شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کا 23ویں سالانہ سربراہی اجلاس آج اسلام آباد میں منعقد ہو رہا ہے۔ایک طویل عرصہ کے بعد پاکستان میں ایک اہم بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہو رہی ہے۔ یوریشیا کے وسیع رقبے پر مشتمل دنیا کی سات میں سے چار ایٹمی طاقتوں پر مشتمل معاشی تعاون‘ علاقائی روابط اور باہمی تجارت کی تیزی سے ترقی کرنے والی علاقائی تعاون برائے ترقی کو فروغ دینے والی تنظیم‘ ایس سی او کا یہ سربراہی اجلاس پاکستان کیلئے حقیقی معنوں میں ایک اعزاز ہے۔ اس اجلاس میں تنظیم کے 10 رکن ممالک میں سے نو کی نمائندگی ان کے وزرائے اعظم یا وزیراعظم کے عہدے کے مساوی رہنما کر رہے ہیں؛ البتہ بھارت کی نمائندگی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر کر رہے ہیں۔ پاک بھارت باہمی تعلقات میں گزشتہ پانچ برسوں سے چلے آنے والی سرد مہری کے پیش نظر اسلام آباد میں ایس جے شنکر کی موجودگی اور ایس سی او کانفرنس میں اُن کی شرکت کو نہ صرف سراہا جا رہا ہے بلکہ اس کی اہمیت کو بھی تسلیم کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ بھارتی وزیر خارجہ ایک ملٹی لیٹرل کانفرنس میں شرکت کیلئے آئے ہیں اور پاکستانی حکام سے دوطرفہ معاملات پر ملاقات ان کے ایجنڈے میں شامل نہیں مگر بھارتی وزیر خارجہ کی پاکستان میں کانفرنس میں شرکت کو دونوں ملکوں کے تعلقات کیلئے ایک حوصلہ افزا اور مثبت اشارہ سمجھا جا رہا ہے کیونکہ وزیراعظم نریندر مودی کی کابینہ میں امیت شاہ اور راج ناتھ کے بعد سبرا منیم جے شنکر ہی کو سب سے زیادہ بااثر سمجھا جاتا ہے۔
کانفرنس میں ایس سی او کے دو اہم ترین رکن ممالک‘ جو دراصل اس تنظیم کے روحِ رواں ہیں‘ یعنی چین اور روس کے وزرائے اعظم کی شرکت سے اجلاس کی اہمیت میں گراں قدر اضافہ ہوا ہے۔ روس کے وزیراعظم میخائل میشوستین کا دورہ اگرچہ کانفرنس میں شرکت کی غرض سے ہے تاہم سائیڈ لائن پر اُن کی وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات اور دوطرفہ معاملات پر غیر رسمی گفتگو کی اپنی اہمیت ہے۔ تاہم چین کے وزیراعظم لی چیانگ نہ صرف کانفرنس کے شرکا بلکہ پاکستان اور پاکستان سے باہر‘ دنیا بھر میں خصوصی توجہ کا مرکز ہیں۔ 11 برس بعد کسی چینی وزیراعظم کا یہ دورۂ پاکستان ہے۔ اس سے قبل مئی 2013ء میں وزیراعظم لی کی چیانگ نے پاکستان کا دورہ کیا تھا اور صدر آصف زرداری اور 'نامزد وزیراعظم‘ نواز شریف سے ملاقات کی تھی۔2013ء میں چینی وزیراعظم کے دورۂ پاکستان کی سب سے اہم خصوصیت چین کی طرف سے سی پیک کی تعمیر کی پیشکش تھی۔ موجودہ وزیراعظم لی چیانگ مارچ 2023ء میں منتخب ہوئے اور اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد یہ ان کا پہلا دورۂ پاکستان ہے۔ تاہم گزشتہ جون میں وہ بیجنگ میں وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کر چکے ہیں۔
ایس سی او کانفرنس میں شرکت کی غرض سے اسلام آباد پہنچنے والے دیگر مہمانوں کے برعکس چینی وزیراعظم‘ وزیراعظم شہباز شریف کی دعوت پر چار روزہ دورے پر پاکستان تشریف لائے ہیں۔ اسی دورے کے دوران وہ کانفرنس میں اپنے ملک کے نمائندہ اور وفد کے رہنما کی حیثیت سے شرکت کریں گے مگر کانفرنس کے علاوہ چینی وزیراعظم کی مصروفیات میں پاکستانی حکام کے ساتھ اہم دوطرفہ معاملات پر ملاقاتیں بھی شامل ہیں۔ ان معاملات میں پاک چین سٹرٹیجک پارٹنرشپ کو مزید گہرا اور مضبوط کرنے کیلئے دونوں ملکوں کے مابین تجارت‘ سرمایہ کاری‘ صنعت‘ زراعت‘ ثقافت بالخصوص سی پیک کے دوسرے فیز کے تحت جن منصوبوں کی نشاندہی کی گئی ہے‘ انہیں تیزی سے تکمیل کے مراحل سے گزارنے کیلئے باہمی مشاورت سے اقدامات پر اتفاق کرنا شامل ہے۔ اپنے دورے کے پہلے روز چینی وزیراعظم نے پاکستانی ہم منصب کے ساتھ مل کر گوادر کے نئے بین الاقوامی ہوائی اڈے کا ورچوئل افتتاح بھی کیا۔ یہ ہوائی اڈا چین کی مالی اور تکنیکی مدد سے تعمیر کیا گیا ہے اور اسکے فعال ہونے کے بعد پاکستان کا نہ صرف خلیج فارس اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک بلکہ اس سے آگے یورپ اور افریقی ممالک کے سا تھ بھی روابط میں اضافہ ہو گا۔ اس سے سی پیک کے تحت علاقائی روابط و تجارت کو فروغ حاصل ہو گا۔
چینی وزیراعظم کی ایس سی او کانفرنس سے ایک روز قبل پاکستان آمد سے یہ مطلب بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان اور چین کو کانفرنس میں زیر بحث مسائل پر تبادلۂ خیال اور کوآرڈی نیشن کا موقع بھی میسر آیا ہو گا کیونکہ اس کانفرنس میں ایس سی او کے سالانہ بجٹ کی منظوری کے علاوہ دہشت گردی‘ علاقائی سالمیت‘ موسمیاتی تغیر وتبدل اور علاقائی روابط کو فروغ دینے کی تجاویز پر بھی بحث کی جائے گی۔ چینی وزیراعظم پاکستان میں ایک ایسے وقت پر تشریف لائے ہیں جب پاکستان اور چین کے مابین قریبی تعاون اور باہمی اعتماد پر مبنی دوستی کے مضبوط رشتوں کو نقصان پہچانے کیلئے دہشت گردوں نے اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔ کراچی میں چینی باشندوں کی گاڑی پر حملہ‘ جس کے نتیجے میں دو چینی انجینئرز ہلاک ہوئے‘ اس کی ایک مثال ہے۔ چینی وزیراعظم کی جانب سے دہشت گردوں کی ان مذموم کارروائیوں کی بھرپور مذمت اور پاکستان کے ساتھ سٹرٹیجک پارٹنرشپ کو مزید گہرا اور مضبوط کرنے کا اعلان اس بھرم کا ثبوت ہے کہ دونوں ملکوں میں تعاون اور دوستی کے رشتوں کو کوئی دشمن نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ کراچی میں چینی باشندوں کے خلاف دہشت گردی کی کارروائی پر ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے چینی وزیراعظم اور ان سے قبل چینی وزارتِ خارجہ کی ترجمان نے جو بیانات دیے‘ ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان اور چین کی مختلف شعبوں میں تعاون پر مبنی سٹرٹیجک پارٹنر شپ جاری رہے گی۔ پاکستان اور چین کے دوستی اور تعاون پر مبنی جو قریبی تعلقات ہیں‘ ان کی ایک نمایاں خصوصیت دونوں ملکوں کی سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان کثرت سے دوروں کا تبادلہ ہے۔ پاکستان کا کوئی صدر‘ وزیراعظم یا آرمی چیف ایسا نہیں جس نے چین کا ایک سے زائد بار دورہ نہ کیا ہو۔ یہی کیفیت چینی لیڈرشپ کی ہے۔ اس سے نہ صرف مختلف شعبوں میں تعاون کو فروغ حاصل ہوتا اور دوستی کے رشتے مضبوط ہوتے ہیں بلکہ علاقائی اور ثقافتی امور پر یکساں سوچ اور مشترکہ اپروچ اختیار کرنے میں مدد میسر آتی ہے۔ اس وقت علاقائی اور عالمی سطح پر جو تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور نئے چیلنجز سر اٹھا رہے ہیں‘ ان کے پیشِ نظر باہمی مشاورت کے ذریعے پاکستان اورچین کی جانب سے ٹھوس موقف کا آنا ضروری ہے۔ چینی وزیراعظم کا دورۂ پاکستان اور اسلام آباد میں منعقد ہونے والی ایس سی او کانفرنس میں ان کی شرکت سے نہ صرف پاکستان اور چین کے مفادات کو تحفظ حاصل ہوگا بلکہ علاقائی اور عالمی سطح پر بھی اس کے خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے۔
شنگھائی کانفرنس کے موقع پر پی ٹی آئی کی جانب سے احتجاج کی کال بھی دی گئی تھی۔ پی ٹی آئی قیادت کے مطابق اس کا مقصد بانی پی ٹی آئی اور ان کی جماعت سے ہونے والی زیادتیوں کی طرف دنیا کی توجہ دلانا تھا‘ مگر سلام آباد میں کانفرنس میں شرکت کی غرض سے آنے والے غیر ملکی رہنماؤں کی موجودگی میں احتجاجی مظاہرے سے قومی مفادات اور تشخص کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا۔ پی ٹی آئی کی طرف سے احتجاجی مظاہرے کی کال واپس لینے کے لیے کچھ شرائط عائد کی گئیں ۔ خوش آئند بات ہے کہ بانی پی ٹی آئی کا میڈیکل چیک اپ ہوجانے کے بعد پی ٹی آئی نے احتجاج کی کال واپس لے لی۔ میڈیکل ٹیم کے معائنہ کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ ڈاکٹروں نے اڈیالہ جیل میں پارٹی کے بانی عمران خان کا چیک اپ کرنے کے بعد ہمیں بتایا وہ صحت مند ہیں۔