حکومت ابھی تحریک انصاف کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش کا جائزہ ہی لے رہی تھی کہ پی ٹی آئی کے سینئر رہنما اور سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر‘ جو پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم کا بھی حصہ ہیں‘ نے جمعہ‘ 13 دسمبر کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں ا علان کر دیا کہ کوئی مذاکرات نہیں ہو رہے‘ مذاکرات اسی وقت ہوں گے جب حکومت ہمارے تین اہم مطالبات تسلیم کرے گی جن میں بانی پی ٹی آئی اور پارٹی کے دیگر اسیر ارکان کی رہائی‘ نو مئی اور 26 نومبر کے واقعات کی تفتیش کے لیے عدالتی کمیشن کا قیام شامل ہیں۔ ان کے بقول حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کی باتیں محض قیاس آرائیاں ہیں۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اسد قیصر کی سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کے ساتھ ملاقات کے بعد پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان بات چیت شروع ہو گئی‘ حالانکہ اسد قیصر سپیکر سے ان کی ہمشیرہ کی تعزیت کیلئے ملے تھے‘ مذاکرات کیلئے نہیں۔ اسد قیصر کے مطابق ابھی پی ٹی آئی نے صرف مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی ہے مگر ان کے بیان سے دو روز قبل (11دسمبر) کو پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے قومی اسمبلی میں اعلان کیا کہ وہ حکومت کے ساتھ بات چیت کیلئے تیار ہیں بشرطیکہ حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ کرے اور کوئی ایسا حل پیش کرے جو قابلِ عمل ہو۔ انہوں نے کہا کہ ''حکومت نو مئی کے جھگڑے کو دفن کرے ہم آگے بڑھنے کیلئے تیار ہیں‘‘۔ اپنے اس بیان میں انہوں نے بات چیت شروع کرنے کیلئے کسی پیشگی شرط کا ذکر نہیں کیا تھا بلکہ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی طرف سے مذاکرات کیلئے شرائط نہیں بلکہ مطالبات پیش کیے جا رہے ہیں۔
26 نومبر کے واقعے کے بعد قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں میں پی ٹی آئی کے ارکان کا رویہ ماضی کے برعکس نرم اور مصالحانہ تھا۔ اس سے اس تاثر کو تقویت ملی کہ پی ٹی آئی نے سڑکوں پر احتجاجی جلوس اور لانگ مارچ کے ذریعے حکومت پر دباؤ ڈالنے کی حکمت عملی ترک کرکے اسمبلیوں میں اپنے مؤقف کو واضح کرنے اور حکومت کے ساتھ بات چیت کا فیصلہ کر لیا ہے۔قائد حزبِ اختلاف عمر ایوب خان نے قومی اسمبلی میں اگرچہ وزیراعظم شہباز شریف کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں 26 نومبر کو پی ٹی آئی کے 12 کارکنوں کی موت کا ذمہ دار قرار دیا مگر ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا کہ پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی ہر کسی کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے لیکن 12 دسمبر کو بانی پی ٹی آئی نے اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پارٹی قیادت کے ''سب اچھا ہے‘‘ کے رویے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور ساتھ ہی سول نافرمانی کے اعلان کو دہراتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت نے ان کے مطالبات کو تسلیم کرنے سے انکار کی پالیسی جاری رکھی تو پارٹی 15 دسمبر کے بعد سول نافرمانی کی تحریک کا آغاز کر دے گی‘ بعد مذاکراتی ٹیم کو مزید ایک ہفتہ دینے کا اعلان کر دیا گیا۔ اسی دوران عمر ایوب نے اعلان کیا کہ بانی پی ٹی آئی نے حکومت سے مذاکرات کیلئے تشکیل کردہ پانچ رکنی کمیٹی میں مجلس وحدت مسلمین کے رہنما علامہ راجہ ناصر عباس اور سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا کو بھی شامل کر دیا ہے۔ اس سے یہ مطلب اخذ کیا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ بات چیت کیلئے دباؤ محسوس کر رہی ہے۔ یہ دباؤ پی ٹی آئی کے قومی اسمبلی اور سینیٹ ممبران کی طرف سے آ رہا ہے کیونکہ وہ آن گراؤنڈ سیاسی حقیقتوں سے آگاہ ہیں۔
گزشتہ تقریباً دس ماہ کے دوران جلسے‘ جلوسوں اور ریلیوں کے بعد شاید پی ٹی آئی قیادت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ احتجاجی سیاست سے موجودہ سیٹ اَپ کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے اراکین اور حامیوں کے علاوہ معاشرے کے دیگر طبقات خصوصاً مزدور‘ کسان‘ دکاندار‘ تاجر‘ صنعتکار اور پروفیشنل گروپس مثلاً اساتذہ‘ ڈاکٹر‘ صحافی اور وکیل بھی اس احتجاجی تحریک کا فعال حصہ بننے کیلئے تیار نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک بھر میں پی ٹی آئی کے حامی موجود ہیں اور وہ انتخابات کے موقع پر یقینا اس کے امیدواروں کے حق میں ووٹ دیں گے مگر وہ جلوسوں‘ ریلیوں اور لانگ مارچ میں شرکت کیلئے تیار نہیں۔ دوسری طرف حکومت کی انتظامی مشینری پر گرفت مضبوط ہے اور وہ پی ٹی آئی کے اجتماعات‘ ایجی ٹیشن یا احتجاجی جلوسوں اور ریلیوں کو ناکام بنانے کیلئے مؤثر اور بے دریغ طریقے سے استعمال کی جا رہی ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت مخالف سوشل میڈیا مہم اور امریکہ اور یورپ میں لابنگ کے باوجود شہباز شریف حکومت کو عالمی سطح پر نہ صرف آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں بلکہ چین‘ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات اور قطر جیسے دوست ممالک کی مالی معاونت حاصل ہے اور مقتدرہ اور حکومت بھی ایک پیج پر ہیں۔ اس لیے یہ حکومت محض پی ٹی آئی کے احتجاجی جلسوں سے ختم نہیں ہو سکتی۔
ماضی میں احتجاجی تحریک کے ذریعے حکومت کی رخصتی کی جو کامیاب مثالیں موجود ہیں اُن میں سے ایک ایوب خان کے خلاف تحریک(1968-69ء) اور دوسری ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کی 1977ء کی تحریک ہے۔ ان دونوں تحریکوں میں اپوزیشن کی تقریباً تمام جماعتوں پر مشتمل اتحاد کے علاوہ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی تھی۔ ان احتجاجی تحریکوں کی کامیابی میں مقتدرہ کی حکومت سے دوری نے فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا۔ مارچ 1969ء میں جنرل یحییٰ اور جولائی 1977ء میں جنرل ضیا الحق نے بظاہر حکومت اور اپوزیشن کے مابین محاذ آرائی کو ختم کرنے کیلئے آئینی حکومتوں کی جگہ اقتدار سنبھالا تھا۔ جنرل یحییٰ نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنتے ہی قومی اسمبلی کے انتخابات کرانے کا اعلان کر دیا اور جنرل ضیا الحق نے 90 دن میں نئے انتخابات‘ جو اپوزیشن کا سب سے بڑا مطالبہ تھا‘ کرانے اور اقتدار کامیاب جماعتوں کو منتقل کرنے کے وعدے کے ساتھ اقتدار سنبھالا تھا۔ موجودہ صورتحال میں مقتدرہ خود ایک فریق ہے۔ اس لیے 1969ء اور 1977ء کے برعکس اب مقتدرہ ایک ثالث کا کردار ادا نہیں کر سکتی کیونکہ بانی پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک کا رُخ مقتدرہ کی طرف ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اب تک حکومت کے ساتھ بات چیت کو بیکار اور وقت کا ضیاع گردانتے رہے ہیں۔ ان کے نزدیک نتیجہ خیز مذاکرات صرف مقتدرہ کے ساتھ ہو سکتے ہیں کیونکہ اصل طاقت اور اختیارات اسی کے پاس ہیں مگر مقتدرہ بانی پی ٹی آئی سے مذاکرات کی خواہاں نہیں کیونکہ مذاکرات سیاستدانوں کے مابین ہوتے ہیں؛ البتہ آئین کے تحت وہ ملک میں انتشار اور خلفشار کو روکنے کیلئے حکومتِ وقت کی مدد کی پابند ہے۔
پی ٹی آئی نے اپریل 2022ء میں اقتدار سے محروم ہونے کے بعد جتنی بھی جدوجہدکی اس کا مقصد شہباز شریف کی حکومت کو بائی پاس کرنا تھا مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ اس لیے بعض پارٹی رہنمااور اتحادی خان صاحب کو اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ ان میں پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی بھی شامل ہیں۔ بیرسٹر گوہر نے 14 دسمبر کو اپنے ایک بیان میں ''غیر مشروط اور جامع‘‘ مذاکرات کی حمایت کی اور محمود خان اچکزئی نے بھی خان صاحب سے سول نافرمانی کی کال واپس لینے کی اپیل کی اور مذاکرات پر مبنی ایک نئی حکمت عملی اپنانے کی تجویز دی۔ اطلاعات کے مطابق پی ٹی آئی کے بیشتر رہنماؤں اور کارکنوں کی رائے یہ ہے کہ اس وقت ملک میں سول نافرمانی تحریک کیلئے ماحول سازگار نہیں مگر دیکھنا یہ ہے کہ کیا بانی پی ٹی آئی سول نافرمانی کی تحریک کے اعلان سے پیچھے ہٹ جائیں گے؟ (جاری)