سات اکتوبر کو غزہ پر اسرائیل کے وحشیانہ حملوں کو ایک برس گزرنے پر دنیا بھر میں یہودی ریاست کے ہاتھوں معصوم فلسطینی باشندوں کے بے دریغ قتلِ عام کی مذمت کی گئی۔غزہ میں اسرائیل کی مسلسل بمباری اور حملوں سے جو تباہی ہو چکی ہے اور مزید ہو رہی ہے‘ اس کے خلاف اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بھی کھل کر بولے۔ یورپی یونین‘ جس کے کچھ رکن ممالک اسرائیل کو اسلحہ‘ ہتھیار اور گولا بارود سپلائی کر کے اس تباہی میں بالواسطہ ملوث رہے ہیں‘ کے فارن افیئر چیف نے بھی اس تباہی کو ناقابلِ برداشت قرار دیا ہے۔ یورپی ممالک بھی اب فوری جنگ بندی کا مطالبہ کر رہے ہیں اور فرانس کے صدر ایمانویل میکرون نے یورپی ممالک کی طرف سے اسرائیل کو ہتھیار سپلائی کرنے پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
دوسری طرف غزہ کی جنگ لبنان اور یمن تک پھیل چکی ہے اور ایران کسی بھی وقت اس کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔ اس تناظر میں فلسطین کے تازہ ترین بحران میں پاکستان کے کردار کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ مسئلہ فلسطین پر پاکستان کے تاریخی مؤقف کا اگر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس کے تحت پاکستان کی طرف سے دیگر مسلم اور عرب ممالک کے مقابلے میں اسرائیل کے قیام سے لے کر غزہ میں موجودہ جارحیت تک‘ سب سے زیادہ سخت اور دو ٹوک ردِعمل آیا ہے۔ اسکی تازہ اور واضح ترین مثال اسلام آباد میں سات اکتوبر کو حکومتِ پاکستان کے زیر اہتمام ہونے والی مسئلہ فلسطین اور غزہ جنگ پر ایک آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد ہے۔ پاکستان کی ہر سیاسی جماعت‘ تنظیم اور گروہ کا مسئلہ فلسطین پر ایک ہی مؤقف ہے اور وہ یہ کہ 1948ء میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بین الاقوامی قانون کے تمام ضوابط‘ اخلاقی قواعد اور انصاف کے تمام اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فلسطین کو تقسیم کر کے اسرائیل کی صہیونی ریاست کے قیام کا اعلان کیا۔ اسی لیے عالمِ عرب اور دنیا کے دیگر مسلم ممالک کی طرح پاکستان نے بھی فلسطین کی تقسیم اور اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ پاکستان اپنے اس مؤقف پر اب تک قائم ہے حالانکہ اسرائیل کے دو ہمسایہ عرب ممالک مصر اور اردن نے اسرائیل کو تسلیم کر رکھا ہے اور مراکش‘ بحرین اور متحدہ عرب امارات کے بھی اس کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں۔
فلسطین پر صرف فلسطینیوں کے حق کی حمایت کا جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی طرف سے اظہار قیامِ پاکستان سے بہت پہلے سے کیا جاتا رہا ہے۔ 1917ء میں جب برطانیہ نے فلسطین کو سلطنت عثمانیہ سے چھین کر مشرقِ وسطیٰ میں اپنے سامراجی مفادات کے تحفظ کیلئے ایک اڈا بنانے کی خاطر یہودیوں کی حمایت میں بالفور ڈیکلریشن جاری کیا تھا تو عرب عوام کی طرح جنوبی ایشیا کے مسلمانوں نے بھی اس کی مخالفت کی تھی۔ بالفور ڈیکلریشن کے تحت برطانیہ نے پہلی عالمی جنگ کے بعد فلسطین پر قبضے کی صورت میں فلسطین میں صہیونی ریاست قائم کرنے کا وعدہ کیا تھا حالانکہ اس سے تین سال قبل 1914ء میں برطانیہ نے جنگ میں ترکوں کے خلاف مدد دینے کے بدلے شریف حسین آف مکہ کے ساتھ ایک معاہدہ کر رکھا تھا جس کے تحت فلسطین کو ایک وسیع تر اور آزاد عرب ممالک کا حصہ بنانے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ مگر برطانیہ نے اس معاہدے کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے جنگ کے بعد فلسطین کو اپنے قبضے میں لے کر فلسطین میں یہودیوں کی آباد کاری میں سہولت کار کا کردار ادا کیا۔ اس کا مقصد فلسطین میں یہودی آبادی میں اضافہ کر کے بالآخر ایک صہیونی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کرنا تھا۔ برطانیہ کی اس دھوکا دہی اور فلسطین میں یہودیوں کی آباد کاری میں مدد فراہم کرنے کے خلاف فلسطین میں عربوں کی طرف سے تحریکِ مزاحمت کا آغاز ہوا۔ 1920ء اور 1930ء کی دہائیوں میں عربوں کی طرف سے فلسطین میں برطانوی استعمار کے خلاف متعدد بغاوتیں ہوئیں مگر برطانیہ نے ان بغاوتوں کو سختی سے کچل دیا۔
یہ اُسی زمانے کی بات ہے جب ہندوستان میں مسلمانوں نے تحریک خلافت شروع کر رکھی تھی۔ ترکوں کے خلاف برطانیہ سمیت دیگر یورپی ممالک کی جارحیت اور اس کے ساتھ فلسطین میں یہودیوں کی آبادکاری کے خلاف ہی ہندوستان کے مسلمانوں نے احتجاجی تحریک شروع کر رکھی تھی۔ پاکستان کی طرف سے فلسطینیوں کی ٹھوس حمایت اسی تحریک کا تسلسل ہے۔ اس میں نو آزاد ملک کی دلچسپی اور گہرے تعلق کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح نے قیامِ پاکستان کے فوراً بعد اقوام متحدہ میں زیر بحث فلسطین کے مسئلے پر عربوں کے مؤقف کی حمایت کرنے کے لیے ملک کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ کو خاص طور پر یو این بھیجا۔ سر ظفر اللہ نے تاریخی‘ معاشی اور قانونی حقائق کی روشنی میں فلسطین کی تقسیم اور اس میں ایک علیحدہ یہودی ریاست کے قیام کے خلاف ایسے ٹھوس اور ناقابلِ تردید دلائل پیش کیے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں موجود عرب ملکوں کے نمائندے اَش اَش کر اُٹھے۔ مگر امریکہ اور یورپی ممالک فلسطین کی تقسیم اور یہودیوں کی ریاست اسرائیل کے قیام پر اقوام متحدہ کی مہر ثبت کرنے پر تلے ہوئے تھے اور انہوں نے دھونس‘ لالچ اور دھمکیوں سے کام لے کر دو تہائی ارکان کی اکثریت حاصل کر کے اپنا مقصد حاصل کر لیا۔ مگر 15مئی 1948ء کو اسرائیل کے قیام کے ساتھ ہی عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان جنگ چھڑ گئی کیونکہ عربوں نے اسرائیل کے قیام کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اس کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا تھا۔ باقی عالمِ اسلام کی طرح پاکستان میں بھی عربوں کی حمایت میں ملک گیر احتجاجی جلوس نکالے گئے‘ اس وقت پاکستان میں لیاقت علی خاں ملک کے وزیراعظم تھے جنہوں نے مظاہرین کی حمایت کرتے ہوئے مسئلہ فلسطین کے بارے میں پاکستان کی پالیسی کا اعلان کیا۔ اس پالیسی کو پاکستانی عوام اور سیاسی جماعتوں کی متفقہ حمایت حاصل ہے اور گزشتہ تقریباً سات دہائیوں سے یہ حمایت غیر متزلزل چلی آ رہی ہے بلکہ مختلف مواقع مثلاً عرب اسرائیل کی چوتھی جنگ (1973-74ء) اور اس کے نتیجے میں عربوں کی طرف سے تیل کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کے موقع پر پاکستان نے عربوں کے ساتھ جس یکجہتی کا مظاہرہ کیا‘ وہ پاکستان اور عربوں کے باہمی تعلقات کی تاریخ کا ایک انتہائی اہم باب ہے۔ خاص طور پر فروری 1974ء میں لاہور میں دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد اس سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔
اس کانفرنس میں سعودی عرب کے شاہ فیصل‘ خلیج کی عرب ریاستوں کے سربراہان‘ لیبیا کے معمر قذافی اور الجزائر کے حواری بومدین کے علاوہ الفتح کے لیڈر یاسر عرفات نے بھی شرکت کی تھی۔ اس کانفرنس کے پلیٹ فارم سے فلسطین پر جو قراردادیں منظور کی گئیں ان میں پی ایل او کو اقوام متحدہ میں نمائندگی دینے‘ 1948ء کی جنگ میں بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کی واپسی کے حق کو تسلیم کرنے‘ مقبوضہ عرب علاقوں میں یہودی آباد کاروں کی بستیوں کی تعمیر روکنے اور 1967ء کی جنگ سے قبل کے فلسطین کی سرحدوں کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس کانفرنس‘ جس کے انعقاد میں ذوالفقار علی بھٹو نے کلیدی کردار ادا کیا تھا‘ نے فلسطین کے مسئلے کو دنیا بھر میں اجاگر کیا اور اس میں نئی جان ڈالی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس نے فلسطین اور اسرائیل کے بارے میں پاکستان کی پالیسی کو ایک ایسی مستحکم اور ٹھوس بنیاد فراہم کی کہ جس کی اہمیت سے پاکستان کی کوئی حکومت انحراف نہیں کر سکتی۔ غزہ میں اسرائیلی جارحیت کا ایک سال مکمل ہونے پر اسلام آباد میں مظلوم فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کیلئے ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس کا اعلامیہ اس کا ثبوت ہے۔