امریکہ میں ریپبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارتی انتخابی معرکہ جیت لیا ہے۔ کئی ماہ پر محیط ایک گرما گرم انتخابی مہم کے بعد 538 الیکٹورل ووٹ میں سے سابق صدر ٹرمپ نے اب تک کے نتائج کے مطابق 295 الیکٹورل ووٹ حاصل کیے ہیں‘ جبکہ اُن کی مدمقابل نائب صدر اور ڈیمو کریٹک پارٹی کی امیدوار کملا ہیرس نے 226 الیکٹورل ووٹ حاصل کیے ہیں۔ کامیابی کے لیے درکار الیکٹورل ووٹوں کی تعداد 270تھی۔ ٹرمپ کی ایک واضح فرق سے جیت کا مطلب یہ ہے کہ گزشتہ‘ یعنی 2020ء کے صدارتی انتخابات‘ جن میں ڈیمو کریٹک پارٹی کے امیدوار جوبائیڈن کے ہاتھوں ڈونلڈ ٹرمپ نے شکست کھائی تھی‘ کی طرح موجودہ انتخابات بھی متنازع نہیں ہوں گے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں ریپبلکن پارٹی نے نہ صرف صدارتی دوڑ میں کامیابی حاصل کی بلکہ امریکی کانگرس کے دونوں ایوانوں‘ ایوانِ نمائندگان اور سینیٹ میں بھی کامیابی حاصل کر لی ہے۔ یوں امریکی عوام کی اکثریت نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک کھلا اور بھاری مینڈیٹ دیا ہے‘ جس کا مطلب ہے کہ اگلے چار برسوں میں انہیں اپنے فیصلوں پر عملدرآمد میں کانگرس کی طرف سے کسی قسم کی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ یاد رہے کہ امریکہ کا حکومتی نظام چیک اینڈ بیلنس کے اصول پر مبنی ہے۔ یعنی حکومت کے تینوں ادارے انتظامیہ (صدر) مقننہ (کانگرس) اور عدلیہ (سپریم کورٹ) اپنے طور پر علیحدہ اور آزاد اختیارات کے مالک ہوتے ہیں مگر ایک دوسرے پر چیک رکھنے کی حیثیت سے بھی کام کرتے ہیں تاکہ حکومتی نظام میں توازن (بیلنس) رہے لیکن اگر ان میں سے دو یعنی صدر کے عہدے اور کانگرس پر ایک ہی پارٹی کا کنٹرول ہو تو امریکی صدر‘ جسے امریکی سیاسی نظام کے ناقدین ڈکٹیٹر اور وَن مین شو کا نام دیتے ہیں‘ پہلے سے بھی زیادہ طاقتور ہو جائے گا۔ سینیٹ پر کنٹرول اس لحاظ سے خصوصی طور پر اہمیت کا حامل ہے کیونکہ صدر کی طرف سے تمام اہم عہدوں پر تعیناتی‘ جن میں مسلح افواج کا سربراہ‘ سفیر‘ سپریم کورٹ کے جج اور اٹارنی جنرل بھی شامل ہیں‘ کی تصدیق سینیٹ کا ادارہ کرتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے سینیٹ پر کنٹرول اس لیے بھی زیادہ اہم کامیابی ہے کیونکہ اپنے پہلے دورِ حکومت (2016-20ء) کے دوران ٹرمپ کی تقریباً کسی بھی اہم عہدے پر فائز افسر سے نہیں بن سکی تھی اور انہوں نے چیئرمین‘ جوائنٹ چیفس سے لے کر نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر‘ نیشنل انٹیلی جنس چیف‘ ڈیفنس سیکرٹری اور اٹارنی جنرل تک کو عہدوں سے ہٹا دیا تھا۔ نیو یارک ٹائمز نے ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ان کا دوسرا دورِ حکومت پہلے دورِ حکومت کے مقابلے میں زیادہ غیریقینی اور خطرناک ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ پہلے دورِ حکومت کے مقابلے میں دوسرے دورِ حکومت میں ٹرمپ کو انتظامی معاملات میں آئین‘ قانون اور مروجہ روایات سے ہٹ کر من مانی کرنے سے روکنے والے اعتدال پسند اور تجربہ کار مشیر میسر نہیں ہوں گے۔ نیو یارک ٹائمز کے مطابق: اس مرتبہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اردگرد ایسے مشیران اور ماہرین نے گھیرا ڈال رکھا ہے جو اُن کے ہم خیال ہیں اور وہ ٹرمپ کو اپنے اختیارات کے استعمال اور فیصلہ سازی میں احتیاط‘ اعتدال پسندی اور آئین و قانون کی سخت پاسداری کا مشورہ دینے کے بجائے ان کی یک طرفہ‘ انتہا پسند اور من مانی پر مبنی سوچ میں بڑھ چڑھ کر ساتھ دیں گے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی پہلی حکومت ختم ہونے کے بعد سے اب تک دنیا بہت تبدیل ہو چکی ہے۔ انہیں نئے دورِ حکومت میں ایسے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا جو اُنہیں پہلے دورِ حکومت میں درپیش نہیں تھے۔ سب سے پہلے انہیں اپنے خلاف درج مقدمات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس میں سے بعض مقدمات میں ان پر فردِ جرم بھی عائد ہو چکی ہے اور ایک مقدمے میں انہیں 26 نومبر کو نیو یارک کی ایک عدالت میں پیش بھی ہونا ہے جہاں انہیں سزا بھی سنائی جا سکتی ہے۔ ٹرمپ پر 2020ء کے انتخابات کو سبوتاژ کرنے اور 6جنوری 2021ء کو کیپٹل ہل پر اپنے حامیوں کو حملے میں اعانت فراہم کرنے کا بھی الزام عائد ہے۔ اس کے علاوہ ان پر صدر کے عہدے سے سبکدوش ہونے کے بعد حساس اور خفیہ ریاستی دستاویز کو غیرقانونی طور پر اپنے پاس رکھنے کا الزام بھی ہے۔ ٹرمپ کے خلاف ان مقدمات کی سماعت مکمل ہو چکی ہے‘ جیوری اپنا فیصلہ دے چکی ہے۔ گزشتہ ماہ اس کیس کا فیصلہ سنایا جانا تھا مگر جج نے فیصلے کا اعلان مؤخر کر دیا تاکہ اس سے صدارتی انتخاب متاثر نہ ہو لیکن 26 نومبر کو یہ فیصلہ سنائے جانے کا امکان ہے جس میں ٹرمپ کو چار سال کی سزا بھی ہو سکتی ہے مگر ٹرمپ متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ وہ صدارتی انتخاب جیت کر سپیشل کونسل جیک سمتھ کو برطرف کر کے اپنے خلاف فیڈرل مقدمات ختم کر دیں گے۔
صدر کی حیثیت سے ٹرمپ کو کوئی بھی مقدمہ ختم کرنے کا اختیار حاصل ہے لیکن کیا وہ یہ اختیار اپنے خلاف درج فوجداری مقدمات میں استعمال کر سکتے ہیں‘ اور کیا ڈونلڈ ٹرمپ 20 جنوری 2024ء کو بطور صدر حلف اٹھانے سے پہلے یہ اختیار استعمال کر سکیں گے؟ ان سوالات کے جوابات پر ہی منحصر ہے کہ جوبائیڈن دور میں ٹرمپ کے خلاف درج مقدمات ان کے دوسرے دورِ صدارت میں رکاوٹ بن سکتے ہیں یا نہیں۔
2016ء میں جب ٹرمپ پہلی دفعہ صدر بنے تھے تو انہیں امریکی حکومتی نظام چلانے کا کوئی تجربہ نہیں تھا‘ اس کے علاوہ کانگرس اور اسٹیبلشمنٹ کے پرانے اور تجربہ کار حکام بھی ان کے راستے میں رکاوٹ تھے۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکی حکومتی نظام کی پیچیدگیوں کا کافی تجربہ اور ادراک ہے۔ اس کے علاوہ سینیٹ میں ان کی پارٹی کی اکثریت قائم ہونے کی وجہ سے ان کو اپنی مرضی کے مطابق حکومت چلانے میں کوئی مشکل نہیں ہو گی۔ اس لیے کہا جا رہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی تاریخ کے طاقتور ترین صدر ثابت ہوں گے۔ ایک ایسے ملک‘ جس کے عوام سیاسی وفاداریوں میں گہری تقسیم کا شکار ہیں‘ اور اس کے اتحادیوں بلکہ دنیا کیلئے ایسا صدر سود مند ثابت ہوگا؟ یہ سوال ابھی سے دبے الفاظ میں امریکی میڈیا میں اٹھایا جا نے لگا ہے مگر امریکی ووٹرز کی طرف سے ملنے والے بھاری مینڈیٹ کی بنیاد پر صدر ٹرمپ اپنے ایجنڈے پر عملدرآمد کر سکتے ہیں‘ اس ایجنڈے میں امریکہ کی سرحدوں کو سیل کر کے امریکہ میں غیرقانونی طور پر داخل ہونے والے تارکینِ وطن کو روکنا سرفہرست ہے۔ اپنی پہلی حکومت میں بھی ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ عہد کیا تھا اور اس مقصد کیلئے انہوں نے میکسیکو کے ساتھ امریکی سرحد پر دیوار تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا تھا مگر اس منصوبے کو مکمل نہیں کر سکے۔
امریکہ کے صدارتی انتخابات پر تبصرہ کرنے والے بیشتر امریکی ماہرین کی رائے میں ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا کی بنیاد پر کامیابی حاصل کی ہے جس کے ذریعے مہنگائی اور بیروزگاری سے تنگ‘ غربت اور اشیائے خورو نوش کی کمی اور علاج معالجے کی سہولتوں کی عدم دستیابی کے شکار درمیانے اور نچلے درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو یہ باور کرایا گیا کہ ان کو درپیش تمام مسائل غیرقانونی تارکین وطن کو امریکی ریاستوں میں آباد ہونے کی اجازت دینے کا نتیجہ ہیں‘ اس لیے لوگوں نے اس طرف دھیان نہیں دیا کہ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کیا ہے یا امریکہ کے بارے میں ان کا وژن حقیقت پسندانہ یا قابلِ حصول ہے یا نہیں‘ ان کے دِلوں میں غیر ملکی تارکینِ وطن کا خوف بٹھا دیا گیا اور ان کو یقین دلایا گیا کہ اس خوف سے انہیں صرف ڈونلڈ ٹرمپ ہی نجات دلا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پالیسیوں کے تجزیے اور بحث میں پڑنے کے بجائے امریکی ووٹرز کی اکثریت نے فوری طور پر درپیش مسائل یعنی مہنگائی اور بیروزگاری پر ٹرمپ کے ایک واضح اور دو ٹوک مؤقف پر انہیں ووٹ دیا اور کامیابی سے ہمکنار کرایا۔