"DRA" (space) message & send to 7575

دہشت گردی: مربوط حکمت عملی ضروری

حکومت نے گزشتہ ہفتے انسدادِ دہشت گردی ایکٹ میں ترمیم کا بل قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا۔ مجوزہ ترمیم کے تحت افواجِ پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ملکی سلامتی‘ دفاع اور امن عامہ سے متعلق جرائم میں ملوث کسی بھی شخص کو تین ماہ تک حراست میں رکھنے کا اختیار حاصل ہو گا۔ دسمبر 2014ء میں پشاور کے آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس قسم کے اختیارات دیے گئے تھے لیکن دو سال بعد یہ اختیارات واپس لے لیے گئے۔ اب دس سال بعد پھر سے یہ اختیارات دینے کے لیے انسدادِ دہشت گردی ایکٹ میں ترمیم کی گئی ہے۔ حکومت نے اس اقدام کی وجہ حالیہ کچھ عرصہ کے دوران ملک کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ بتائی ہے۔ ویسے تو پورا ملک ہی دہشت گردی کے عفریت سے متاثر ہے لیکن خیبر پختونخوا اور بلوچستان بالخصوص دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں۔ ان دونوں صوبوں کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں اور جب سے کابل میں افغان طالبان کی حکومت آئی ہے‘ تب سے پاکستان کے افغانستان سے ملحق علاقوں میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ حکومت کے مطابق ان کارروائیوں میں کالعدم ٹی ٹی پی ملوث ہے جس کے جنگجو 2014ء میں قبائلی علاقوں میں ملٹری آپریشنز کے بعد افغانستان بھاگ گئے تھے۔ افغانستان میں ٹی ٹی پی کے یہ دہشت گرد افغان طالبان کی صفوں میں شامل ہو کر امریکہ اور نیٹو فورسز کے خلاف بھی لڑتے رہے۔ ٹی ٹی پی کی قیادت اب بھی افغانستان میں مقیم ہے اور افغان طالبان کی سہولت کاری سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں مصروف ہے۔
بدقسمتی سے گزشتہ چند ماہ کے دوران نہ صرف ملک میں دہشت گردی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے بلکہ دہشت گردوں نے اب افواجِ پاکستان اور پولیس جیسے سکیورٹی اداروں کو اپنی کارروائیوں کا ہدف بنا لیا ہے۔ خیبر پختونخوا میں دہشت گردوں کی کارروائیاں اب محض ٹارگٹ کلنگ‘ سڑک کنارے نصب دیسی ساختہ بموں کو ریموٹ کنٹرول سے اُڑا کر فوجی گاڑیوں کو نشانہ بنانے یا خود کش حملوں تک محدود نہیں رہیں بلکہ اب پولیس تھانوں اور فوجی چیک پوسٹوں پر بڑے منظم انداز میں حملے ہو رہے ہیں۔ افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کے چھوڑے ہوئے اسلحہ سے لیس اور کئی سال تک افغان طالبان کے شانہ بشانہ افغانستان میں غیرملکی افواج کے خلاف لڑائی کا تجربہ حاصل کرنے کے بعد دہشت گردوں کے حملے پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ جانی نقصان کا باعث بن رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں ان دہشت گرد گروپوں کی کارروائیوں سے صورتحال اتنی ابتر ہو چکی ہے کہ اب صوبے کے عوام حکام سے ان دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائیوں کا مطالبہ کر رہے ہیں کیونکہ ان کارروائیوں سے ان کے کاروبار اور روزمرہ زندگی متاثر ہو رہی ہے۔ گوکہ افواجِ پاکستان ان شدت پسندوں سے تندہی سے لڑ رہی ہیں لیکن پولیس کو بھی اس حوالے سے متحرک کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے‘ اور یہ تبھی ممکن ہو گا جب پولیس کو تمام ضروری سہولتیں فراہم کی جائیں گی اور اسے جدید اسلحے سے لیس کیا جائے گا۔ خیبرپختونخوا پولیس خود بھی ان دہشت گردوں کے خلاف لڑنے کیلئے ضروری وسائل کی فراہمی کا مطالبہ کر چکی ہے۔ شنید ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی وادیٔ تیرہ میں خود کو مستحکم کر رہی ہے‘ یقینا متعلقہ حکام اس صورتحال سے بخوبی آگاہ ہوں گے۔
اطلاعات ہیں کہ خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع خصوصاً بنوں‘ لکی مروت اور ڈی آئی خان میں اندھیرا چھا جانے کے بعد پولیس تھانوں سے باہر نہیں نکلتی۔ ڈی آئی خان اور ٹانک کے ڈپٹی کمشنرز اپنے ماتحتوں کو ڈی آئی خان سے بنوں اور ڈی آئی خان سے ژوب براستہ سڑک سفر سے احتیاط برتنے کی ہدایت کر چکے ہیں کیونکہ ان سڑکوں پر دہشتگرد گروہوں کی کارروائیوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ لاقانونیت‘ ڈر اور خوف کی یہ صورتحال صرف خیبرپختونخوا کے مخصوص اضلاع تک ہی محدود نہیں بلکہ بلوچستان کے بعض علاقے بھی اسی صورتحال سے دوچار ہیں۔ اس لیے پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ اور چھ جماعتی اتحاد برائے تحفظِ آئین کے چیئرمین محمود خان اچکزئی کو گزشتہ ماہ یہ اعلان کرنا پڑا کہ ان کی پارٹی جلد ہی بلوچستان کے مختلف مقامات پر ''جرگوں‘‘ کے انعقاد کا سلسلہ شروع کرے گی تاکہ صوبے کی شاہراہوں پر لاقانونیت اور جرائم کے واقعات کی طرف حکومت کی توجہ مبذول کرائی جا سکے۔ اس صورتحال کے تناظر میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ پانی سر سے گزرنے والا نہیں بلکہ گزر چکا ہے۔ اسی لیے حکومت نے ضروری سمجھا کہ افواجِ پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مزید اختیارات دے کر ان کے ہاتھ مضبوط کیے جائیں تاکہ دہشت گردوں کی مجرمانہ سرگرمیوں پر قابو پایا جا سکے‘ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ اختیارات تفویض کرنے سے دہشت گردانہ کارروائیوں کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے؟ یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں سے اسی حکمت عملی پر عملدرآمد ہو رہا ہے مگر یہ کوششیں نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکیں۔ عسکری آپریشنز سے ملک میں وقتی طور پر تو امن بحال ہو جاتا ہے اور دہشت گرد عناصر پسپائی اختیار کر لیتے ہیں لیکن کچھ عرصہ بعد وہ دوبارہ ملکی سلامتی کیلئے خطرہ بن جاتے ہیں۔ اب تو دہشتگرد پہلے سے زیادہ منظم‘ زیادہ تربیت یافتہ اور جدید اسلحے سے لیس نظر آتے ہیں‘ گو کہ ہمارے ادارے جوانمردی سے ان کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
کچھ حلقوں کی رائے ہے کہ 2004ء سے اب تک دہشت گردوں کے خلاف جو حکمت عملی اپنائی گئی‘ اس میں کچھ بنیادی خامیاں موجود ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما مولانا فضل الرحمن کے ایک حالیہ بیان کے مطابق دہشت گردی کے خلاف ہماری حکمت عملی میں کوئی ربط نہیں اور نہ ہی اس میں تسلسل پایا جاتا ہے۔ عوام میں سکیورٹی فورسز کی کمٹمنٹ یا بہادری کے حوالے سے کوئی شبہ نہیں مگر یہ سوال ضرور موجود ہے کہ اتنے عرصے سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے اور قربانیاں دینے کے باوجود نہ صرف دہشت گردی جاری ہے بلکہ اس میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ وہ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ کہیں دہشت گردی کے خلاف ہماری حکمت عملی میں کوئی فالٹ لائن تو نہیں جس کی وجہ سے ہماری کوششیں تاحال ثمر بار ثابت نہیں ہو سکیں۔ اس فالٹ لائن کو تلاش کرنا اور اسے فوری طور پر دور کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اب اس کی وجہ سے ہمارے دوست ملکوں کے ساتھ تعلقات متاثر ہو رہے ہیں اور قومی معیشت کو دوبارہ پٹڑی پر چڑھانے کی جو کوششیں ہو رہی ہیں وہ بار آور ثابت نہیں ہو پا رہیں کیونکہ اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری‘ جس کے بغیر معیشت کا پہیہ حرکت نہیں کر سکتا‘ امن و امان کی خراب صورتحال‘ عدم تحفظ‘ غیر یقینی اور دہشت گردی کی موجودگی میں ممکن نہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ایک طرف عوام دہشت گردوں کے خلاف سخت‘ فوری اور مؤثر کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں اور دوسری طرف جب دہشت گردی کے خلاف آپریشن کی بات ہوتی ہے تو بعض حلقوں کی طرف سے اس کی مخالفت کی جانے لگتی ہے۔
دہشت گردی کے خلاف کوئی بھی حکمت عملی اختیار کی جائے‘ اس میں طاقت کے استعمال کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے لیکن اس کے سیاسی‘ معاشی اور سماجی اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان اس وقت مشکل صورتحال سے دوچار ہے۔ ماؤزئے تنگ نے کہا تھا کہ جس طرح پانی کے بغیر مچھلی زندہ نہیں رہ سکتی‘ اسی طرح عوام کی حمایت کے بغیر کوئی جنگ نہیں جیتی جا سکتی۔ انسدادِ دہشت گردی کے لیے جو نئی حکمت عملی تیار کی جائے‘ ضروری ہے کہ اس میں صرف طاقت کے استعمال پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ اس میں سیاسی پہلوؤں اور عوام کی رائے کو بھی پیشِ نظر رکھا جائے۔ دہشت گردی کے خلاف کامیابی کے لیے سیاسی استحکام لازمی ہے جو تمام سٹیک ہولڈرز کے ایک پلیٹ فارم پر آنے ہی سے قائم ہو سکتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں