غزہ میں اسرائیل کی بدترین جارحیت اور اہلِ فلسطین کی نسل کشی کو ایک سال گزر چکا ہے۔ اس دوران غاصب صہیونی ریاست نے کتنا خون بہایا اور کتنی قتل و غارت گری اور تباہی کی ہے‘ اس کی تفصیلات کا ذکر کرنے سے پہلے ہم ایک غلط فہمی کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں۔
اسرائیلی پروپیگنڈا کے نتیجے میں ہمارے بعض دانشوروں کا خیال ہے کہ اہلِ غزہ چین اور سکون کی زندگی گزار رہے تھے اور علاقے میں مکمل امن تھا۔ ان حالات میں سات اکتوبر 2023ء کو حماس کی طرف سے اسرائیل کے اندر حملہ محض مہم جوئی کے علاوہ کچھ نہ تھا‘ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اسرائیل جب چاہتا وہ غزہ پر فضائی حملہ کر دیتا تھا اور جسے چاہتا اسے ٹارگٹ کلنگ سے لقمۂ اجل بنا دیتا تھا۔ اسی طرح اسرائیلی فوجی جب چاہتے جیپوں میں مشین گنوں اور کلاشنکوفوں کے ساتھ زمینی راستے سے حملہ آور ہوتے اور جسے چاہتے اٹھا کر لے جاتے۔ جس کی چاہتے اہانت کر دیتے۔ عورتوں کے ساتھ بھی زیادتی کے واقعات سامنے آ رہے تھے۔ کئی دہائیوں کی غلامی اور کئی سالوں کی ذلت آمیز اسرائیلی کارروائیوں سے تنگ آ کر حماس نے سات اکتوبر 2023ء کو اسرائیل کے اندر ان کی فوجی تنصیبات پر محدود سا حملہ کر کے بعض اسرائیلی فوجیوں اور شہریوں کو یرغمال بنا لیا تھا۔ اس وقت سے اب تک یہ غیر قانونی صہیونی ریاست 42 ہزار فلسطینیوں کو غزہ میں شہید اور ایک لاکھ سے زائد کو شدید زخمی کر چکی ہے۔ پرندوں اور جانوروں کے حقوق کے مغربی محافظین کی آنکھوں کے سامنے اسرائیل نے اندھا دھند بمباری سے پندرہ ہزار پھول سے بچوں کو بھی خاک و خون میں تڑپا دیا اور ان پھولوں کو آگ میں جلا دیا اور کوئی اس کا ہاتھ روکنے والا نہیں تھا۔ یہ سب امتِ مسلمہ کے قائدین کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے مگر وہ ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔
اسرائیل نے غزہ میں بلا روک ٹوک تباہی امریکہ اور یورپ کی پشت پناہی اور جدید ترین اسلحہ کے انباروں اور اَن گنت ڈالروں سے کی ہے۔ سارا غزہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ اہلِ غزہ کو اپنے ملبے کے ڈھیروں اور کیمپوں میں ان کی پناہ گاہوں سے نکال کر کھلے آسمان تلے کھڑا کر دیا جاتا ہے جہاں اسرائیل بمباری کر کے انہیں شہید کر دیتا ہے۔ اسرائیل اہلِ غزہ پر بار بار قحط کو بطور ہتھیار مسلط کرتا ہے۔ حماس کے قائد اسماعیل ہنیہ کو اسرائیل نے 31جولائی کو ایران میں ایک بزدلانہ حملے میں شہید کروایا۔ اس کے بعد اسرائیل نے اسی طرح کے ایک حملے میں حزب اللہ کے ہر دلعزیز سیکرٹری جنرل حسن نصراللہ کو بیروت میں زیر زمین بنکر میں شہید کر دیا ۔ اس کے بعد اسرائیل رات دن لبنان پر فضائی حملے کر رہا ہے اور اب تک سینکڑوں شہریوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔
اسرائیل نے مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کا دائرہ بہت وسیع کر دیا ہے۔ غزہ کے بعد لبنان اور یمن پر مسلسل حملوں کے بعد اب وہ ایران پر حملے کی تیاری کر رہا ہے۔ عالمی امن کے ٹھیکیداروں کی رعونت دیکھیے کہ امریکہ میں ریپبلکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کہہ رہا ہے کہ اسرائیل ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کیوں نہیں کرتا۔ اسرائیلی وزیراعظم کو اپنے یرغمالیوں کی بھی کوئی پروا نہیں اور وہ گریٹر اسرائیل کے لیے امریکی کندھوں پر سوار ہو کر جہاں چاہتا ہے وہاں حملے کر رہا ہے۔ ان تین چار ممالک پر حملے کرنے کے بعد اسرائیلی وزیر دفاع نے مسلم دنیا کو انتباہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم جب چاہیں گے‘ جہاں چاہیں گے اور جسے چاہیں گے‘ اسے نشانہ بنائیں گے۔ ایسے انتباہ پر تو عرب اور مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے جاگ جانا چاہیے تھا مگر ہنوز وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری باری نہیں آئے گی۔ اسرائیل نے لبنان میں پیجرز اور واکی ٹاکی میں ریموٹ کنٹرول ٹیکنالوجی اور بیرونِ ملک انٹیلی جنس کے ذریعے بیروت میں بہت بڑی تباہی کی۔ اسرائیل کو 57اسلامی ممالک پرجنگی برتری حاصل ہے۔ اگرچہ مغربی حکمران تو اسرائیل کے تابع فرمان ہیں مگر امریکہ اور یورپ کے باضمیر لوگ مسلسل ایک برس سے شدید احتجاج کر کے اسرائیل کی بھرپور مذمت کر رہے ہیں۔ مغربی عوام لائقِ تحسین ہیں۔
ان حالات میں جماعت اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے ایک دانشمندانہ قدم اٹھایا۔ انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان سے ملاقات کی اور انہیں سات اکتوبر کو یوم یکجہتی فلسطین مشترکہ طور پر منانے کی دعوت دی۔ وزیراعظم شہباز شریف‘ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور دیگر حکومتی جماعتوں اور سیاستدانوں نے اس دعوت کو قبول کر لیا‘ سوائے پی ٹی آئی کے۔ سات اکتوبر کو ایوانِ صدر میں آل پارٹیز فلسطین کانفرنس منعقد ہوئی جس میں سارے ہی زعما نے نہایت جرأت مندانہ خطابات کیے۔ کانفرنس کے داعی حافظ نعیم الرحمن نے زعمائے قوم سے خطاب کرتے ہوئے حکومت پاکستان پر زور دیا کہ وہ مسئلہ فلسطین پر اسلامی سربراہی کانفرنس بلائے۔ حافظ صاحب نے یہ بھی کہا کہ اسلام آباد میں ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں بھی اسرائیلی جارحیت پر کھل کر بات کی جائے۔
کانفرنس میں میاں نواز شریف نے اہلِ غزہ‘ بالخصوص بچوں کی نسل کشی پر گہرے رنج کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ حیرت ہے کہ اسلامی ممالک قوت کب استعمال کریں گے؟ مولانا فضل الرحمن نے بھی اسرائیل کے خلاف سخت مؤقف اختیار کرنے پر زور دیا۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہمیں جس حد تک جانا پڑے‘ جانا چاہیے اور فوری جنگ بندی کرانی چاہیے۔ صدر آصف علی زرداری اور چودھری سالک حسین نے دو ریاستی حل کی بات کی جبکہ مولانا فضل الرحمن اور حافظ نعیم الرحمن نے دو ریاستی حل کی حمایت نہیں کی۔ علامہ راجہ ناصر عباس نے قرآنی آیات سے واضح کیا کہ اگر مظلوم بھائیوں کی مدد نہیں کریں گے تو ہم گناہ گار ہوں گے۔ جناب اعجاز الحق نے کہا کہ اسرائیل کے پے بہ پے حملوں کے بعد ہماری آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ اسرائیل کسی بھی ملک پر حملہ کر سکتا ہے۔ وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے فوری جنگ بندی پر زور دیا۔ فلسطین کانفرنس اسلام آباد کے مشترکہ اعلامیہ میں اسرائیل کو نسل کشی کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ نیز غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک ورکنگ گروپ بنایا جائے گا جو اہم اسلامی ممالک کی قیادتوں سے ملاقات کرکے انہیں فلسطینیوں کی مدد کے لیے اکٹھا کرے گا۔
ایوانِ صدر اسلام آباد میں سات اکتوبر کی آل پارٹیز کانفرنس کے علاوہ اسی روز کراچی میں بھی تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام کا ایک تاریخی اجتماع ہوا جس میں مفتیٔ اعظم تقی عثمانی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ پاکستانی قوم کو فلسطینیوں کی ہر ممکن مدد کرنی چاہیے تاہم اسرائیلی جارحیت کا راستہ روکنے کی اصل ذمہ داری مسلمان حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے آل پارٹیز کانفرنس کے بعد کراچی میں علما کی کانفرنس میں بھی شرکت کی جہاں انہوں نے کہا کہ فلسطینی ہماری قرارداد کے انتظار میں نہیں۔ ہمیں اُن کی مدد کا کوئی عملی پروگرام وضع کرنا چاہیے۔ بہرحال سرکاری و غیرسرکاری طور پر منعقد ہونے والی تمام کانفرنسوں سے صرف اسلامی ممالک کی لیڈر شپ اور عوام کو ہی نہیں بلکہ مغربی دنیا کو بھی یہ مسیج گیا ہے کہ عملی نہ سہی‘ زبانی کلامی ہی سہی‘ پاکستانی حکومت اور عوام اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔
جب تک مسلمان حکومتیں بیدار نہیں ہوتیں اور نیٹو کی طرز کا تمام اسلامی ممالک کے لیے ایک دفاعی نظام قائم نہیں کرتیں‘ اس وقت تک اہلِ غزہ کی نسل کشی رکے گی اور نہ ہی لبنان پر حملے بند ہوں گے۔