑی میں سوار ہوئے اس میں ایک تقریباً 45 سالہ پاکستانی مرد اور دو خواتین جدہ جانے کیلئے پہلے سے ہی موجود تھے۔ گاڑی جدہ کی طرف فراٹے بھرنے لگی۔ دورانِ سفر اُن کی پاکستانی ہم سفر سے بات چیت ہونے لگی۔ انہوں نے اپنا مختصر تعارف کرایا۔ ان کے ہم سفر‘ جن کا نام سیف اللہ تھا‘ کا تعلق گجرات سے تھا۔ سیف اللہ صاحب نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ آپ نے قونصل خانے کیوں جانا ہے؟ جس پر ہمارے دوست نے انہیں اپنی روداد مختصراً سنائی۔ دورانِ سفر پاکستانی سیاست پر بھی ہلکی پھلکی گفتگو ہوتی رہی۔ ''بلاجواز‘‘ مدینہ منورہ سے بخیر و عافیت جدہ پہنچنا بھی کسی معجزے سے کم نہیں۔
اب ہمارے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ دوسرا معجزہ یوں پیش آیا کہ شب کے دو بجے‘ جب وہ جدہ پہنچے تو سیف اللہ صاحب نے اپنے گھر کے سامنے گاڑی رکوائی اور ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ آپ بھی اپنا سامان اتار لیں۔ انہوں نے بتایا کہ میں یہاں قونصل خانے کے قریب ہی ایک جگہ ٹیلرنگ کا کام کرتا ہوں۔ ایک کمرے میں ہماری اپنی رہائش ہے‘ دوسرے میں ٹیلرنگ شاپ ہے‘ آپ شاپ میں شب بھر آرام کریں‘ صبح ہم اکٹھے قونصل خانے جائیں گے۔
قونصل خانے میں سیف اللہ کی اچھی جان پہچان تھی۔ متعلقہ افسر سے جلد ہی ملاقات ہو گئی۔ انہوں نے ڈاکٹر صاحب سے معلومات لے کر ویزے اور پاسپورٹ کی تصدیق کا ایک پیپر عنایت کر دیا اور جدہ پولیس سٹیشن رپورٹ درج کرانے کی ہدایت کی۔ قونصل خانے سے باہر نکل کر سیف اللہ نے ڈاکٹر صاحب سے کہا: آپ فکر مند نہ ہوں۔ جس کے جواب میں انہوں نے اپنے فرشتۂ رحمت سے کہا کہ مجھے اپنے رب کی رحمت پر حق الیقین ہے‘ اس لیے میں کبھی فکر مند ہوا ہی نہیں۔
جب ڈاکٹر صاحب سیف اللہ اور ان کے کشمیری دوست کے ساتھ جدہ پولیس سٹیشن پہنچے تو وہاں پر غیرملکیوں‘ جن میں زیادہ تر پاکستانی تھے‘ کی لمبی قطاریں لگی ہوئی تھیں۔ ڈاکٹر صاحب کے بقول سیف اللہ کے کشمیری دوست نے ہم سے قونصل خانے کے پیپرز لیے اور قطار سے نکل کر شرطوں کو سلام کرتا ہوا اندر سعودی ایس پی کے پاس چلا گیا۔ چند گھنٹوں میں نہیں‘ کشمیری دوست نے چند منٹوں کے اندر اندر پولیس سٹیشن پر ایف آئی آر درج کرائی اور اس کا مصدقہ ورقہ لے کر باہر آ گیا۔ اس نے ہم سے کہا کہ یہاں کا کام خلاص ہو گیا ہے۔ پولیس سٹیشن کے بعد اب وزارتِ داخلہ کا مرحلہ درپیش تھا۔ وزارتِ داخلہ کے باہر بے ترتیب بہت بڑا ہجوم تھا۔ شنید یہ تھی کہ یہاں پیپر کا کمپیوٹر اندراج کرانے میں بعض اوقات ہفتوں لگ جاتے ہیں۔ ابھی ہم اسی سوچ بچار میں تھے کہ اتنے میں ایک بدو میرے پاس آیا۔ اس نے کہا کہ ''اِش المشکلہ‘‘ (کیا مسئلہ ہے؟)۔ سیف اللہ نے اسے عربی میں بتایا کہ ہم نے ورقۂ سفر کا کمپیوٹر پر اندراج کرانا ہے۔ اس نے کہا کہ حق الخدمہ اڑھائی سو ریال ہوگا۔ حق الخدمہ تیسری دنیا میں وسیلۂ سہولت ہے۔ یہ نہ ہو تو سائلین دفتروں میں رُلتے پھریں۔ بدو نے وزارت کے اندر جانے کی کوشش کی مگر اسے اندر نہ جانے دیا گیا۔ اس نے ہمارے کاغذات لے کر ان کی تصویر بنائی اور اندر کسی کلرک کو بھیج دی۔ پندرہ بیس منٹوں کے بعد بدو نے کہا: خلاص‘ آپ کا کام ہو گیا ہے۔ میں نے کہا: کوئی پیپر‘ کوئی ریفرنس نمبر؟ بدو نے عربی میں سیف اللہ کو سمجھایا کہ یہی طریقہ رائج الوقت ہے‘ اپنے دوست کو فوراً (ایئر پورٹ) بھیج دیں۔ سیف اللہ نے بدو کو اڑھائی سو ریال طے شدہ حق الخدمہ ادا کر دیے۔ معجزے پر معجزے رونما ہو رہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے پاکستان سے کچھ پیسے تو منگوا لیے تھے مگر کئی طرح کے اخراجات کے بعد 1800سو ریال کا یکطرفہ ٹکٹ خریدنا بہت مشکل تھا۔
اب دیکھیے کیسے ایک اور معجزہ ہوتا ہے۔ یہیں پر کھڑا ہوا ایک بنگالی ورکر ڈاکٹر صاحب کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ میرے پاس جدہ اسلام آباد کا ایک ٹکٹ ہے‘ اگر آپ خریدنا چاہیں تو مجھ سے لے لیں۔ ڈاکٹر صاحب نے پوچھا کتنے کا ہے؟ اس نے کہا: ایک ہزار ریال۔ انہوں نے فوراً قیمت ادا کی اور ٹکٹ لے لیا۔ وہ ٹیلرنگ شاپ سے سامان لے کر اور اپنے فرشتۂ رحمت سیف اللہ صاحب کا دلی شکریہ ادا کر کے ٹیکسی میں ایئر پورٹ پہنچے اور یوں وہ ہفتوں کے بعد نہیں‘ اپنی فیملی کے لاہور پہنچنے کے صرف 28 گھنٹے بعد خود بھی لاہور پہنچ گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے ہمارے بک کلب میں ہمیں بتایا کہ آپ زندگی میں ہرگز نہ گھبرائیں اور دیکھتے جائیں کہ خدا کیا کرتا ہے۔ یہ کہانی لاہور کے ممتاز آئی سپیشلسٹ ڈاکٹر سید محمد جہانگیر کی ہے۔ نامور قانون دان جناب ایس ایم ظفر مرحوم ڈاکٹر صاحب کے تایا زاد بھائی تھے۔