ڈونلڈ ٹرمپ کی امریکی صدارتی انتخاب میں کامیابی کے بعد دنیا کے تقریباً ہر ملک میں امریکہ کیساتھ تعلقات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے‘ بلکہ گزشتہ چار دہائیوں سے افغانستان کے مسئلے کے حوالے سے امریکہ اور پاکستان کے تعلقات پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔ 20 جنوری 2025ء کو جب ٹرمپ اپنی دوسری چار سالہ صدارتی مدت کا آغاز کریں گے تو وہ دنیا کو اپنی پہلی مدت سے بالکل مختلف پائیں گے۔ سب سے نمایاں تبدیلی افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کی صورت میں رونما ہو چکی ہے۔ اس کے نتیجے میں امریکہ افغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ میں پاکستان کی امداد کا محتاج نہیں رہا۔ اور ''ڈومور‘‘ یا پاکستان پر درپردہ افغان طالبان نیٹ ورک کے جنگجوئوں کو ''محفوظ پناہ گاہیں‘‘ فراہم کرنے کے الزامات کا سلسلہ بھی ختم ہو چکا ہے۔ اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی توجہ کا مرکز یوکرین کی جنگ اور غزہ اور لبنان پر اسرائیل کے تباہ کن حملے ہوں گے۔ صدر ٹرمپ اپنی صدارتی مہم کے دوران متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ وہ ان جنگوں کو فوری طور پر ختم کرنے کی کوشش کریں گے۔ طویل المیعاد بنیادوں پر خطے میں چین کے ابھرتے ہوئے اثر و رسوخ کے آگے بند باندھنا نئی امریکی انتظامیہ کی اولین ترجیح ہو گی کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ جو بائیڈن کی طرح چین کو امریکہ کیلئے سب سے بڑا چیلنج قرار دے چکے ہیں۔ چین کا مقابلہ کرنے کیلئے امریکہ بھارت کے ساتھ دوطرفہ دفاعی تعلقات کو فروغ دینے اور حساس ٹیکنالوجی فراہم کرنے کے علاوہ اسے آسٹریلیا اور جاپان کے ساتھ چار طاقتوں پر مشتمل اتحاد ''کواڈ‘‘ میں بھی شامل کر چکا ہے۔ بحر ہند کے مغربی حصے سے لے کر بحرالکاہل تک کا وسیع خطہ ''کواڈ‘‘ کی دفاعی ذمہ داریوں میں شامل ہے اور بھارت اس دفاعی ڈھانچے کا ایک اہم ستون ہے۔ ٹرمپ کے لیے سب سے تشویشناک بات چین اور روس کے مابین روز افزوں سٹرٹیجک تعاون ہے جس کی وجہ سے روس کے خلاف امریکی اقتصادی پابندیاں اور یوکرین کی جنگی امداد غیر مؤثر ثابت ہوئی ہے۔
دنیا کے اہم خطوں‘ یوریشیا‘ مشرقِ وسطیٰ اور بحر ہند کے خطے میں نئی جیوپولیٹکل تبدیلیاں رونما ہونے سے ماہرین کی رائے ہے کہ اب امریکہ پاکستان کیساتھ تعلقات چین اور بھارت کے بارے میں اپنی پالیسیوں اور تعلقات کی روشنی میں دیکھے گا۔ امریکی خارجہ پالیسی میں چین کے ساتھ تعلقات طے کرنے اور باقی ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارتی‘ سرمایہ کاری اور دفاعی شعبوں میں تعاون بڑھانے کی پالیسی کے تحت پاک امریکہ تعلقات متاثر ہونے کا سلسلہ نیا نہیں‘ تاہم اس کے باجود مختلف ادوار میں امریکہ اور پاکستان کے دو طرفہ تعلقات مضبوط اور گہرے ہوئے ہیں۔ خطے کے بدلتے ہوئے جیوسٹرٹیجک حالات کے باوجود دونوں ملکوں میں باہمی تعلقات کی اہمیت اور انہیں مزید گہرا اور مضبوط بنانے کی ضرورت کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ واشنگٹن اور نئی دہلی کے درمیان گزشتہ چند برسوں خصوصاً مودی حکومت کے دوران سٹرٹیجک پارٹنر شپ کا ایک مضبوط رشتہ قائم ہوا ہے‘ مگر جیسا کہ امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ودانت پٹیل نے ایک بیان میں کہا تھا کہ بھارت امریکہ کا ایک گلوبل پارٹنر ہے جبکہ پاکستان اس کا ایک حساس خطے (جنوبی ایشیا) میں پارٹنر ہے۔ یعنی امریکہ کی دونوں ملکوں کے ساتھ پارٹنر شپ ہے اور دونوں کی اپنی اہمیت ہے۔ امریکی حکام نے حالیہ برسوں میں متعدد بار واضح کیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو اب افغانستان اوربھارت کی عینک سے نہیں دیکھیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات نہ صرف ایک طویل مدت پر محیط ہیں بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ مزید وسیع اور ہمہ جہت ہو چکے ہیں۔ اس کی تفصیل پاکستان میں امریکہ کے سفیر ڈونلڈ بلوم نے 29 ستمبر 2022ء کو دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات کی 75ویں سالگرہ کے موقع پر اسلام آباد میں ایک تقریب میں بیان کی تھی۔ اس تقریب میں وزیراعظم شہبازشریف بھی موجود تھے۔ ڈونلڈ بلوم کا کہنا تھا کہ امریکہ اس وقت پاکستان کے لیے سب سے بڑی برآمدی منڈی ہے‘ بلکہ فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ (FDI) کا سب سے بڑا ذریعہ بھی ہے۔ دونوں ملکوں کے مابین توانائی‘ تجارت اور سرمایہ کاری‘ تعلیم‘ صحت‘ کلائمیٹ چینج‘ افغانستان میں استحکام کے فروغ اور انسدادِ دہشت گردی کے شعبوں میں قریبی تعاون موجود ہے۔ ہزاروں پاکستانی امریکی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہو کر قومی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ لاکھوں پاکستانی امریکی کمپنیوں میں کام کر رہے ہیں۔ قدرتی آفات مثلاً 2005ء کے تباہ کن زلزلے‘2010ء‘ 2011ء اور 2022ء کے سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچانے کیلئے امداد فراہم کرنے والوں میں امریکہ سب سے آگے رہا ہے۔ امریکی سفیر کے مطابق‘ گزشتہ 20 برس کے دوران امریکہ نے پاکستان کو 32 ارب ڈالر سے زیادہ براہِ راست مدد فراہم کی ہے۔ 60ء کی دہائی میں ''سبز انقلاب‘‘ جس کی مدد سے پاکستان گندم کی پیداوار میں خودکفیل ہوا‘ امریکی امداد کا نتیجہ تھا۔ عوامی سطح پر رابطوں کا ذکر کرتے ہوئے امریکی سفیر نے انکشاف کیا کہ دنیا کے مختلف ملکوں میں فل برائٹ پروگرام کے تحت جو طلبہ امریکی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم کیلئے وظائف حاصل کرتے ہیں‘ ان میں پاکستانی طلبہ کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ چھ لاکھ سے زائد پاکستانی امریکہ میں رہتے ہیں‘ جو نہ صرف ملک کے لیے قیمتی زر مبادلہ کا ذریعہ ہیں بلکہ دونوں ملکوں کے ثقافتی تعاون کی بھی مثال ہیں۔ پاک امریکہ تعلقات اتنے وسیع ہیں کہ کوئی اور ملک اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا‘ یہی وجہ ہے دونوں ملک ان تعلقات کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں۔
جہاں تک پاکستان‘ چین اور امریکہ تعلقات کی تکون کا تعلق ہے تو نہ چین نے کبھی امریکہ اور پاکستان کے قریبی تعلقات پر کوئی اعتراض کیا ہے اور نہ ہی امریکہ نے کبھی پاکستان کو چین یا امریکہ میں سے کسی ایک کو چننے کے لیے دبائو ڈالا۔ پاکستان اور چین کے تعلقات اس وقت بھی خراب نہیں ہوئے جب پاکستان امریکہ کی سرپرستی میں قائم چین مخالف سیٹو (1954ء) دفاعی معاہدے میں شریک ہوا تھا۔ البتہ امریکہ چونکہ ایک عالمی قوت ہے‘ اس کے مفادات بھی عالمی ہیں اور ان کے تحفظ اور فروغ کے لیے امریکہ نے جو حکمت عملی اپنا رکھی ہے‘ وہ بھی عالمی ہے۔ اسی عالمی حکمت عملی کے تحت امریکہ ہر خطے کے لیے اپنی حکمت عملی اور ملکوں کے ساتھ اپنے تعلقات کا تعین کرتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے بعد پوری دنیا کے ممالک سے درآمدات پر 10 فیصد اور چینی درآمدات پر 60 فیصد ڈیوٹی لگانے کا عزم کر رکھا ہے۔ اس سے پاکستانی معیشت بھی متاثر ہونے کا خطرہ ہے‘ مگر یہ پاکستان کے لیے نئی برآمدی منڈیوں کو تلاش کرنے کا ایک موقع بھی ہے۔ امریکہ یا یورپ کی روایتی منڈیوں پر مکمل انحصار کرنے کے بجائے علاقائی ممالک کے ساتھ تجارت کو فروغ دے کر برآمدات میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ دنیا کے مختلف خطوں میں دوسری عالمی جنگ کے بعد سے امریکہ کی چلی آنے والی سیادت کو چیلنج کرنے کی چینی پالیسی کا مقابلہ کرنا ٹرمپ دورِ حکومت کی سب سے اہم ترجیح ہو گی۔ امریکہ بھارت اتحاد اسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ اس سے امریکہ اور پاکستان کے تعلقات متاثر ہونے کا اندیشہ ہے مگر دو طرفہ تعلقات کو نقصان پہنچنے کا زیادہ خطرہ نہیں کیونکہ جنوبی ایشیا اور بحر ہند کے خطے میں امریکہ چین کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کو روکنے کیلئے بھارت پر زیادہ انحصار کرنے کا فیصلہ کر چکا ہے۔ امریکہ کو معلوم ہے کہ پاکستان کبھی چین مخالف کسی اتحاد میں شامل نہیں ہو گا۔ اس لیے امریکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو چین اور بھارت کے ساتھ تعلقات سے علیحدہ رکھے گا اور دو طرفہ تعلقات کو مضبوط کرے گا۔