"DRA" (space) message & send to 7575

ٹرمپ اور دنیا…(1)

ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر اُسے چھینک آئے تو پوری دنیا کو زکام ہو جاتا ہے۔ یہ بات اس وقت کہی جاتی تھی جب 200کے قریب ممالک پر مشتمل دنیا میں اکیلے امریکہ کا جی ڈی پی دنیا کے 50فیصد کے برابر تھا۔ اسی طرح افریقی نژاد مشہور امریکی پولیٹکل سائنٹسٹ پروفیسر علی امین مزروئی کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ امریکی صدر اپنے ملک میں ایک مکھی مارنے کی سزا سے بھی نہیں بچ سکتا مگر دنیا میں جتنی مرضی حکومتوں کا تختہ الٹ دے اور جتنے مرضی افراد کو قتل کرا دے‘ اسے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معیشت میں نمبر ون ہونے کے علاوہ امریکہ اب بھی دنیا کی سب سے طاقتور عسکری قوت ہے۔ اس کی کرنسی عالمی سطح پر سب سے طاقتور ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں یعنی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک پر اس کا کنٹرول ہے اور دنیا کے ہر خطے میں متعدد ممالک اس کے حلیف ہیں۔ اگرچہ عالمی سطح پر اب امریکی غلبہ آہستہ آہستہ کمزور پڑ رہا ہے اور اسے معاشی میدان میں چیلنج کرنے والے نئے ممالک (مثلاً چین‘ جو دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن چکا ہے) میدان میں اتر چکے ہیں مگر اب بھی دنیا کا کوئی ملک معاشی وعسکری لحاظ سے امریکہ کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اسی لیے جب 5 نومبر کو انتخابات کے ذریعے امریکہ کے نئے صدر کا فیصلہ ہو رہا تھا تو نہ صرف امریکی عوام بلکہ دنیا بھر کی نظریں ان انتخابات کے نتیجے پر تھیں۔ اس کی بڑی وجہ صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کا بار بار دہرائے جانے والا یہ اعلان تھا کہ وہ موجودہ صدر بائیڈن کی پالیسیوں بشمول خارجہ پالیسی کو بدل کر اپنے سابقہ دورِ صدارت کی پالیسیوں کو سختی سے نافذ کریں گے۔ یاد رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سابقہ دورِ حکومت میں امریکہ میں غیر ملکی تارکین وطن کے داخلے کو روکنے کیلئے میکسیکو سے ملنے والی امریکی سرحد پر دیوار تعمیر کرنے اور چھ مسلم ممالک کے باشندوں پر امریکی ویزے کی پابندی کا حکم دیا تھا۔ ایران کے ساتھ براک اوباما دور کے ایٹمی معاہدے (2015ء) سے امریکہ کی علیحدگی کے علاوہ ایران پر سخت اقتصادی پابندیوں کا اعلان بھی کیا گیاتھا۔ مشرقِ وسطیٰ میں عرب ممالک خصوصاً سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات اور بحرین کے اسرائیل سے تعلقات کے قیام کیلئے کوشش کی گئی تھی اور اس سلسلے میں صدر ٹرمپ نے مئی 2017ء میں سعودی عرب کا دورہ بھی کیا تھا۔ اس دورے کے دوران صدر ٹرمپ نے سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے ملاقات کی تھی اور سعودی عرب کو 110 بلین ڈالر مالیت کے ہتھیار فروخت کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ ٹرمپ دور ہی میں اسرائیل کے عرب امارات اور بحرین کے ساتھ تعلقات قائم ہوئے اور ان تعلقات کا مقصد ایران کے بڑھتے اثر و رسوخ کے آگے بند باندھنا اور اسے خطے میں الگ تھلگ کر کے معاشی اور عسکری لحاظ سے کمزور کرنا تھا۔ ٹرمپ نے اپنے سابقہ دورِ صدارت میں نیٹو میں شامل یورپی ممالک کو دھمکی دی تھی کہ اگر انہوں نے اپنے دفاع کا بوجھ خود نہ سنبھالا اور نیٹو کے اخراجات میں معقول حصہ نہ ڈالا تو وہ روسی جارحیت کو روکنے میں ان کی مدد نہیں کریں گے۔ سابقہ دور میں ٹرمپ کی خارجہ پالیسیوں میں ایک اہم پالیسی چین کو تجارت میں سخت مسابقت سے دوچار کرنا تھا۔ ٹرمپ نے امریکہ میں چین کی متعدد درآمدی اشیا پر ڈیوٹی لگا دی تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ چین کی درآمدات پر ٹیکس لگانے سے امریکہ کو 250 بلین ڈالر کا فائدہ ہوا۔
ٹرمپ نے عنقریب سبکدوش ہونے والے صدر جوبائیڈن کی انتظامیہ پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے سابقہ پالیسیوں کو تبدیل کر کے امریکہ کے قومی مفادات کو نقصان پہنچایا۔ اس ضمن میں وہ فروری 2022ء میں یوکرین پر روس کے حملے سے شروع ہونے والی جنگ کی مثال دیتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اگر وہ امریکہ کے صدر ہوتے تو یوکرین اور غزہ میں جنگ چھڑتی ہی نہیں۔ اسی لیے انہوں نے انتخابی مہم کے دوران اعلان کیا کہ وہ الیکشن جیت کر غزہ اور یوکرین میں جنگ بند کرا دیں گے۔ لیکن ان کی پہلی مدت کی کارکردگی کی روشنی میں اکثر ماہرین کہتے ہیں کہ ٹرمپ دعوے بڑے بلند بانگ کرتے ہیں مگر جب ان پر عمل درآمد کا وقت آتا ہے تو ٹرمپ اکثر یوٹرن لے لیتے ہیں یا اس کے برعکس عمل کرتے ہیں۔ ٹرمپ کے با رے میں عام تاثر یہ ہے کہ و ہ ایسے شخص ہیں جن کے بارے یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا‘ یعنی ان کے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود غیر یقینی اور تجسس کے ملے جلے جذبات پائے جاتے ہیں۔ مثلاً یوکرین کی جنگ کے بارے میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ صدارتی عہدہ سنبھالنے کے بعد 24گھنٹوں کے اندر جنگ بند کرا دیں گے بلکہ ایک موقع پر انہوں نے بڑ ماری کہ ممکن ہے کہ صدارتی حلف اٹھانے (20جنوری)سے قبل ہی وہ یوکرین جنگ بند کرانے میں کامیاب ہو جائیں۔ البتہ اب تک انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ جنگ بند کیسے کرائیں گے کیونکہ لگ بھگ پونے تین سال سے جاری اس جنگ میں امریکہ اور اس کے یورپی اتحادی روس کے خلاف بہت آگے نکل چکے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق امریکہ اب تک یوکرین کو 64.1 ارب ڈالر کی امداد دے چکا ہے‘ جس میں فضائی دفاع میں استعمال ہونے والے پیٹر یاٹ میزائل کی فراہمی بھی شامل ہے۔ یورپی ممالک کی طرف سے بھی یوکرین کی فوجی امداد جاری ہے۔ ایک طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ ٹرمپ عہدہ سنبھالنے کے بعد یوکرین کی امداد بند کر دیں مگر یہ اقدام تباہ کن ثابت ہوگا کیونکہ افغانستان سے رسوا کن انخلا کے بعد یوکرین کی امداد سے ہاتھ کھینچنے کے بعد دنیا کا امریکہ پر رہا سہا اعتبار بھی ختم ہو جائے گا۔ بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ یوکرین سے یکطرفہ واپسی کے بعد مشرقِ وسطیٰ سے امریکہ کے قدم اکھڑنے کا عمل شروع ہو جائے گا کیونکہ غزہ میں اسرائیل کی جاری بربریت امریکہ کی عرب دنیا کے خلاف ایک نہ ختم ہونے والی جنگ میں تبدیل ہوتی نظر آ رہی ہے۔ بائیڈن انتظامیہ نے اس جنگ کے زیادہ تباہ کن اور طویل ہونے میں مدد فراہم کی۔
جب سے غزہ جنگ شروع ہوئی ہے امریکہ ا قوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں سیز فائرکی تین قراردادوں کوویٹو کر چکا ہے۔ اسرائیل کواب تک 17.9 ارب ڈالر کی امریکی امداد مل چکی ہے جو امریکہ سے ہر سال ملنے والی 3.5ارب ڈالر کی امداد کے علاوہ ہے۔ اسرائیل کی پشت پناہی میں بحیرۂ روم میں امریکہ کے چھٹے جنگی بیڑے کے علاوہ بحر ہند میں اس کے ساتویں اور پانچویں بحری بیڑے اور جنوبی اوقیانوس میں موجود دوسرے بحری بیڑے کے جہاز اور طیارہ بردار جہاز ہمہ وقت تیار پوزیشن میں ہیں۔ ٹرمپ نے صدر بائیڈن کی طرف سے اسرائیل کی حمایت اور امداد پر کسی قسم کے تحفظات کا اظہار نہیں کیا بلکہ جنگ بندی کی مخالفت کی اور اسرائیلی وزیراعظم کو اپنے جنگی مقاصد‘ جن میں حماس کا مکمل خاتمہ بھی شامل ہے‘ حاصل کرنے پر زور دیا تاکہ جنگ بندی کا جواز مل جائے۔ البتہ ٹرمپ کو ستمبر 2020ء میں اسرائیل اور عرب ممالک کے تعلقات کو معمول پر لانے کیلئے ''ابراہیم معاہدات‘‘ پر بڑا ناز ہے اور وہ انہیں بحال کرنے اور فعال بنانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ لیکن انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اب یہ معاہدات مشرقِ وسطیٰ میں اپنی افادیت کھو چکے ہیں کیونکہ یہ تاثر عام ہے کہ سات اکتوبر کے حماس حملے کی اصل وجہ 'ابراہم اکارڈ‘ ہی تھا کیونکہ حماس کو خدشہ تھا کہ امریکی دباؤ کے تحت عرب ممالک بشمول سعودی عرب دو ریاستی فارمولے پر عمل درآمد کے بغیر اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے اور معمول کے تعلقات قائم کرنے پر راضی ہو چکے ہیں‘ تاہم اب غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے بعد سعودی عرب اعلان کر چکا ہے کہ دو ریاستی فارمولے پر عمل درآمد کے بغیر سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم نہیں کرے گا۔ سعودی عرب کا یہ اعلان ابراہم اکارڈ کی موت کے مترادف ہے۔(جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں