گزشتہ کالم کے حوالے سے ایک دوست نے میرے مختصرسامانِ سفر کے بارے میں سوال کیا ہے کہ میں محض دو پتلونوں اور تین‘ چار قمیضوں میں ایک ماہ تک سفر میں کیسے گزر کر لیتا ہوں؟ اس کے سوال کرنے کا انداز ایسا تھا جیسے وہ تصور میں مجھے اچھا خاصا میلا کچیلا مسافر سمجھ رہا ہے۔ میں نے اسے بتایا کہ میں اس کے خیال کے برعکس پورا مہینہ ملتان سے دھلے انہی چار کپڑوں میں نہیں گزارتا بلکہ امریکہ کے اکثر ہوٹلوں میں موجود سیلف لانڈری کی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پانچ ڈالر میں استعمال شدہ کپڑے دھو لیتا ہوں۔ ہوٹل کے ہر کمرے میں کم از کم دو تین سہولتیں لازمی طور پر میسر ہوتی ہیں۔ استری اور سٹینڈ‘ فریج‘ پانی گرم کرنے والی الیکٹرک کیتلی اور چائے و کافی کا سامان ہوٹل کے ہر کمرے میں موجود ہوتا ہے۔ مزید برآں اکثر کمروں میں تو مائیکرو ویو اوون اور کھانے کے برتن بھی موجود ہوتے ہیں کہ آپ بیشک باہر سے کھانا لائیں اور اسے کمرے میں گرم کرکے برتنوں میں ڈال کر کھائیں اور مزے کریں۔ اِدھر ہمارے ہاں یہ عالم ہے کہ باہر سے کھانا لا کر اپنے کمرے میں کھانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
امریکہ و یورپ وغیرہ میں ایئر بی این بی (ایئر بیڈ اینڈ بریک فاسٹ) کا رواج روز بروز بڑھ رہا ہے۔ دو تین لوگ یا چھوٹی فیملی ہو تو یہ آرام دہ رہائش گاہیں بہت سی سہولتوں سے مزین ہونے کے باعث لوگوں میں بڑی مقبول ہو رہی ہیں۔ میں دوستوں کے ساتھ ہوٹل کے بجائے ایئر بی این بی کی ایپ کے ذریعے شہر کے وسط میں ایک دو کمروں کا فلیٹ یا اپارٹمنٹ لے لیتا ہوں۔ یہاں کچن‘ کھانا پکانے کی سہولت‘ اوون‘ کیتلی‘ ڈش واشر‘ استری اور واشنگ مشین وغیرہ کی سہولت موجود ہوتی ہے اس لیے کپڑے دھونا‘ اپنی مرضی کا کھانا کھانا اور کافی پینا ایسا آسان ہو گیا ہے کہ گویا آپ اپنے گھر میں بیٹھے ہیں اور ہر ممکنہ سہولت سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ یہ ساری تفصیل لکھنے کا مطلب کالم کا پیٹ بھرنا نہیں بلکہ قارئین کو دنیا بھر میں مقبول ہوتے ہوئے اس رہائشی بندوبست سے آگاہ کرنا اور اس میں میسر سہولتوں کی معلومات فراہم کرنا ہے۔ بعض ایسے رہائشی یونٹس میں بھی رہنے کا اتفاق ہوا جس کے کچن میں ضروری استعمال کی ساری اشیا ازقسم مسالے‘ چٹنیاں‘ گھی‘ شکر‘ کافی‘ چائے‘ دودھ‘ ڈبل روٹی اور مکھن وغیرہ نہ صرف موجود تھیں بلکہ اگلے روز استعمال ہونے والے سارے سامان کا متبادل دوبارہ موجود تھا۔ اسی طرح برتن اور کپڑے دھونے کا ڈیٹرجنٹ اور شیمپو وغیرہ۔ حتیٰ کہ اس حد تک روز مرہ کی ضروریات کا خیال کہ اگر چار دن کیلئے بکنگ کی گئی ہے تو ہر کمرے کی الماری میں اگلے چار دن کیلئے تولیے موجود تھے۔ بچوں کے ساتھ اورلینڈو گیا تو اس پارٹمنٹ میں پورا ایک کمرہ بچوں کی دلچسپی کی اشیا سے بھرا پڑا تھا۔ میں اور انور مسعود صاحب برسبین آسٹریلیا میں جس گھر میں ٹھہرے اس میں موسم کے مطابق درجہ حرارت والے پانی سے بھرا ہوا سوئمنگ پول بھی موجود تھا۔ گیٹلن برگ میں خون جما دینے والی سردی میں برآمدے میں ہاٹ ٹب موجود تھا۔ یہ سب کچھ سو ڈالر سے لے کر تین‘ چار سو ڈالر روزانہ میں میسر ہے۔ اگر تین افراد ہیں تو عام سے ایئر بی این بی میں پینتیس‘ چالیس ڈالر فی کس کے حساب سے رہائش کا ملنا بڑا سستا پڑتا ہے۔ امریکہ میں بیڈ اینڈ بریک فاسٹ کے نام والی یہ رہائش گاہیں اکثر اپنے مفہوم کے عین مطابق ملتی ہیں جہاں آپ کو ناشتے کی سہولت گھر کے کرایے ہی میں مفت مل جاتی ہے۔ گھر کے مالک کو روزانہ کی بنیاد پر آمدنی ہو رہی ہوتی ہے اور رہنے والے کو ہوٹل سے کہیں سستی رہائش بہت سی ایسی سہولتوں کے ساتھ مل جاتی ہے جو اسے ہوٹل میں کسی طور دستیاب نہیں ہوتیں۔ یہ سارے کا سارا نظام محض آپ کے فون میں موجود ایک ایپ کے ذریعے چل رہا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح دنیا بھر میں شہری ٹرانسپورٹ کے لیے اوبر اور کریم وغیرہ کی سروس بنا کسی فزیکل منتظم کے چل رہی ہے۔ ڈیجیٹل نظام کی ترقی نے بہت سارے کاروباروں اور سہولیاتی صنعت کو انسانی موجودگی سے مبرا کرکے رکھ دیا ہے۔ ابھی ہم اور بہت سی چیزوں کو جلد ہی تبدیل ہوتے دیکھنے کا تجربہ کریں گے۔
ایمانداری کی بات ہے کہ دیارِ غیر میں جب بھی غائبانہ طور پر (انٹرنیٹ پر بکنگ صرف لکھی ہوئی مصنوعات اور سہولتوں کو پڑھ کر کی جاتی ہے) کسی اپارٹمنٹ کی بکنگ کرائی تو وہاں جا کر اسے نیٹ پر پڑھی گئی معلومات سے کسی حد تک بہتر ہی پایا۔ اِدھر یہ عالم ہے کہ صرف ایک بار میں نے شوکت گجر کے ہمراہ کالام کے ساتھ ہی ایک نہایت پُرفضا اور قدرتی خوبصورتی سے مالا مال علاقے میں ایک پرائیویٹ رہائش گاہ بک کرائی (ویب سائٹ پر یہی لکھا ہوا تھا) بمشکل وہاں تک پہنچے تو کوئی ایک بھی ایسی خوبی وہاں موجود نہ تھی جس کا ذکر ویب سائٹ پر کیا گیا تھا۔ ویب سائٹ پر لکھا تھا کہ تمام کمرے ندی کے اوپر واقع ہیں۔ موقع پر جا کر دیکھا تو تھوڑی دور بہنے والی گدلے پانی کی نہر میں سے ایک پختہ نالی نکال کر اس رہائش گاہ کے صحن میں سے گزاری گئی تھی۔ یہ ''ندی‘‘ سات آٹھ انچ گہری اور تقریباً اتنی ہی چوڑی تھی۔کمروں کی حالت ایسی خراب و خستہ کہ خدا کی پناہ۔ دوبارہ اسی خراب راستے سے واپس آئے اور رہائش کا متبادل بندوبست کیا۔ اس دن کے بعد پاکستان میں غائبانہ بکنگ سے توبہ کر لی۔
لندن جیسے مہنگی زمین والے شہر میں صرف آٹھ عدد رائل پارکس نے پانچ ہزار ایکڑ کے لگ بھگ جگہ گھیر رکھی ہے۔ ان آٹھ پارکس کے علاوہ دیگر چھوٹے چھوٹے بیشمار پارکس ہیں جو جگہ جگہ سبزے کی بہار دکھا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ درختوں کا تو کچھ نہ پوچھیں۔ جہاں گملا رکھنے کی جگہ تھی وہاں گوروں نے درخت اگا رکھے ہیں۔ ہر سڑک‘ ہر گلی اور ہر لان میں درخت ہیں۔ خزاں سے لے کر سردیوں کے اختتام تک ایسی پت جھڑ لگتی ہے کہ باغوں‘ میدانوں اور فٹ پاتھوں پر پیلے پتوں کا سونا سا بکھرا رہتا ہے۔ اس قدر پتے گرتے ہیں کہ ہر جگہ ان کا دبیز قالین پائوں تلے چرمراتا رہتا ہے۔ ہمارے ہاں اتنے پتے گریں تو شہر چار ہی دن میں ان پتوں تلے دب جائیں مگر ادھر ہر روز ہی یہ پتے صاف ہو جاتے ہیں۔ کہیں پتے سمیٹنے والی گاڑیاں اپنے کام میں مصروف ہیں تو کہیں سٹی کونسل کے کارندے بیٹری سے چلنے والے ہوا کے بلور ہاتھ میں پکڑے پتے اڑاتے دکھائی دیتے ہیں۔
بیرسٹر نسیم باجوہ نہایت متواضع بزرگ دوست ہیں۔ جب بھی انہیں میرے لندن پہنچنے کی اطلاع ملے‘ دوستوں کے مل بیٹھنے کا اہتمام کرتے ہیں جہاں ایسی منڈلی جمتی ہے کہ اٹھنے کو دل نہیں کرتا۔ کھانے کے بعد چلنے والے گفتگو کے سیشن میں بتانے لگے کہ کل وہ پارک میں سیر کرکے نکلنے لگے تو کیا دیکھتے ہیں کہ پتے سمیٹنے پر مامور شخص پارک کے دروازے پر پہنچا تو اس کے سامنے ایک پتا اڑتا ہوا نیچے گرا۔ اس نے رک کر وہ پتا اٹھا لیا۔ اسی اثنا میں اس کی نظر پیچھے پڑی تو درخت سے ایک اور پتا ٹوٹ کر نیچے گر چکا تھا۔ وہ پیچھے گیا اور اس نے وہ پتا بھی اٹھا لیا۔ پھر سے ایک اور پتا تھوڑا اور پیچھے دکھائی دیا۔ وہ چل کر وہاں گیا جھک کر اس پتے کو ہاتھ سے اٹھا کر کھڑا ہوا اور ارد گرد نگاہ دوڑائی کہ کہیں اور تو کوئی پتا نہیں گرا۔ اطمینان کرکے وہ پلٹا اور اپنی گاڑی میں بیٹھ گیا۔ باجوہ صاحب کہنے لگے کہ میں نے اسے ہاتھ کے اشارے سے روکا اور آگے بڑھ کر اس کے محنت کش ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور اس کی کام سے لگن کی تعریف کی۔ وہ کہنے لگے: پھر میں نے سوچا کہ کاش اس طرح کا کوئی شخص پاکستان کا حاکم ہوتا تو سارا ملک اس باغ کی طرح صاف و شفاف ہوتا۔ میں دل ہی دل میں ہنسا کہ باجوہ صاحب کیا خوش گمان آدمی ہیں۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ ہمیں ایک عرصے سے کوئی مخلص اور نیک نیت حکمران نصیب نہیں ہوا مگر یہ بھی علم ہے کہ اگر مل بھی گیا تو اس سارے گند کو صاف کرنا بہرحال ایک آدمی کے بس کی بات نہیں ہے۔