امریکی الیکشن: ٹرمپ یا کملا؟

جب پاکستان میں دن ہوتا ہے اُس وقت امریکہ میں رات ہوتی ہے۔ آج 6 نومبر صبح 8 بجے جب پاکستان میں آپ یہ کالم ملاحظہ کر رہے ہوں گے اس سمے امریکہ میں 5 نومبر شب کے نو یا دس بجے ہوں گے۔ اس وقت تک امریکہ میں الیکشن کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھ چکا ہوگا۔ امریکہ میں الیکشن پاکستان کی طرح کسی مرکزی الیکشن کمیشن کے تحت نہیں ہوتے‘ ہر ریاست اپنا صدارتی انتخاب خود کراتی اور اس کے نتیجے کا بھی خود ہی اعلان کرتی ہے۔ امریکی وقت کے مطابق نتائج 8 بجے شب سے آنا شروع ہو جاتے ہیں۔
کچھ باتیں میں ابتدا میں واضح کر دوں۔ روایتی طور پر امریکی مسلمان بشمول پاکستانیوں کے‘ عمومی طور پر ڈیمو کریٹس کو ووٹ دیتے چلے آ رہے ہیں مگر اس بار الّا ماشاء اللہ کوئی مسلمان کملا ہیرس کو اُن کی غزہ میں نسل کشی پالیسی کی بنا پر ووٹ نہیں دے گا۔ مسلمان ٹرمپ کو ووٹ دیں گے یا گرین پارٹی کی جیل سٹائن (Jill Stein) کو۔
گزشتہ ہفتے تک ٹرمپ کا پلّہ بھاری نظر آ رہا تھا اور سارے ووٹ شماری کے جائزے اُسی کی کامیابی کی نوید سنا رہے تھے مگر اس ہفتے ایک بار پھر کملا کی جیت کی پیشگوئی کی جا رہی ہے۔ امریکی الیکشن کا عمل خاصا پیچیدہ ہے۔ اسے بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ 2016ء کے صدارتی انتخاب میں ڈیمو کریٹ امیدوار ہیلری کلنٹن کو ڈونلڈ ٹرمپ سے 30 لاکھ زیادہ ووٹ ملے تھے مگر وہ پھر بھی الیکشن ہار گئیں۔ ایسا کیسے ہو گیا؟ امریکہ کی 50ریاستوں کے آبادی کے لحاظ سے الیکٹورل ووٹ ہیں۔ مثلاً ریاست کیلیفورنیا کے ریاستی الیکٹورل ووٹ 54 ہیں‘ اس کے بعد ٹیکساس کے 40‘ فلوریڈا کے 30 اور نیویارک کے پاس 28 اور کینٹکی کے 8 وعلیٰ ہذا القیاس۔ سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ کوئی بھی امیدوار اگر کسی ریاست سے لاکھوں کے حساب سے کاسٹ کیے گئے پبلک ووٹوں سے محض چند سو کی برتری سے جیت جاتا ہے تو اسے اس ریاست کے تمام تر الیکٹورل ووٹ مل جائیں گے جبکہ لاکھوں ووٹ حاصل کر کے ہارنے والے کو ایک بھی الیکٹورل ووٹ نہیں ملے گا۔
امریکی انتخاب پر ساری دنیا کی نگاہیں ٹکی ہوئی ہیں۔ اگرچہ امریکہ کی بیرونِ ملک پالیسیوں میں کسی پارٹی کی ہار جیت سے کوئی بڑا فرق تو واقع نہیں ہوتا مگر امریکہ کی دونوں بڑی پارٹیوں کی ترجیحات میں موجود اختلاف سے عالمی منظر نامہ کسی نہ کسی حد تک تبدیل ضرور ہوتا ہے۔ مثلاً عام تاثر یہ ہے کہ ڈیمو کریٹس وار انڈسٹری کو زیادہ سے زیادہ متحرک رکھتے ہیں اور جنگی ساز وسامان کو ساری دنیا میں فروخت کرتے ہیں۔ اسرائیل کو خوش کرنے کے لیے ڈیمو کریٹس کسی حد تک بھی چلے جاتے ہیں۔ وہ صہیونی ریاست کے لیے جنگی ساز وسامان اور سکیورٹی فنڈنگ کے لیے خزانوں کے منہ کھول دیتے ہیں۔ ابھی گزشتہ دنوں امریکی صدر جوبائیڈن نے اسرائیلی وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے فخریہ کہا تھا کہ اسرائیل کو جتنا سپورٹ میں نے کیا ہے‘ اتنا آج تک کسی امریکی صدر نے نہیں کیا۔
جہاں تک ٹرمپ کا تعلق ہے تو اس کا نعرہ ہے کہ امریکہ فرسٹ۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ جس نے جنگ لڑنی ہو وہ اپنے فنڈز سے لڑے‘ امریکی ٹیکس دہندگان کے خزانے سے نہیں۔ ٹرمپ نے اپنے سابقہ دورِ حکومت میں تیل کی دولت سے مالا مال عربوں کے ساتھ اسرائیل کی صلح کرا دی اور صہیونی ریاست کی سکیورٹی فنڈنگ کو گھٹا کر 20 فیصد کر دیا تھا جبکہ ڈیمو کریٹس نے واپس آ کر نہ صرف جنگی امداد بڑھا دی بلکہ ٹرمپ کے زمانے کے تین چار سالوں کی کٹوتی کی ادائیگی بھی کر دی۔
بظاہر ڈیمو کریٹس کا کہنا یہ ہے کہ اُن کے نزدیک ''دنیا فرسٹ ہے‘‘ ہم ساری دنیا سے ظلم کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ دنیا کے کسی کونے میں انسانی حقوق کی پامالی ہو یہ ہمارے لیے قابلِ برداشت نہیں۔ ڈیمو کریٹس کے صدر جوبائیڈن کے ذریعے ان ''اقوال زرّیں‘‘ کی تطبیق کا عملی مظاہرہ ساری دنیا غزہ میں گزشتہ ایک سال سے شب و روز دیکھ رہی ہے۔ سارا عالم گزشتہ ایک سال سے مشاہدہ کر رہا ہے کہ کس طرح اسرائیل روزانہ کئی کئی ٹن وزنی بم نہتے اہلِ غزہ پر برسا رہا ہے اور ہزاروں انسانوں کو شہید کر رہا ہے۔ ان شہدا میں کم از کم پندرہ ہزار بچے بھی شامل ہیں ۔صدر جوبائیڈن اور اُن کے وزیر و مشیر بچشم خود رات دن یہ ظلم دیکھ رہے ہیں مگر اُن کی آنکھ سے کوئی آنسو ٹپکا ہے اور نہ ہی اُن کی سنگ دلی میں انسانی ہمدردی کی کوئی رمق ابھری ہے۔
2020ء کے الیکشن میں مسلمانوں نے بالعموم اور پاکستانی امریکیوں نے بالخصوص صدر جوبائیڈن کے لیے ڈیمو کریٹس کی صف اوّل کے پاکستانی امریکن لیڈر جناب طاہر جاوید کے ذریعے تقریباً سو ملین ڈالر کا فنڈ جمع کیا تھا۔ خیال یہ تھا کہ صدر جوبائیڈن جناب طاہر جاوید کو اپنا مشیر خارجہ برائے مسلم ورلڈ مقرر کر دیں گے۔ مگر امریکی صدر نے انہیں کوئی خاص ذمہ داری نہیں سونپی۔ جبکہ صدر ٹرمپ ساجد تارڑ جیسے اپنے پاکستانی حامیوں کی بات غور سے سنتے اور انہیں اہمیت دیتے تھے۔
پولنگ ڈے سے دو تین روز پہلے تک امریکی مسلم ووٹروں کاکوئی متفقہ فیصلہ سامنے نہیں آیا۔ البتہ ریاست مشی گن کے ڈیڑھ لاکھ مسلم ووٹرز‘ جو کسی امریکی امیدوار کی ہار جیت میں نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں‘ نے اپنے مسلمان میئر کی قیادت میں باقاعدہ طورپر ٹرمپ کی حمایت کا اعلان کیا اور ٹرمپ نے اس اعلان کے بعد میئر اور مسلمانوں کا بہت شکریہ ادا کیا اور مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن کے قیام کی کمٹمنٹ کی۔ اب یہ وقت ہی بتائے گا کہ ٹرمپ مسلمانوں اور پاکستانی قیدی کی رہائی چاہنے والوں کی امیدوں پر پورا اترتے ہیں یا نہیں۔تاہم میرا اپنا خیال بھی یہ ہے‘ اور میرے کچھ بے تکلف امریکی دوستوں کا کہنا بھی یہ ہے کہ مشی گن کے مسلمانوں نے انتخابی شطرنج کی بساط پر اچھی چال چلی ہے۔ کم از کم ٹرمپ مسلمانوں کے زیر بار ہوتے ہوئے کچھ نہ کچھ اخلاقی دباؤ تو محسوس کرے گا۔
اب آئیے ون ٹریلین ڈالر سوال کی طرف کہ 2024ء کا انتخابی معرکہ کون مارے گا؟ اگرچہ دو ہفتے پہلے تک ٹرمپ کا پلڑا بھاری نظر آ رہا تھا مگر گزشتہ پانچ چھ روز کے دوران کملا کی برتری کی پیشگوئی کی جا رہی ہے۔ بعض پاکستانی امریکیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ڈیپ سٹیٹ ٹرمپ کے حق میں نہیں اور اس کی ہمدردیاں کملا کے ساتھ ہیںکیونکہ کملا ان کے لیے زیادہ قابلِ قبول ہے جبکہ ٹرمپ آسانی سے سرتسلیم خم کرنے والے نہیں۔
سارے امریکی انتخابی منظرنامے کو سمجھنے کے لیے ہم نے امریکی سیاست وسوسائٹی کے بعض صائب الرائے دوستوں سے رابطہ کیا تاکہ اندازہ لگا سکیں کہ مسلم ووٹرز کس طرف جائیں گے۔ ہم نے کیلیفورنیا کی محترمہ صباحت رفیق صاحبہ‘ ٹیکساس ڈیلس کے پروفیسر زبیر بن عمر صدیقی اور ڈاکٹر بلال حسین‘ بوسٹن کے قاضی خالد احمد‘ کینٹکی کے ڈاکٹر سعید اختر اور ڈاکٹر اسد اسماعیل‘ ریاست پینسلوینیا کے ڈاکٹر عظمت قیوم پراچہ‘ مشی گن کے ڈاکٹر حسین ارباب وغیرہ کے ساتھ رابطہ کیا‘ ان خواتین وحضرات کی تقریباً مشترکہ رائے یہ تھی کہ چند روز پہلے تک بھی مسلمانوں کا کوئی ایک متفقہ فیصلہ سامنے نہ آیا تھا۔ تاہم ان پاکستانی امریکیوں نے بھی اس بات سے اتفاق کیا کہ اس بار امریکی مسلم ڈیمو کریٹس کو ہرگز ووٹ نہیں دیں گے۔
اگرچہ پولنگ ڈے کی آخری ساعتوں میں ٹرمپ کے پلڑے کو بھاری قرار دیا جا رہا ہے مگر الیکٹورل کالج کی پٹاری سے کچھ بھی برآمد ہو سکتا ہے‘ یہ ''کچھ‘‘ اب تک آپ کے سامنے آ چکا ہو گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں