"KMK" (space) message & send to 7575

قل سیرو فی الارض

اس جہانِ فانی میں رہتے ہوئے ہم جیسے گنہگار دنیا داروں کا دل حسرتوں سے کبھی خالی نہیں ہوتا۔ مزید سے مزید تر کی خواہش ہم جیسوں کو سگِ دنیا بنائے رکھتی ہے۔ ہاں! البتہ درویش صفت لوگوں کا دل دنیاداری کے لوبھ اور لالچ سے پاک ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ ابھی چند دن گزرے ملائیشیا کا تیسرا امیر ترین آدمی اور بزنس ٹائیکون تتپرا نندم انندا کرشنان پانچ ارب ڈالر سے زائد کی دولت چھوڑ کر اس دنیا سے چلا گیا ہے۔ انندا کرشنان کا بیٹا وین اجان سری پانیو‘ جو اپنے باپ کی کمپنی ایئرسیل اور ایک زمانے میں آئی پی ایل کی ٹیم چنئی سپر کنگ کا مالک تھا‘ اٹھارہ سال کی عمر میں اپنی تھائی ماں کے ساتھ اس کے خاندان سے ملنے کیلئے تھائی لینڈ گیا اور اس قیام کے دوران بدھ بھکشوؤں کی زندگی سے متاثر ہو کر دنیا تیاگ دی اور دولت سے دستبردار ہو کر بھکشو بن گیا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ دولت کی ریل پیل میں پرورش پانے والا یہ لڑکا چند دن بعد ہی دوبارہ رنگ و نور کی دنیا میں واپس آ جائے گا مگر لوگوں کے سب اندازے خام نکلے۔ آج اس بات کو دو دہائیاں گزر چکی ہیں۔ سری پانیو اپنے بھکشو بننے کے فیصلے پر نہ صرف قائم ہے بلکہ تھائی لینڈ اور میانمار (برما) کی سرحد پر واقع جنگل میں قائم تاؤ ڈم بدھ موناسڑی میں دو پیلی چادریں اوڑھے‘ سرمنڈائے اپنے باپ کی دولت سے دستبرداری کے فیصلے پر قائم ہے۔ سری پانیو اپنے باپ انندا کرشنان کی تین اولادوں میں اکلوتا بیٹا ہے اور پانچ ارب ڈالر یعنی پاکستانی روپوں میں چودہ کھرب کے لگ بھگ دولت چھوڑ کر دنیا کے دور افتادہ جنگل میں قائم بدھ پگوڈا میں رہائش پذیر ہے اور روکھی سوکھی کھا کر مطمئن ہے۔ اطمینانِ قلب ایک نایاب شے ہے۔
سچ پوچھیں تو میں سری پانیو کی کایا کلپ پر حیران ضرور ہوں مگر بحیثیت مسلمان دنیا کو تیاگ دینے کا تو بالکل بھی قائل نہیں کہ اسلام اعتدال کا دین ہے اور دین و دنیا میں توازن کا داعی ہے۔ لیکن ہم جیسے دنیاداروں کیلئے یہ توازن قائم رکھنا بھی بہت مشکل ہو چکا ہے۔ پیسہ آج کی ضرورت ہے۔ یہ عاجز عالمِ اسباب میں زندہ ہے اور ضروریات کا محتاج ہے مگر دل ضرورت سے زیادہ کا نہ تو خواہش مند ہے اور نہ ہی اس کیلئے کبھی بے چین ہوا ہے۔ یہ دل دنیاوی خواہشات کا غلام نہ سہی مگر ان سے خالی ہرگز نہیں ہے کہ ابھی فقر کی اس منزل سے دور ہے جہاں بندہ اس قسم کی مادی خواہشات سے دستبردار ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ بھی اس مالک کا کرم ہے کہ اس نے جائز اور ناجائز کے مابین فرق کو اس عاجز کے دل و دماغ میں راسخ کر رکھا ہے اور اعتدال کی حد کو کبھی پار کرنے کی کوشش نہیں کی۔ مالک سے دعا ہے کہ وہ اس دل کو قناعت سے بہرہ مند فرمائے اور اپنی طے کردہ حدود و قیود کے اندر رہنے کی توفیق بخشتا رہے کہ اس کی کرم نوازی کے بغیر ہم جیسے گنہگاروں کیلئے اعتدال قائم رکھنا بھی بھلا کہاں ممکن ہے؟
دل میں جاگزین خواہشات میں سے ایک خواہش دنیا دیکھنے کی ہے اور یہ دل شکر گزاری سے معمور ہے کہ مالکِ کائنات اس عاجز کی اس خواہش کی تکمیل کیلئے اسباب مہیا کرتا رہتا ہے۔ جس دن زادِ راہ اکٹھا ہو جائے یہ مسافر اپنا بیگ اٹھا کر چل پڑتا ہے۔ مسافر اس شوق کے پیچھے خالقِ کائنات کی اجازت کو جواز بناتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں سورۃ الانعام کی گیارہویں‘ سورۃ النمل کی انہترویں‘ سورۃ العنکبوت کی بیسویں اور سورۃ الروم کی بیالیسویں آیت میں فرمایا: قل سیروافی الارض‘ یعنی ان سے کہو زمین میں چلو پھرو۔ یہ مسافر مالکِ کائنات کی تخلیق کردہ اس دنیا میں چشمِ حیرت وا کیے بہت کچھ دیکھ چکا ہے اور مزید بہت کچھ دیکھنے کی حسرت دل میں لیے مستقبل کے منصوبے بناتا رہتا ہے۔ انسان بنیادی طور پر ناشکرا ہے۔ اس لیے یہ مسافر مالک کی عطا کی گئی اس عنایت پر شکرگزار ہونے کے باوجود مطمئن نہیں اور مزید کی طلب کا خواہشمند رہتا ہے۔ بھلا دنیا میں کتنے لوگوں پر یہ عنایت ہوئی ہو گی؟ لیکن دل ہے کہ اب بھی اس ملال میں مبتلا ہے کہ جتنا کچھ دیکھ لیا ہے وہ اس سے کہیں کم ہے جس کی خواہش دل میں باقی ہے‘ اوپر سے یہ دھڑکا کہ زندگی کی جتنی ڈور بچی ہے وہ اس سے کہیں کم ہے جتنی دنیا دیکھنی باقی ہے۔ خواہشات کی یہ فہرست ختم ہوتی دکھائی نہیں دیتی اور ہرگزرتا دن مواقع محدود کرتا جا رہا ہے۔ شفیق الرحمان اپنے طویل افسانے دجلہ کے اختتام میں لکھتے ہیں کہ ''زندگی محدود ہے اور علم وہنر لامحدود‘ مواقع تیزی سے گزرے جا رہے ہیں۔ تجربہ خام ہے اور صحیح نتیجے پر پہنچنا بہت مشکل‘‘۔
اس مسافر کا ایک دوست ہے اور دوستوں کے نام بھلا کیا لکھنا‘ اللہ نے بہت کچھ دے رکھا ہے۔ بہت کچھ سے مراد واقعتاً بہت کچھ ہے۔ زندگی مزید کمانے کی دوڑ میں ہے اور یہ دوڑ بڑے محدود دائرے میں ہے۔ ایک وسیع و عریض بیڈ روم ہے جس میں ایک عدد جہازی سائز کا بیڈ ہے‘ آٹھ دس صوفے ہیں اور ایک عدد دفتری میز ہے جو فائلوں‘ کاغذوں اور دستاویزات سے اٹی ہوئی ہے۔ صبح سے شام اور رات سے دن اسی محدود دنیا میں ہو رہے ہیں۔ سارا دن ٹھیکیداروں‘ پٹواریوں‘ (پٹواری سے مراد یہاں واقعتاً پٹواری ہی ہیں) اکاؤنٹنٹس‘ انجینئرز‘ سپلائرز اور بینک والوں کے ساتھ اسی محدود سی جگہ میں گزر جاتا ہے۔ شام کو دوست آ جاتے ہیں تو اسی کمرے کا ماحول تھوڑا غیرکاروباری بن جاتا ہے۔ ایک روز میں نے کہا کہ بھلا یہ کوئی زندگی ہے؟ اتنا کمانے اور جمع کرنے کا فائدہ‘ اگر عمر کا بڑا حصہ اسی ایک کمرے میں گزارنا ہے اور صرف اسی بات سے لطف لینا ہے کہ بینک بیلنس‘ جائیداد اور کاروبار میں مزید اضافہ ہو رہا ہے توایسی جائیداد اور کاروبار کا آپ کو کیا فائدہ ہوا؟ میری اور آپ کی دولت کا آپس میں کوئی موازنہ یا مقابلہ ہی نہیں‘ میرے پاس جو کچھ ہے وہ آپ کو حاصل دھن دولت کا ایک فیصد بھی ہوتا تو بڑی بات تھی۔ یہ تو صفر اعشاریہ صفر کے بعد والے اعداد پر مشتمل ہے لیکن میں کتنا خوش قسمت ہوں کہ میرے مالک نے جو کچھ مجھے عطا کیا ہے میں اسے استعمال کر رہا ہوں۔ اس سے لطف لے رہا ہوں۔ اس کی دنیا کی رنگا رنگی اور اس کے تخلیق کردہ قدرتی حسن سے آنکھیں سیر اور دل خوش کر رہا ہوں۔ آپ کی ساری کمائی‘ دولت‘ جائیداد اور کاروبار بھلا آپ کے کس کام کا ہے؟ آپ ایک ایسے مشقتی ہیں جو دوسروں کیلئے کمانے میں لگے ہوئے ہیں۔ اس کے عطا کردہ پیسے اور سہولتوں سے لطف اندوز نہیں ہو رہے۔ اس کے دیے ہوئے مال کو اپنی ذات پر خرچ نہیں کر رہے۔ اس کی وسیع و عریض دنیا چھوڑ کر اس کمرے کی محدود سی دنیا میں قید ہیں۔ آپ کے پاس پیسہ نہ ہوتا تو اور بات تھی۔ پیسہ ہونے کے باوجود آپ اسے اپنی ذات پر جائز طور پر بھی خرچ نہیں کر پا رہے۔ بھلا یہ بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے؟ مجھ سے کہنے لگے: تمہارے پاس یہ پیسہ ہوتا تو تم کیا کرتے؟ میں نے کہا: اول تو میں ایسی باتوں پر غور ہی نہیں کرتا کہ میرے پاس بہت پیسہ ہوتا‘ میرے پاس جو کچھ ہے وہ بھی میری محدود ضروریات اور خواہشات کیلئے کافی سے بڑھ کر ہے۔ ہاں اگر میرے پاس آپ کی دولت کا پانچ چھ فیصد بھی ہوتا تو میں پہلے سے کہیں زیادہ خیرات کرتا۔ اس کا شکر ادا کرنے کیلئے صدقہ جاریہ کا اہتمام کرتا اور پھر دنیا کی سیر کو نکل جاتا۔ مجھے زچ کرنے کی خاطر پوچھنے لگے: سیر سے واپس آ جاتے تو پھر کیا کرتے؟ میں نے کہا: اس کی اتنی بڑی دنیا کو دیکھنے کیلئے پھر رختِ سفر باندھتا اور بار بار باندھتا۔ کہنے لگے: دوچار سال میں یہ سب کچھ سمیٹ لوں تو پھر سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر تمہارے ساتھ چلوں گا۔ میں نے کہا: میں آپ کے بارے میں کیا کہوں‘ مجھے تو اپنا پتا نہیں کہ کس دن ایسے لمبے سفر پر روانہ ہو جاؤں جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ جو حاصل ہے اس سے لطف لیں اور شکرادا کریں نہ کہ زندگی ان لاحاصل چیزوں کی طلب میں برباد کردیں جن کی آپ کو فی الواقع ضرورت ہی نہیں۔ کمرے میں ایک دم خاموشی چھا گئی۔ میں اگلے روز جب لندن اترا تو وہاں درجہ حرارت صفر ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں