"KMK" (space) message & send to 7575

مافیا اور جتھوں کے نرغے میں پھنسی ہوئی ریاست … (2)

ساڑھے تیرہ سو سے چودہ سو الفاظ پر مشتمل کالم میں قصہ یوسف زلیخا تو بہرحال ناممکن ہے۔ احمد فراز کا شعر ہے؛
اپنا یہ حال کہ جی ہار چکے لٹ بھی چکے
اور محبت وہی انداز پرانے مانگے
کالم نگار کے سامنے بھی لکھنے کے لیے پورا ایک دفتر ہوتا ہے مگر اس کی مشکل یہ ہوتی کہ وہ اتنے محدود الفاظ کی قید میں رہتے ہوئے اپنا مافی الضمیر سپردِ قرطاس کر دے۔ ایسے میں اسے سپردِ قلم کیے جانے والے الفاظ سے زیادہ تردد اُن الفاظ پر کرنا پڑتا ہے جو اس نے قلم زد کرنے ہوتے ہیں۔ پہلے سے محتاط انداز میں لکھے گئے گنے چنے الفاظ میں سے مزید قطع برید کرنا ایک الگ مسئلہ ہے اور چلتے ہوئے قلم کو روکنا ایک علیحدہ مشکل ہے۔ ایسے میں ہر طرح کے قاری کی خواہش کے مطابق لکھنا‘ عشروں پرانے اسی قسم کے واقعات قلمبند کرنا‘ تمام پارٹیوں کے ماضی کا موازنہ کرنا‘ حالیہ الیکشن پر لکھتے ہوئے یکایک 2013ء کے الیکشن کو درمیان میں گھسیٹ لانا۔ 1977ء کی تحریک کا حوالہ دیتے ہوئے تحریکِ بحالی جمہوریت کا لازمی تذکرہ کرنا‘ موجودہ حکومت کی غلط کاریوں کو سپردِ قلم کرتے ہوئے ماضی کی تمام نہ بھی سہی تو قاری کی ناپسندیدہ حکومت یا لیڈر پر تبّرا کرنا‘ کسی بھی واقعے کا تذکرہ کرتے ہوئے اسی قسم کے ماضی کے واقعات کو کالم کا حصہ بنانا کسی طور ممکن نہیں۔ ہر کالم میں تقابلی جائزے لینا مشکل نہیں‘ ناممکن ہے۔
ایک طرف قاری توقعات کے سربہ فلک کوہ ہمالیہ پر کھڑا ہے اور اس کی خواہشات کا بحرِ بے کراں ٹھاٹھیں مار رہا ہے‘ دوسری طرف کالم نگار کی مجبوریوں کا سفینہ ہچکولے کھاتا پھر رہا ہے۔ کالم کی محدود جگہ‘ گنتی کے الفاظ کی مجبوری‘ ایڈیٹر کے اختیارات اور اخبارات پر حکومتی کنٹرول۔ بھلا بندہ کہاں جائے؟ اخبارات پر حکومتی کنٹرول ایک حقیقت ہے اور ساری دنیا میں اخبارات اس کے شکار ہیں۔ ہاں! یہ بات الگ کہ یہ پابندیاں کس حد تک ہیں اور کتنی ہیں۔ بادشاہت (آئینی بادشاہت سے ہٹ کر)‘ فوجی حکومت‘ ڈکٹیٹر شپ اور ایک پارٹی سسٹم میں یہ مجبوریاں اور پابندیاں اپنے عروج پر ہوتی ہیں اور حقیقی جمہوریت کے علمبردار ملکوں میں یہ پابندیاں قومی سلامتی کے بیانیے کے مطابق نہ صرف لاگو ہوتی ہیں بلکہ ان پر نہایت خاموشی سے لیکن سختی سے عمل کرایا جاتا ہے۔ اوپر سے سوشل میڈیا نے قاری کو جس قسم کی خبریت کا عادی بنا دیا ہے روایتی اخبارات اب اس پر پورا ہی نہیں اتر سکتے۔ یہ ساری کہانی اس لیے لکھی ہے کہ قارئین کالم پڑھتے ہوئے اپنی خواہشات کے بگٹٹ بھاگتے ہوئے گھوڑے کی لگامیں کھینچ کر حقائق کا جائزہ لیں اور کالم نویس سے اس قدر توقعات وابستہ کریں جتنی اس کی اوقات ہے۔ یہ طویل تحریر مستقبل میں ان کیلئے بڑی سودمند ثابت ہو گی۔
میرے پرانے کالم اس بات کے گواہ ہیں کہ میں 20‘ 30یا 50ہزار افراد کے دھرنوں کے نتیجے میں حکومتوں کی تبدیلی کی مہم جوئی کے خلاف ہوں اور اس کی بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ یہ طریقہ کار بذاتِ خود جمہوریت کی نفی ہے اور دوسری بات یہ کہ اگر اسے جائز تصور کر لیا جائے تو اتنے بندے کوئی بھی سیاسی پارٹی‘ پریشرگروپ یا مذہبی گروہ اکٹھے کر سکتا ہے۔ کل کلاں ٹی ٹی پی اگر اتنے لوگ اکٹھے کرکے ملک کے دارالحکومت کا گھیراؤ کر لے تو کیا ان کے دباؤ کے سامنے سرنڈر کر دیا جائے گا؟ یہ رویہ اور طریقہ کار کسی بھی ریاست کے اقتدارِ اعلیٰ کو صفر کرکے رکھ دے گا۔
مافیا اور جتھے تب تک طاقتور اور مضبوط نہیں ہو سکتے جب تک ریاست طاقتور اور مضبوط ہوتی ہے۔ کہتے ہیں کہ کوئی جگہ کبھی خالی نہیں رہتی۔ ہر خالی ہونے والی جگہ کو کوئی نہ کوئی پُر کر دیتا ہے۔ یہی حال طاقت کا ہے۔ جب ریاستیں اپنی طاقت اور مضبوطی کھونا شروع کر دیتی ہیں تو گروہ‘ جتھے اور مافیا اس خالی جگہ کو پُر کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہی ہوا ہے۔
اس حوالے سے ہر بندہ مختلف تھیوری پیش کر سکتا ہے۔ ظاہر ہے اب تک اس بات کا فیصلہ نہیں ہو سکا کہ پہلے انڈہ پیدا ہوا یا مرغی معرضِ وجود میں آئی‘ ایسے ہی اس بات کا فیصلہ بھی ممکن نہیں کہ پہلے جتھے طاقتور ہوئے یا ریاست کمزور ہوئی۔ تاہم ایک بات طے ہے کہ ریاست کی کمزوری اس کی بے عملی اور ناانصافیوں سے شروع ہوتی ہے۔ جتھوں کی ابتدا حکومت سے لوگوں کی بڑھتی ہوئی مایوسی‘ بے اعتمادی اور ناکامی سے شروع ہوتی ہے جب کوئی شخص یا گروہ عدم انصاف‘ عدم تحفظ‘ معاشی ابتری یا کسی اور عوامی مسئلے میں حکومتی ناکامی‘ نااہلی یا عدم توجہ کو بنیاد بنا کر عوام کو متوجہ اور متاثر کرتا ہے تو لوگ حکومت پر عدم اعتماد کرتے ہوئے پہلے پہل اس فرد یا گروہ پر اعتبار کرتے ہیں اور آہستہ آہستہ یہ گروہ اپنی عوامی حمایت اور حکومت کی کمزوری اور عدم توجہ کی بنیاد پر طاقت پکڑ لیتا ہے۔ طاقت کا بدترین پہلو یہ ہے کہ یہ بالآخر اپنا اظہار کرنے پر آ جاتی ہے۔ جب یہ گروہ یا جتھہ اپنی طاقت کے اظہار پر آتا ہے تب ذمہ داروں کی آنکھیں کھلتی ہیں مگر تب بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔
سوات میں صوفی محمد کا آہستہ آہستہ طاقت پکڑنا‘ ابتدا میں تو اس نظام کے خلاف ایک ردِعمل کے طور پر تھا جس میں لوگ عدم انصاف اور عدم تحفظ کے شاکی تھے مگر پھر اس میں صوفی محمد کا داماد فضل اللہ بھی شامل ہو گیا۔ اس نے ایک مقامی ایف ایم ریڈیو سے اپنے نظریات کا پرچار شروع کردیا۔ پھر جب طاقت نے اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیا تو صوفی محمد اینڈ کمپنی نے اپنی خود ساختہ شریعت نافذ کرنا شروع کردی۔ ریاستی عدالتیں بے معنی ہو گئیں۔ فضل اللہ وغیرہ نے اپنی عدالتیں لگا کر اپنی مرضی کی سزائیں دینا شروع کر دیں۔ حکومتی بے عملی اور عدم انصاف کے شکار لوگوں کو فوری 'انصاف‘ اور اس پر عملدرآمد کی ایک نئی شکل دکھائی دی۔ ابتدا میں لوگوں نے اس سارے نظام کو ایک انقلاب کی صورت سمجھا۔مقامی سرکاری افسران نے بھی ابتدا میں اس صورتحال پر شاید سکون کا سانس لیا کہ ان کے کندھوں پر جو ''بھاری ذمہ داریاں‘‘ تھیں‘ وہ رضاکاروں نے سنبھال کر ان کیلئے آسانی پیدا کردی ہے مگر آنکھیں تب کھلیں جب پانی سر سے گزر گیا۔ مُلا فضل اللہ وغیرہ نے وادیٔ سوات کا سارا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ کمشنر‘ ڈپٹی کمشنر اور دیگر سرکاری افسروں کے دفتروں پر قبضہ کر لیا۔ پہلے انہیں گھروں تک محدود کیا اور پھر علاقہ بدر کر دیا گیا۔ اس دوران لوگوں پر ان کے انصاف کا جو چہرہ سامنے آیا‘ وہ اتنا مکروہ‘ بھیانک اور ظالمانہ تھا کہ انہیں خوش آمدید کہنے والے بھی عاجز آ گئے۔ چوک میں پھانسیاں اور سرعام سزائیں جو شروع شروع میں بڑی اچھی لگتی تھیں‘ عذاب بن کر مسلط ہو گئیں۔ سرکار کے کانوں میں پہلے تو جوں تک نہیں رینگ رہی تھی لیکن پھر اچانک ہوش آ گیا اور ساری وادی سے لوگوں کا انخلا کیا گیا۔ ملک میں پہلی بار آئی ڈی پیز کی اصطلاح سننے میں آئی۔ ایک ناقابلِ تصور اور ناقابلِ مثال قسم کی ہجرت ہوئی۔ لوگوں کو ایسی ایسی تکلیف کا سامنا کرنا پڑا کہ اس کو بیان کرنا ممکن نہیں۔ حکومتی رِٹ کو ایسا نقصان پہنچا کہ اس کی تلافی ممکن نہیں۔ جتھوں اور گروہوں کی ایسی روایت قائم ہوئی کہ سارا کے پی اس کی زد میں آ گیا۔ اب بھی حالات ایسے ہیں کہ بیان کریں تو لوگوں کی آنکھیں پھٹ جائیں۔
پچھلے دنوں ہمارے ایک دوست کسی کام کے سلسلے میں پشاور گئے۔ ان کے سفارشی نے ایک بہت بڑے انتظامی افسر کو فون کرکے ان کی مدد اور معاونت کا کہا۔ اس دوست کی وہاں بڑی آؤ بھگت ہوئی اور ممکنہ مدد بھی کی گئی۔ اس نے حیات آباد سے کہیں آگے کسی کام جانا تھا مگر اس انتظامی افسر نے کہا کہ آپ میرے مہمان ہیں اور میرے مہربان کے دوست ہیں‘ آپ کی حفاظت میری ذمہ داری ہے تاہم میں پشاور شہر سے باہر آپ کی کسی قسم کی مدد اور حفاظت کی ضمانت نہیں دے سکتا۔ براہِ کرم مجھ پر مہربانی کریں اور رات ادھر گزار کر صبح اسلام آباد روانہ ہو جائیں۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں