ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی

اگرچہ کہا تو یہ جاتا ہے کہ گہرے زخموں کو بھرنے میں وقت لگتا ہے مگر بعض زخم اتنے گہرے اور بعض دکھ اتنے شدید ہوتے ہیں کہ وقت کا مرہم بھی ان کا مداوا نہیں کر پاتا۔
امریکہ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ نیورو سائنسدان ڈاکٹر عافیہ صدیقی اپنے تین بچوں سمیت 2003ء میں کراچی سے ''لاپتا‘‘ ہوئی تھیں۔ ان کے بارے میں عمومی تاثر تھا کہ اُس وقت کی حکومت نے امریکی حکام کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی تک رسائی دی۔ اس کے بعد ڈاکٹر عافیہ کو افغانستان لے جایا گیا جہاں انہیں بدنامِ زمانہ بگرام جیل میں ڈال دیا گیا۔ اُس زمانے میں ایک فلمی سٹوری یہ پیش کی گئی کہ جب امریکی سکیورٹی ادارے کی ٹیمیں ان سے تفتیش کے لیے گئیں تو ڈاکٹر عافیہ نے پردے کے پیچھے سے تفتیشی ٹیم پر بندوق سے فائرنگ کر دی۔ بھلا زیرحراست ایک نہتی لڑکی جدید اسلحہ سے لیس امریکیوں پر کیسے حملہ کر سکتی تھی؟
غالباً 2008ء میں عافیہ صدیقی کو امریکی حراست میں نیو یارک لایا گیا جہاں ایک مقامی عدالت نے امریکی سکیورٹی ذمہ داران پر حملہ کرنے کی پاداش میں انہیں 2010ء میں 86سال قید کی سزا سنائی۔ جون 2023ء میں 20 برس کے بعد امریکی ریاست ٹیکساس کی فورٹ ورتھ جیل میں قید ڈاکٹر عافیہ سے ان کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی‘ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان اور عافیہ کے وکیل کلائیو سمتھ کی ملاقات ہوئی۔ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی اپنی بہن سے تین گھنٹے الگ ملاقات بھی ہوئی۔ یہ کیسی ملاقات تھی کہ دونوں بہنیں آمنے سامنے بیٹھی تھیں اور درمیان میں ایک موٹا شیشہ حائل تھا‘ نہ وہ ایک دوسرے سے گلے مل سکتی تھیں اور نہ چھو سکتی تھیں۔
ڈاکٹر عافیہ سے ملاقات کرنے والی ثقہ شخصیات نے عالمی میڈیا کو بتایا تھا کہ عافیہ کے سامنے کے اوپر والے چار دانت ٹوٹے ہوئے تھے۔ ان کے سر پر چوٹ کی وجہ سے انہیں ایک کان سے بہت کم سنائی دے رہا تھا۔ ڈاکٹر عافیہ کے وکیل کلائیو سمتھ نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ان کی مؤکل کو جیل میں دوسرے قیدیوں نے کئی بار جسمانی اور جنسی تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ آگے بڑھنے سے پہلے عافیہ صدیقی کے وکیل کلائیو سمتھ کے بارے میں بتا دوں کہ ان کی رہائی کے لیے انہوں نے اُمید کی شمع روشن کی ہے۔ کلائیو سمتھ ایک انتہائی حیران کن اور غیرمعمولی شخصیت ہیں۔ اس برٹش امریکن ماہرِ قانون کی زندگی کا مشن ناانصافی کے شکار‘ عدل و انصاف سے محروم قیدیوں کی رہائی ہے۔ کلائیو سمتھ اپنے مؤکلین سے کوئی پیسہ دھیلا نہیں لیتے۔ ان کے مشن سے اتفاق کرنے والے انصاف پسند لوگ ان کی لاء فرم کو فنڈز مہیا کرتے ہیں جن سے ضروری اخراجات ادا کیے جاتے ہیں۔
سینیٹر مشتاق احمد خان نے مجھے بتایا کہ کلائیو سمتھ نے گزشتہ چند برسوں کے دوران گوانتا ناموبے سے 80 قیدیوں کو نجات دلائی۔ طرح طرح کی اذیتیں جھیلنے والے پاکستانی بزنس مین سیف اللہ پراچہ اور کراچی کے ہی دو بھائی احمد ربانی اور غلام ربانی کو 2022ء میں رہائی ملی۔ ان کی رہائی کے صرف چند ہفتوں کے بعد عالمی شہرت یافتہ وکیل کلائیو سمتھ اپنے مؤکلین سے ملنے کراچی تشریف لائے جہاں ان کی ملاقات سینیٹر مشتاق احمد‘ جن کے ساتھ ایک پاکستانی سینیٹر کی حیثیت سے اُن کا پہلے سے رابطہ تھا‘ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اور ایک دو ممتاز میڈیا شخصیات کے ساتھ ہوئی۔ ان سب لوگوں نے مسٹر کلائیو سمتھ سے درخواست کی کہ وہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا کیس بھی اپنے ہاتھ میں لیں اور اس مظلوم خاتون کو فورٹ ورتھ جیل کے دوزخ سے نجات دلائیں۔ کلائیو سمتھ نے بخوشی اس کارِ خیر کی ہامی بھر لی۔ امریکی دستور کے مطابق صدر رحم کی اپیلوں پر غور کرکے طویل مدت کے قیدیوں کو رہائی کا پروانہ عطا کر سکتا ہے اور روایت ہے کہ ہر امریکی صدر اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں ایسی ہزاروں درخواستیں منظور کرتا ہے۔
کلائیو سمتھ نے 22 ماہ تک شبانہ روز محنت کی‘ انہوں نے امریکی سینیٹ اور وہاں کی عدالتوں سے مطلوبہ کاغذات تلاش کیے اور اس سلسلے میں وہ چار بار افغانستان بھی گئے۔ وہاں سے انہوں نے ایسی ناقابلِ تردید شہادتیں جمع کیں جن سے ثابت ہوا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی بے قصور ہیں۔ مہارت سے مرتب کی ہوئی پٹیشن 56 ہزار 600 الفاظ پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ 21 ہزار الفاظ کی ایک تجزیاتی سٹڈی بھی لف کی گئی ہے۔ یہ سٹڈی جیلوں کے ریکارڈ سے ترتیب دی گئی ہے۔ اس ریکارڈ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عافیہ صدیقی کا جیلوں میں رویہ انتہائی مثبت رہا اور اپنے اوپر ہونے والے بدترین تشدد کا بھی جواب اس نے تشدد سے نہیں دیا۔ اس ریکارڈ سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کی ذہنی و جسمانی صحت بہت خراب ہے۔
وکیل کلائیو سمتھ نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے بے چین کروڑوں پاکستانیوں کو یہ بات بھی سمجھائی کہ اس درخواست کے ساتھ وزیراعظم پاکستان کی طرف سے وائٹ ہاؤس سے جانے والے صدر کے نام اسی طرح کی ایک معافی کی اپیل پر مشتمل خط بھی جانا چاہیے۔ ہم نہایت فراخدلی سے تسلیم کرتے ہیں کہ 21 برس میں میاں شہباز شریف پہلے وزیراعظم ہیں کہ جنہوں نے ایک انتہائی اثر انگیز دوستانہ خط صدر جوبائیڈن کو لکھا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی 2010ء سے نیویارک کی عدالت سے دی جانے والی 86 سالہ قید بھگت رہی ہیں۔ اس سزا میں پیرول کی سہولت بھی میسر نہیں۔ وزیراعظم نے یہ بھی لکھا ہے کہ گزشتہ چند برس کے دوران عافیہ صدیقی کو جیل میں متعدد وجوہات کی بنا پر وزٹ کرنے والے پاکستانی قونصل خانے کے افسران نے 52 سالہ خاتون قیدی کی صحت کو لاحق شدید خطرات سے بھی اسلام آباد حکومت کو آگاہ کیا ہے۔وزیراعظم شہباز شریف نے آخری پیراگراف میں لکھا ہے کہ مجھے اچھی طرح اندازہ ہے کہ جب کوئی امریکی بیرونِ ملک کہیں زیرحراست ہوتا ہے تو آپ اس کی رہائی اور اپنے شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے دل و جان سے کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے آپ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ ایک وزیراعظم کی حیثیت سے یہ میرا مقدس فریضہ ہے کہ میں بھی اپنے کسی مصیبت زدہ شہری کی دگرگوں حالات سے نجات کے لیے کوشش کروں۔ وزیراعظم نے آخری سطور میں تحریر کیا ہے کہ میری آپ سے دلی درخواست ہوگی کہ آپ رحمدلی سے اپنا دستوری اختیار استعمال کرتے ہوئے ڈاکٹر عافیہ کی درخواست منظور کریں اور اس کی رہائی کا حکم صادر فرمائیں۔ وزیراعظم نے یہ بھی لکھا ہے کہ آپ کی اس عنایت سے عافیہ صدیقی کے پریشاں حال اہلِ خانہ‘ مجھے اور کروڑوں پاکستانیوں کو دلی سکون حاصل ہوگا‘ جس کے لیے ہم نہایت شکر گزار ہوں گے۔
یہاں پاکستانی قوم کو یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ گزشتہ 21 برس سے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کراچی کے ایک عالمی شہرت یافتہ ہسپتال میں خدمات بھی انجام دے رہی ہیں اور اپنی بہن ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے شب و روز بھاگ دوڑ بھی کر رہی ہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں اٹارنی جنرل کے بیان کے مطابق ایک 12 سے 15 رکنی پارلیمانی اور سرکاری وفد کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے سلسلے میں امریکہ جانا تھا مگر اب وزیر خارجہ کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ امریکی ایوانوں میں لابنگ کے لیے صرف تین رکنی وفد جائے گا۔ ایسا مختصر وفد بالکل بے اثر رہے گا۔ ہماری حکومت سے بھرپور اپیل ہو گی کہ وہ پہلے سے طے شدہ وفد ہی کو امریکہ بھیجے جس میں ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اور سینیٹر مشتاق احمد کو بھی ضرور شامل کیا جائے۔ یہ وفد امریکی کانگرس‘ سینیٹ اور وائٹ ہاؤس میں اثر و رسوخ رکھنے والی پاکستانی امریکن اہم شخصیات کے ذریعے امریکی صدر سے رحمدلانہ فیصلہ کرنے کی اپیل کرے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں