26ویں آئینی ترمیم پاس کرا کے حکمرانوں کا ''جھاکا‘‘ اُتر گیا ہے‘ اب وہ 27ویں آئینی ترمیم لانے کے لیے پر طول رہے ہیں۔ اس سلسلے میں جناب شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کی ایک ابتدائی ملاقات لاہور میں ہو چکی ہے۔ حکمرانوں نے آئین کو بازیچۂ اطفال بنا رکھا ہے۔ جب چاہا ایکٹ آف پارلیمنٹ سادہ اکثریت سے منظور کرا کے کام چلا لیا اور جب چاہا آئین میں دھن‘ دھونس اور دھاندلی سے دو تہائی اکثریت مینج کرکے تبدیلی کرا لی۔ حکمرانوں کا اوّل و آخر ہدف اپنے اقتدار کو طول دینا ہے۔ عوام کس حال میں ہیں‘ ملک میں لاء اینڈ آرڈر کی کیا صورتحال ہے‘ غریبوں کو کھانا اور ٹھکانا مل رہا ہے یا نہیں‘ اس کی انہیں کوئی پروا نہیں۔
ججز میں تقسیم اور لڑائی کے تاثر سے حکومت کو عدلیہ کے اندر من مانی کرنے اور عدلیہ کو پابجولاں کرنے کا موقع مل گیا تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنے بارے میں خاصی تلخ یادیں چھوڑ گئے ہیں۔ جب تک وہ اس منصبِ جلیلہ پر فائز رہے اس وقت تک عدلیہ کے ججز میں تقسیم کا تاثر موجود رہا۔ حکومت اب بھی عدالتِ عظمیٰ میں Divide and Ruleکے اصول پر گامزن تھی مگر بھلا ہو نئے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی صاحب کا کہ انہوں نے نہایت پروفیشنل طرزِ عمل اختیار کرکے ایک بار پھر سب جج صاحبان کو یکجا کر دیا۔ حتیٰ کہ جسٹس منصور علی شاہ نے پہلے فل کورٹ اجلاس میں بیرونِ ملک ہونے کے باوجود وڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی۔
زیر التوا کیس نمٹانے کے لیے سپریم کورٹ کے فل کورٹ اجلاس میں جسٹس منصور علی شاہ کے منصوبے کو اختیار کرنے کا متفقہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ 27ویں ترمیم کے بارے میں شنید یہ ہے کہ اس میں 26ویں آئینی ترمیم کی خامیوں کو دور کیا جائے گا۔ اگرچہ حکمرانوں نے عدلیہ کی آزادی پر طرح طرح کے پارلیمانی پہرے بٹھا دیے ہیں مگر پھر بھی ان کے اندر کا ڈر‘ خوف انہیں چین نہیں لینے دیتا۔ اس لیے وہ عدلیہ کو جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی بنانے کے لیے طرح طرح کے حربے اختیار کرنے اور انہیں آئینی تحفظ دینے کے لیے سوچوں میں غلطاں رہتے ہیں۔ 26ویں آئینی ترمیم میں عدلیہ کے ہر ممکن طریقے سے پَر کاٹنے کے باوجود ابھی تک سیاستدانوں کی تسلی اور تشفی نہیں ہوئی۔ اب مسلم لیگ (ن) کے رانا ثنا اللہ کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں بیٹھنے سے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب کو معذرت کر لینی چاہیے۔ رانا صاحب کا کہنا یہ بھی ہے کہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی بھی آئینی پیکیج کے سربراہ نہ بنیں۔ رانا صاحب جیسے 'ماہر قانون‘ اور سینئر سیاستدان کی طرف سے عدلیہ کے کاموں میں یہ مداخلت باعثِ صد افسوس ہے۔ رانا صاحب کو یقینا معلوم ہو گا کہ ایسی مداخلت پر عدلیہ کی طرف سے شدید گرفت بھی ہو سکتی ہے۔
اب ذرا سنیے:
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا
ایک تازہ ترین ورلڈ سروے کے مطابق پاکستان دنیا کے اُن تین ممالک میں شامل ہے جہاں لاء اینڈ آرڈر اور امن و امان کی صورتحال انتہائی مخدوش ہے۔ یہ سروے 142 ممالک میں کرایا گیا تھا۔ بدترین صورتحال والے ممالک میں پاکستان کے علاوہ مالی اور نائیجیریا شامل ہیں۔ عالمی نیم سرکاری تنظیم ورلڈ جسٹس پروجیکٹ قانون کی حکمرانی کا یہ گوشوارہ آٹھ نکات پر مرتب کرتی ہے۔ ان میں سے ہم پانچ اہم ترین نکات کا یہاں ذکر کریں گے۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ حکومت کو اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے کسی جوابدہی کے سسٹم کا ڈر‘ خوف ہوتا ہے یا نہیں۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ملک کرپشن سے کتنا پاک ہے۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ گڈگورننس ہے یا نہیں۔ چوتھا اور اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ بنیادی انسانی حقوق شہریوں کو حاصل ہوتے ہیں یا نہیں۔ پانچواں پوائنٹ یہ ہے کہ شہریوں کو عدالتوں سے سول اور کریمنل انصاف ملتا ہے یا نہیں۔ حکمران اس آئینے میں اپنا چہرہ دیکھ لیں۔ جس ملک میں شہری ماورائے پولیس غائب کر دیے جائیں وہاں انسانی حقوق کا کیا حشر ہو گا‘ اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ جہاں تک خیبر پختونخوا اور بلوچستان کا تعلق ہے وہاں دہشت گردی پھل پھول رہی ہے اور حکومت کی رِٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔
قومی اسمبلی کے سپیکر سردار ایاز صادق ایک سنجیدہ شخصیت کے مالک ہیں۔ ذرا دیکھیے انہوں نے 27 اکتوبر کو ایک ٹی وی انٹرویو میں کن کن ارشادات سے قوم کو نوازا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں موصوف کہتے ہیں کہ میں سپیکر کی حیثیت سے عدالتی حکم نہیں مانوں گا‘ میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی بات پر سرتسلیم خم کروں گا۔ کون سا بیچارا الیکشن کمیشن؟ جس کے بارے اب یہ راز کوئی راز نہیں کہ
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پاہے رکاب میں
سردار ایاز صادق نے یہ بھی کہا کہ پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں کے بارے میں سپریم کورٹ کا اکثریتی فیصلہ آئین کو از سر نو لکھنے کے مترادف ہے۔ سردار صاحب کے اس بیان نے ہر قانون پسند شہری کو حیران اور لاء کے ہر طالب علم کو پریشان کر دیا ہے کہ اگر حکومت عدالت کے ہر فیصلے پر کان دھرتی رہے تو پھر کاروبارِ مملکت کیسے چلے گا؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت عدلیہ کے جس فیصلے کو پسند کرے گی‘ اسے تسلیم کر لے گی اور جس کو ناپسند کرے گی اسے رَد کر دے گی۔
امن و امان اور معیشت کی کچھ جھلکیاں دیکھ لیجیے۔ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو کہ جب ہماری فوج کو اپنے جوانوں اور قوم کو اپنے شہید بیٹوں کے لاشے نہ اٹھانا پڑتے ہوں۔ 25 اکتوبر سے لے کر 27 اکتوبر تک دہشت گردوں کے حملوں میں تقریباً 25 فوجی جوانوں اور پولیس اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی جبکہ کراچی‘ لاہور اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں سٹریٹ کرائمز عروج پر ہیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ خیبر پختونخوا کی ایک سنجیدہ پارٹی سے تعلق رکھنے والے جواں سال سیاستدانوں کو اپنے صوبے میں امن و امان کے قیام اور معاشی خوشحالی سے زیادہ دلچسپی نہیں۔ ان کی اصل دلچسپی اس نان ایشو میں ہے کہ ان کے صوبے کے نام کے پہلے حصے ''خیبر‘‘ کو مٹا دیا جائے۔
جہاں تک پاکستان کی معاشی صورتحال کا تعلق ہے‘ وہ ناگفتہ بہ ہے۔ عالمی بینک کی ایک ترقیاتی اَپ ڈیٹ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں رواں سال کے دوران غربت کی شرح بڑھ کر تقریباً 41 فیصد ہو جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں سو میں سے 41 افراد کو دو وقت کی خوراک اور دیگر وسائلِ زندگی میسر نہیں ہوں گے۔ گویا 25 کروڑ میں سے 11 کروڑ کی آبادی کو ایک وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ہو گی اور ان کے بچوں کو تعلیم تک کوئی رسائی حاصل نہیں ہو گی۔ عالمی بینک کی رپورٹ میں معاشی استحکام کے لیے سیاسی اتفاقِ رائے اور آئی ایم ایف پروگرام پر عملدرآمد ضروری قرار دیا گیا ہے۔
حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی تمام تر توجہ امن و امان کے قیام‘ دہشتگردی کے خاتمے اور شہریوں کو سستا‘ فوری اور حقیقی انصاف مہیا کرنے پر مرکوز کریں۔ اسی طرح حکومت کو چاہیے کہ وہ سیاسی اتفاقِ رائے کو بھی اپنی ترجیحات میں شامل کرے تاکہ سیاسی استحکام کیساتھ ساتھ معاشی استحکام بھی آئے۔ مگر مقامِ افسوس ہے کہ حکمران مکمل امن و امان کے قیام اور گڈگورننس کے بجائے عدالتوں کو کنٹرول کرنے کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔