میں بہت کم سامان کے ساتھ سفر کرتا ہوں۔ اتنے کم سامان کے ساتھ کہ بعض دوستوں کو باقاعدہ حیرت ہوتی ہے کہ میں اس سامان کے ساتھ مہینہ مہینہ بھر کا سفر کیسے کر لیتا ہوں۔ گرمیوں میں تو عام طور پر صرف ایک عدد ہینڈ کیری کے ساتھ کام چلا لیتا ہوں۔ دو عدد پتلونیں‘ تین چار قمیضیں‘ دوائیوں کا پائوچ‘ دو عدد فالتو جرابوں کے جوڑے اور تھوڑا سا مزید سامان‘ جس میں ٹوتھ پیسٹ‘ برش‘ پرفیوم‘ نیل کٹر اور کنگھی وغیرہ جیسی چھوٹی چھوٹی چیزیں ہوتی ہیں۔ ہر چیز مارکیٹ میں ملنے والی چھوٹی سے چھوٹی پیکنگ والی لیتا ہوں۔ ہاں! البتہ سردیوں میں گرم کپڑوں کی وجہ سے جن میں جیکٹ‘ کوٹ‘ ٹوپی‘ مفلر اور دستانے وغیرہ شامل ہو جاتے ہیں‘ ہینڈ کیری سے معاملہ آگے چلا جاتا ہے تاہم اس صورت میں بھی یہ ایک درمیانے سائز کے بیگ سے آگے نہیں جاتا۔ اگر موسم ملتان میں واقعتاً سرد ہوتا تو میں اپنی موٹی جیکٹ گھر سے پہن کر چل پڑتا مگر 20 نومبر کو ملتان میں موسم کا یہ حال تھا کہ رات تو خیر خوشگوار حد تک خنک تھی مگر دوپہر ایسی تھی کہ موٹی قمیض بھی باعثِ آزار لگتی تھی۔
مجھے بخوبی علم تھا کہ لندن میں سردی ہوگی مگر یہ امید نہ تھی کہ وہاں اس قدر سردی ہو گی تاہم ایڈنبرا جانے کے خیال سے موٹی جیکٹ بہرحال سامان میں رکھ لی تھی۔ خیال تھا کہ یہ جیکٹ لندن میں تو نہیں‘ البتہ سکاٹ لینڈ کی سردی میں کام دے گی۔ میرے سارے اندازے غلط ثابت ہوئے۔ لندن میں کڑاکے دار سردی پڑ رہی تھی جبکہ ایڈنبرا گیا تو وہاں سردی توقع سے کہیں کم تھی۔ موسم کا صدیوں سے طے شدہ پیٹرن ہماری ماحولیاتی بداعمالیوں کی وجہ سے بدل رہا ہے۔ ملتان میں ایک زمانے میں ایسی زور دار سردی پڑتی تھی کہ نانی یاد آ جاتی تھی۔ ایسے معاملے میں نانی یاد آنے کا محاورہ اللہ جانے کس نے بنایا اور اس کی کیا وجہ تسمیہ ہے‘ مجھے علم نہیں۔ ہاں! اگر کسی کو اس کے پس منظر کا علم ہو تو وہ اس طالبعلم کی رہنمائی کر سکتا ہے۔
بات ملتان کی سردی کی ہو رہی تھی۔ ملتان میں سردی کا پہلا احساس جو میری یادداشت میں محفوظ ہے وہ یوں ہے کہ میں علی الصبح ابا جی مرحوم کے ساتھ سیر کیلئے حاجی بٹے کے باغ میں جایا کرتاتھا۔ تب میری عمر بمشکل سات‘ آٹھ برس ہو گی۔ جب فجر کی نماز کے تھوڑی دیر بعد ابا جی صبح کی سیر کیلئے نکلتے تو میں بھی ابا جی کی انگلی پکڑ کر ان کے ساتھ چل پڑتا تھا۔ کیا زمانہ تھا! ہمارا آبائی گھر شہر کے وسط میں نہ سہی‘ مگر بہرحال فصیل والے قدیم شہر کے بعد فوراً شروع ہو جانے والی آبادی میں تھا۔ ہمارے گھر سے محض ایک ڈیڑھ کلو میٹر کے فاصلے پر ایک طرف پانچ چھ ہزار سال سے مسلسل آباد شہر کی فصیل‘ جسے النگ کہتے ہیں‘ موجود تھی اور دوسری طرف آدھ کلو میٹر سے بھی کم فاصلے پر ملتان سٹی ریلوے سٹیشن تھا۔ لیکن اس عالم میں بھی حالت یہ تھی کہ گھر کے دونوں طرف محض سو ڈیڑھ سو گز کے فاصلے پر کھیت اور باغ تھے۔ جنوبی سمت میں محض ایک گلی گزرتے ہی ماسی حجانی کے کھیت تھے جن کے ایک کنارے پر کونے میں ویران سی جگہ پر چند قدیم قبریں تھیں اور وہ جگہ ''شہیداں‘‘ کے نام سے پہچانی جاتی تھی۔ وہاں گوندنی اور جال کے درخت تھے۔ دن کو بھی ایسی ویرانی ہوتی کہ ہم جیسے چند بچے‘ جن کا خوف دن رات ادھر جانے کی وجہ سے ختم ہو چکا تھا‘ کے علاوہ شاذو نادر ہی کوئی اس طرف جاتا تھا۔ ماسی حجانی کے کھیتوں کے ایک طرف ریلوے کی دیوار تھی جس کے پار پٹرول اور ڈیزل کی اونچی اونچی آہنی ٹینکیاں تھیں۔ ایک طرف ٹیلے پر ماسی حجانی کا وسیع صحن پر مشتمل کچا مٹی کا گھر تھا۔ ساتھ کنواں اور رہٹ تھا جس پر ایک بیل آنکھوں پر کھوپے چڑھائے گول دائرے میں چکر لگاتا رہتا تھا۔ ہم دوپہر کو اس بیل کے پیچھے لگے ہوئے پھٹے پر بیٹھ کر گھنٹوں جھولے لیتے۔ تب نہ دوپہر کو ملتان کی گرمی پریشان کرتی تھی اور نہ ہی اس معمولی سی سیر سے ہمارا دل بھرتا تھا۔ کیا دن تھے۔
گھر کی دوسری طرف حاجی بٹے کا باغ تھا۔ ہم حاجی اور حجانی کے کھیتوں کے درمیان ایسی شہری زندگی گزار رہے تھے جس میں دیہات کی زندگی نہ سہی‘ مگر اس کا بھرپور عکس ضرور دکھائی دیتا تھا۔ حاجی بٹے کے کھیتوں میں جگہ جگہ درخت بھی تھے۔ آم‘ لسوڑے اور انار کے درخت تو گنتی کے تھے مگر امرودوں کے درخت کافی سارے تھے۔ صبح ابا جی کے ساتھ سیر پر جاتا تو بعض اوقات حاجی بٹا اور اس کا بیٹا ملک عبدالکریم خود باغ میں چہل قدمی کرتے ہوئے مل جاتے۔ مجھے ابا جی کے ساتھ دیکھ کر چچا عبدالکریم دو چار موٹے تازے امرود لے آتا اور مجھے دیتا۔ دسمبر میں ایسی شدید سردی پڑتی کہ جرسی کے اوپر لپیٹی ہوئی گرم شال بھی اس کو روکنے میں ناکام ہو جاتی۔
ایک دن میں نے ابا جی کی انگلی چھوڑ کر ہاتھ بغلوں میں دبا لیے۔ ابا جی نے مجھ سے تو کچھ نہ پوچھا مگر اسی دن کالج سے واپسی پر ملت کلاتھ ہائوس میں درانی چچا کے پاس گئے‘ میرے لیے موٹی ٹویڈ کا گرم کپڑا خریدا اور حسین بخش درزی کو میرے لیے اوور کوٹ سینے کیلئے دے دیا۔ جس دن میں نے ابا جی کی انگلی چھوڑ کر اپنے ہاتھ بغلوں میں دبائے تھے اس روز حاجی بٹے کے کھیتوں پر کہرے نے سفید چادر بچھا رکھی تھی۔
آٹھویں کلاس میں چڑھتے ہی میں نے سائیکل کی ضد شروع کر دی۔ میں تب گھر سے تقریباً چھ ساڑھے چھ کلو میٹر دور گورنمنٹ ہائی سکول گلگشت کالونی آنے‘ جانے کیلئے ابا جی کے ساتھ ان کے سکوٹر پر آتا جاتا تھا۔ ایک پتلی سی سڑک کے ایک طرف میرا سکول تھا اور دوسری طرف ایمرسن کالج‘ جہاں ابا جی لائبریرین تھے۔ نیا سائیکل نہ تو ہمارا مطالبہ تھا اور نہ ہی ملنا تھا‘ تاہم ابا جی کا ستائیس اٹھائیس سال پرانا ریلے سائیکل‘ جسے بھائی طارق محمود مرحوم نے نیا سہراب سائیکل ملنے کے بعد فارغ کر دیا تھا‘ مجھے مل گیا۔ سردیاں ایسے گزریں کہ صبح سکول جاتے ہوئے ہاتھ سردی سے سُن ہو جاتے۔ سائیکل چلاتے ہوئے ہر پانچ چھ منٹ کے بعد ایک ہاتھ ہینڈل سے ہٹا کر مٹھی بنا کر پیچھے کمر کی طرف جرسی کے اندر گھسا لیتا اور پھر پانچ چھ منٹ بعد اس گرم ہاتھ کو باہر نکال لیتا اور دوسرا ہاتھ اسی طرح پیچھے کمر کی طرف جرسی میں گھسا کر نارمل کرنے کی کوشش کی جاتی۔ سکول پہنچتا تو ساری جرسی آگے سے کہرے کی وجہ سے سفید ہو چکی ہوتی۔ سکول کے گیٹ کے ساتھ والی کیاریاں سفید چادر میں ڈھکی دکھائی دیتیں۔ سکول کا بڑا گرائونڈ تب گھاس اور سبزے سے محروم تھا۔ گرائونڈ کے کناروں پر لگے درختوں پر بے شمار طوطے ہوتے تھے۔ پہاڑی کوے جنہیں ہم ''ڈھوڈرکاں‘‘ کہتے تھے عجیب بے سُرے انداز میں کاں کاں کرتے تھے۔ ایمرسن کالج کی لائبریری کے سامنے والے ویران گرائونڈ کے وسط میں ایک قدیم بڑ کا درخت تھا جو آہستہ آہستہ سوکھ رہا تھا۔ اس کی اوپر والی کھوہ میں چھوٹے الوئوں کا بسیرا تھا۔ ان میں سے ایک الو کبھی کبھار باہر شاخ پر بیٹھ کر اونگھتا جبکہ دوسرا کھوہ سے سر باہر نکالے جہانِ حیرت کو تکتا رہتا۔ اب وہاں نہ وہ پرانا بڑ کا درخت ہے اور نہ ہی پہاڑی کوے باقی رہے ہیں۔ دونوں اجڑے ہوئے گرائونڈ سر سبز ہو چکے ہیں اور درخت بھی پہلے سے کہیں زیادہ ہیں لیکن طوطوں کی ٹیں ٹیں مفقود ہو چکی ہے۔ ایک عرصہ ہوا نہ طوطے کی آواز ہی سنائی دی ہے اور نہ سبزے پر کہرے کی بچھی چادر دکھائی دی ہے۔
لندن میں رات گئے جب ہائیڈ پارک کے ساتھ والی سڑک سے واپس آ رہا تھا تو فٹ پاتھ درخت سے گرے ہوئے پتوں سے بھرا پڑا تھا۔ اگلی صبح جب سڑک پر سیر کرنے کیلئے آیا تو پتے صاف ہو چکے مگر لوہے کے جنگلے کے پار پارک کا سر سبز میدان کہرے سے سفید دکھائی دے رہا تھا۔ لندن سے گلگشت ہائی سکول پہنچنے میں ایک لمحہ بھی نہ لگا اور یاد کا پنچھی پلک جھپکتے پچاس‘ پچپن برس پیچھے گورنمنٹ ہائی سکول گلگشت کالونی کی کہرے سے بھری ہوئی کیاریوں میں لے گیا۔ کہاں کی بات کہاں پہنچ گئی‘ بھلا ایسی یادیں ماہ و سال یا زمان و مکان کی قید میں رکھی بھی کیسے جا سکتی ہیں؟