اس ملک میں وجود پانے والے جتھوں کی تخلیق کے بے شمار اسباب بیان ہو سکتے ہیں مگر میرے خیال میں (یہ صرف خیال ہے‘ فیصلہ نہیں) ان جتھوں کو عدم سے وجود میں لانے کی تمام تر ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے۔ ان جتھوں کو کبھی ریاستی ادارے اپنی تزویراتی گہرائی کو مزید مستحکم کرنے کے نام پر اور کبھی کسی راندۂ درگاہ کو سبق سکھانے کیلئے بناتے رہے‘ اور کبھی یہ جتھے سرکار کی طرف سے عدم انصاف‘ لاپروائی اور بے حسی کے باعث وجود میں آئے۔ یعنی انکی تخلیق کے پیچھے کسی نہ کسی طور ریاستی عوامل ہی کارفرما تھے۔
جتھوں کی تخلیق کے مائنڈ سیٹ کے پیچھے عدم انصاف بھی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔ جس ملک میں بے وسیلہ مقتول کے قتل کا پرچہ اس وقت تک درج نہ ہو جب تک اسکے ورثا اس کی لاش سڑک پر رکھ کر ٹریفک بند نہ کر دیں تو اس ملک میں احتجاج‘ دھرنوں اور جتھوں کو بننے سے کون روک سکتا ہے؟
عدالتوں کی طرف سے عدم انصاف‘ انصاف میں تاخیر یا منتخب قسم کا انصاف اب اس ملک میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ حکومت کسی کی بھی ہو‘ جی ہاں! کسی کی بھی‘ قانون کی عملداری اور انصاف کا یہ عالم ہے کہ اس ملک میں کبھی کسی حکومتی پارٹی کا بندہ نہ تو چور ہوتا ہے اور نہ کرپٹ‘ یہ ساری قباحتیں اپوزیشن کے لوگوں میں پائی جاتی ہیں۔ نیب‘ ایف آئی اے‘ اینٹی کرپشن اور اسی قبیل کے دوسرے سرکاری محکمے اپنی ساری صلاحیتیں صرف اور صرف اپوزیشن کے لوگوں کو پکڑنے‘ دبانے اور انہیں رگڑنے میں لگا دیتے ہیں۔ عدالتیں اس دوران اپوزیشن کے لوگوں کو سزائیں دینے اور سابقہ دور میں موجودہ حکمرانوں کو ملنے والی سزائوں کی معطلی اور ان کو بری کرنے میں لگ جاتی ہیں۔ آپ گزشتہ30‘ 35برس کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں۔ مسلم لیگ (ن) کے دور میں پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ کو رگڑا لگا۔ اس دوران کوئی (ن) لیگی حکمران یا پارٹی لیڈر کرپٹ یا بدعنوان نہ تھا۔ جب پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی تو یہی ماڈل اُلٹا ہو گیا۔ عمران خان کے زمانے میں چودھری پرویز الٰہی اور عثمان بزدار سے لے کر احسن جمیل گجر تک‘ سارے کردار نیک اور پارسائی کا نمونہ تھے اور کرپشن ان کو چھو کر بھی نہ گزری تھی۔ اس زمانے میں ساری کرپشن کا منبع صرف عمران خان کے مخالفین تھے اور خان صاحب کو امریکہ میں بھی ان کے جیل کے کمروں سے اے سی اتروانے کے علاوہ اور کسی بات کی فکر نہیں تھی۔ اب صورتحال بالکل الٹ ہے۔ آج کل یہ عالم ہے کہ ملک بھر کے کرپٹ‘ قانون شکن‘ بدعنوان اور بے ایمان صرف پی ٹی آئی میں پائے جاتے ہیں۔ حکمران پارٹی اور ان کے اتحادی نیکی و پارسائی کے کوہِ ہمالیہ پر متمکن ہیں۔
کئی سال پرانی بات ہے ڈی چوک پر دھرنوں کا جمعہ بازار لگا ہوا تھا۔ میں اسلام آباد گیا تو ایک روز ادھر بھی چلا گیا۔ صبح کا وقت تھا اور پی ٹی آئی والا پڑاؤ پُرسکون اور خاموش تھا تاہم قومی اسمبلی کے سامنے والے جنگلے کے ساتھ علامہ طاہر القادری کے علاقے میں خاصی ہلچل تھی۔ میں ابھی تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ پیچھے سے کسی نے آواز دی۔ رکو! کدھر جا رہے ہو؟ میں نے پلٹ کر دیکھا تو ایک سولہ سترہ سال کا نوجوان‘ جس کی ابھی داڑھی بھی پوری طرح نہیں نکلی تھی‘ میری طرف بھاگتا ہوا آ رہا تھا کہ اچانک رک گیا۔ میں نے دیکھا کہ اس کی شلوار کے پائنچے سے پستول کی نالی باہر جھانک رہی تھی۔ بھاگتے ہوئے اس کے نیفے میں اڑسا ہوا پستول کھسک کر نیچے گر گیا۔ اس نے پستول پائنچے سے نکال کر دوبارہ نیفے میں اڑسا اور مجھ سے پوچھنے لگا کہ میں کدھر جا رہا ہوں؟ میں نے اسے بتایا کہ میں کہیں نہیں جا رہا بس دھرنا دیکھنے آیا ہوں۔ اس نے مجھے پوچھا: آپ کیا کرتے ہیں؟ میں نے کہا: اخبار میں کالم لکھتا ہوں تو اس کے چہرے کی درشتی تھوڑی کم ہوئی۔ میں صرف یہ سوچ رہا تھا کہ اتنی کم عمر کے لڑکے کے ہاتھ میں آتشیں اسلحہ دے کر قائد محترم کون سا انقلاب لانا چاہتے ہیں۔ کل کلاں یہ بچہ اپنی جان سے چلا گیا تو قادری صاحب کا کیا جائے گا؟ کسی ماں کی گود اجڑ جائے گی اور وہ جہاز کی فرسٹ کلاس میں بیٹھ کر کینیڈا واپس پدھار جائیں گے۔
یہ سارا نظام انصاف جو حکمرانوں اور حکمرانوں کے حکمرانوں کا ماتحت ملازم بن چکا ہے‘ ان جتھوں کو مضبوط کرنے کیلئے نرسری کا فریضہ سرانجام دے رہا ہے۔ لوگ اس بدبودار نظام کو بہانہ بنا کر اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے اپنے اپنے جتھے سمیت اسلام آباد پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ کبھی ماڈل ٹائون قتلِ عام کو جواز بنا کر طاہر القادری اسلام آباد پر ہلہ بول دیتے ہیں اور کبھی ٹی ایل پی والے اپنے مطالبات کیلئے شہرِ اقتدار کو یرغمال بنا لیتے ہیں۔ کبھی کھلاڑی حکومت کی رخصتی کیلئے اس شہر میں دھرنا دیتے ہیں اور کبھی کسی قیدی کو چھڑانے کیلئے اس لاوارث شہر پر چڑھائی کر دیتے ہیں۔ ریاست کے سب شہریوں کو قانون کی پابندی کرنی چاہیے لیکن ریاست کا بھی فرض ہے کہ وہ انصاف فراہم کرے‘ ورنہ ظلم کو بغاوت کی بنیاد بننے سے روکنا ممکن نہیں رہتا۔
یہ سب دھرنے‘ چڑھائیاں اور ہلّے جہاں ایک طرف ریاست کی کمزوری اور نااہلی کی دلیل ہیں تو دوسری طرف یہ جتھوں کے بڑھتے ہوئے حوصلوں اور طاقت کی نشانی ہیں۔ ان جتھوں کا آغاز تو نظام کے خلاف جدوجہد کے نام پر ہوتا ہے مگر ان کا اصل مقصد اقتدار کا حصول اور افراد کے مفاد اور تحفظ کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ قطع نظر اس بات کے کہ کون کیا ہے‘ یہ طے کیا جائے کہ نہ تو کوئی قانون سے بالاتر ہے اور نہ ہی کسی کو قانون سے کھیلنے یا اسے پامال کرنے کی اجازت ہو گی۔ لیکن اس کیلئے سب سے ضروری چیز حکومت کی نیت ہے جو صاف ہونی چاہیے۔ لیکن یہی بات اصل مصیبت کی جڑ ہے۔ حکومت خواہ کسی کی بھی ہو‘ ذاتی مفادات سے اوپر جا کر سوچنے سے عاری ہوتی ہے۔ حکمرانوں کو مال بنانے اور موج میلہ کرنے سے فرصت نہیں۔ حکمرانوں کے اوپر بیٹھے ہوئے منصوبہ سازوں نے اپنی ماضی کی ناکامیوں سے رتی برابر سبق حاصل نہیں کیا۔ اوپر سے چھبیسویں آئینی ترمیم نے پہلے سے برباد شدہ نظام انصاف کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیا ہے۔ کسی مافیا یا جتھے کو قابو کرنے کا کسی میں حوصلہ ہے اور نہ ہی ارادہ۔ گزشتہ تین عشروں سے آہستہ آہستہ ہماری ریاست لاچاری کے اس درجے پر پہنچ چکی ہے کہ مذہبی‘ سیاسی‘ ادارہ جاتی اور جہادی جتھوں نے ریاست کی رِٹ کو بے معنی کر کے رکھ دیا ہے اور ہمارا حال گو ویسا نہ سہی‘ مگر اسی طرف گامزن ہے جیسا کبھی لاطینی امریکہ کے ممالک ایل سلواڈور‘ کولمبیا‘ گوئٹے مالا اور وینزویلا کا تھا۔ اگر وہ ممالک اپنی اس بدترین صورتحال کو بہتر کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں؟ اگر ہم نے اب بھی صورتحال کی سنگینی کا ادراک نہ کیا تو مذہبی‘ سیاسی اور پیشہ ور جتھے اس ملک کو برباد کر دیں گے۔ اگر لاطینی امریکہ کے حالات ٹھیک ہو سکتے ہیں تو ہمارے ہاں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا؟ لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ جتھوں کے سرپرست اور انکے خالق اپنی حکمت عملی سے رجوع کرتے ہوئے اس کام سے اپنا ہاتھ کھینچ لیں۔ کالم اختتام پذیر ہوا مگر اسے ختم نہ سمجھیں بلکہ فیض احمد فیض کی نظم ''انتساب‘‘ کی مانند ''ناتمام‘‘ سمجھیں کہ کئی جتھوں کا تذکرہ ہونے سے رہ گیا ہے‘ اور یہ وہ جتھے ہیں جن کا ذکر بوجوہ کھل کر نہیں ہو سکتا۔ فیض کی نظم انتساب کا آخری بند:
ان اسیروں کے نام
جن کے سینوں میں فردا کے شب تاب گوہر
قید خانوں کی شوریدہ راتوں کی صرصر میں
جل جل کے انجم نما ہو گئے
آنے والے دلوں کے سفیروں کے نام
وہ جو خوشبوئے گل کی طرح
اپنے پیغام پر خود فدا ہو گئے ہیں ...(ناتمام)