آٹھ اکتوبر کو مقبوضہ کشمیر میں دس برس بعد ہونے والے انتخابات کے حتمی نتائج حوصلہ افزا ہیں۔ تقریباً تمام کی تمام مسلم سیٹیں نیشنل کانفرنس نے جیت لی ہیں۔ انتخابات کے انعقاد سے تین‘ چار ماہ قبل میری سابق رکن آزاد کشمیر اسمبلی اور ممتاز کشمیری رہنما جناب عبدالرشید ترابی سے بات ہوئی۔ ترابی صاحب مقبوضہ کشمیر کے اندر کی تفصیلی معلومات رکھتے ہیں۔
جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے کشمیری رہنما کی عالمی منظرنامے پر بھی گہری نظر ہے۔ وہ اکثر مسلم ویورپی ممالک میں کانفرنسوں سے خطاب کرتے رہتے ہیں اور عالمی سیاستدانوں کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور کشمیری مسلمانوں کی حالتِ زار سے آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ میں نے ترابی صاحب سے پوچھا کہ انتخابات کے بارے میں مقبوضہ ریاست کے کشمیریوں کا کیا رویہ ہو گا؟ ترابی صاحب نے وہاں کی صورتحال کا نہایت حقیقت پسندانہ تجزیہ پیش کیا تھا مگر اُن کا کہنا تھا کہ آل پارٹیز حریت کانفرنس کے قائدین پسِ دیوار زنداں ہونے کی بنا پر شاید عوام انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ نہ لیں۔ جبکہ اس طالبعلم کی رائے یہ تھی کہ آل پارٹیز حریت کانفرنس کو ایک دہائی کے بعد سیاسی عمل کی بحالی کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ چونکہ مرکزی قیادت جیلوں میں تھی اور یاسین ملک جیسے منجھے ہوئے کشمیری رہنما بھی ایک جھوٹے مقدمے کی پاداش میں نیودہلی کی ایک جیل میں عمرقید کاٹ رہے ہیں‘ اس لیے کشمیری عوام کو حقیقی رہنمائی تو میسر نہ تھی مگر اُن کی اجتماعی دانش نے نہایت درست فیصلہ کیا اور اپنے ووٹوں کو تقسیم نہ ہونے دیا۔ سب نے جوش وخروش سے نیشنل کانفرنس کو ووٹ دے کر ثابت کر دیا کہ آج بھی وادیٔ کشمیر میں فیصلہ کن قوت دو قومی نظریہ ہے۔ کسی مسلمان نے ہندو نواز بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو ووٹ نہیں دیا۔
وادیٔ کشمیر اور جموں کے مسلم اکثریتی علاقوں‘ چناب ریجن اور پیر پنجال ریجن سے نیشنل کانفرنس کو کامیابی ملی۔ بی جے پی نے الیکشن سے قبل ہندو اکثریتی علاقے جموں ریجن کی 25 سیٹوں کی تعداد بڑھا کر 30 کر دی تھی۔ ان میں سے انڈین حکومتی پارٹی نے 29 نشستیں جیت لی ہیں۔ جموں وکشمیر کی کل 90 سیٹوں میں سے نیشنل کانفرنس نے 42 نشستیں جیتی ہیں۔ اُن کے ساتھ کانگریس پارٹی کی 8 نشستیں ملا کر 50 سیٹیں بنتی ہیں جو مودی کی بی جے پی کے مقابلے میں واضح اکثریت ہے۔ اس لیے نیشنل کانفرنس کے عمر عبداللہ ہی مقبوضہ کشمیرکے وزیراعلیٰ بنیں گے۔
پانچ اگست 2019ء کو نریندر مودی نے بھارتی لوک سبھا میں انڈین دستور کو بلڈوز کرتے ہوئے وادیٔ کشمیر کی خصوصی حیثیت اور نیم خودمختاری کے ضامن آرٹیکل 370 اور 35 اے کو منسوخ کر کے اس مسلم اکثریتی ریاست کے ''Statehood‘‘ سٹیٹس کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ اب نیشنل کانفرنس اور کانگریس نے اس نعرے کی بنیاد پر ہی اپنی بھرپور انتخابی مہم چلائی کہ وہ کشمیر کو اس کا خصوصی مقام واپس دلائیں گے۔ اگرچہ یہ ریاستی انتخابات اس آزادانہ استصواب کا متبادل نہیں ہو سکتے جس کے ذریعے سلامتی کونسل کی قرار داد کے مطابق کشمیریوں نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اپنا مستقبل پاکستان کے ساتھ وابستہ کرتے ہیں یا بھارت کے ساتھ۔ تاہم ان انتخابات کے ذریعے کشمیری مسلمانوں کو بھارت کے خلاف کئی دہائیوں پر محیط اپنے غم وغصہ کا ووٹ کے ذریعے اظہارکرنے کا موقع ملا ہے۔
آل پارٹیز حریت کانفرنس کے مرکزی رہنما میر واعظ عمر فاروق کشمیر میں نہایت عزت واحترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ انہوں نے زور دے کر بھارت کو باور کرایا ہے کہ بامقصد مذاکرات ہی سے مسئلہ کشمیر کا حل ممکن ہوگا۔ میر واعظ اگرچہ جیل میں نہیں مگر اکثر انہیں سرینگرمیں اپنے گھر میں نظر بند رکھا جاتا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا کہنا تھا کہ کشمیر میں عام بھارتی عوام کی آزادانہ آمد ورفت سے یہاں ترقی وسرمایہ کاری کے وسیع تر منصوبے اور امکانات سامنے آئیں گے مگر کشمیریوں نے اپنی آزادی و خود مختاری کے مقابلے میں غلامی کے سنہرے جال اور خوابوں کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ یہ جال ان کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لیے بچھایا جا رہا ہے۔
بھارت اگر واقعی خطے میں پُرسکون حالات کا قیام چاہتا ہے تو پھر وہ مقبوضہ کشمیر کو اس کی نیم خودمختاری کا سٹیٹس واپس کرنے کے لیے فی الفور کارروائی شروع کر دے اور اہلِ کشمیر کو یقین دہانی کرائے کہ اُن کا چھینا ہوا ریاستی مقام انہیں لوٹا دیا جائے گا۔ بھارت کو کشمیر اسمبلی کے اوپننگ سیشن سے پہلے تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کر دینا چاہیے۔ کشمیریوں پر نافذ کی گئی طرح طرح کی بندشیں اور قدغنیں ہٹا لی جائیں۔ اسی طرح وہاں پر دس لاکھ کی تعداد میں قدم قدم پر تعینات کیے گئے فوجیوں کو بھی بھارت اپنی چھاؤنیوں میں واپس بلائے۔
وادیٔ کشمیر میں 18ستمبر‘ 25 ستمبر اور یکم اکتوبر کو مختلف علاقوں میں انتخابات کا انعقاد ہوا۔ انتخابی عمل کے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق تینوں مراحل کا اوسط ووٹنگ ٹرن آؤٹ 63.45 فیصد رہا۔ دس سال کے گورنر راج کے بعد اتنی بڑی تعداد میں حالیہ انتخابات کے لیے جوش وخروش ظاہر کرتا ہے کہ کشمیری عوام نے انتخابی عمل کے نتیجے میں قائم ہونے والی اسمبلی سے کچھ محدود سی توقعات وابستہ کی ہیں۔ ریاستی عوام امید رکھتے ہیں کہ ایک دہائی سے ہر طرح کے بنیادی حقوق کی پامالی اور آزادیٔ تحریر وتقریر پر عائد شدید نوعیت کی پابندیوں کو اٹھا لیا جائے گا۔
گزشتہ 25 برس کے دوران بھارتی قابض فوج اور متشدد انڈین حکومتوں کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم اَن گنت ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں 75 برس سے غیر قانونی بھارتی قبضہ جاری ہے۔ 1989ء سے لے کر اب تک مقبوضہ کشمیر میں 96 ہزار 320 بے قصور شہریوں کو قابض بھارتی فوج اور پولیس نے شہید کیا ہے۔ ایک لاکھ 71 ہزار سے زائد کشمیری باشندوں کو بھارتی سکیورٹی فورسز نے بلاجواز گرفتار کیا ہے۔ ان قابلِ اعتماد معلومات کے مطابق تقریباً 22 ہزار 974 خواتین کو بیوہ کیا جا چکا ہے۔ اگلی بات انتہائی اندوہناک ہے کہ جسے احاطہ تحریر میں لاتے ہوئے راقم اور قلم دونوں آبدیدہ اور انتہائی شرمسار ہیں۔ 11 ہزار 264 خواتین کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج اور پولیس کے درندوں نے زیادتی کا نشانہ بنایا۔ شہادتوں اور گرفتاریوں کا یہ سلسلہ ابھی رکا نہیں ہے۔ 2019ء سے اب تک 887 افراد شہید کیے جا چکے ہیں اور 25 ہزار سے زائد شہریوں کو پابند سلاسل کیا جا چکا ہے۔ غیر قانونی چھاپوں کا کوئی شمار نہیں اور متعدد حریت پسند سرکاری ملازمین کو غیر قانونی طور پر برطرف کیا جا چکا ہے۔ انتخابات سے محض دو اڑھائی ماہ قبل جولائی میں 20 نوجوانوں کو شہید کر دیا گیا۔ ظلم وزیادتی کے یہ اعداد وشمار بہت طویل ہیں مگر میں اپنے راہوارِ قلم کی باگ موڑتا ہوں‘ بقول تنویر نقوی:
کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں
ہزاروں ہی شکوے ہیں کیا کیا سناؤں
سیاسی عمل کو ایک بار پھر کشمیری شہریوں کی بڑی تعداد کی طرف سے سازگار فضا بنانے کے لیے بطور آپشن قبول کرنے کی بھارت تہہ دل سے قدر کرے۔ انڈیا نیک نیتی اور صدقِ دل کے ساتھ پاکستان اور تمام کشمیری سیاسی جماعتوں اور آزادیٔ کشمیر کے لیے پیہم جدوجہد کرنے والی تنظیموں کے ساتھ بامقصد مسلسل مذاکرات کرے تاکہ مسئلہ کشمیر حل کرنے کی راہیں ہموار ہو سکیں۔ بھارت حقیقی معنوں میں مقبوضہ کشمیر کو فوج سے پاک کرے‘ آر ایس ایس کے لیے فارم ہاؤسز کے نام پر بنائے گئے دہشت گردی کے مراکز ختم کرے اور مقبوضہ کشمیر میں تحریر وتقریر اور اجتماع کی حقیقی آزادی بحال کرے۔ ان اقدامات سے کشمیریوں کا سیاسی عمل پر اعتماد بڑھے گا۔