"KNC" (space) message & send to 7575

سیاست شناسی

ہماری سیاست مرتی جا رہی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اہلِ سیاست ختم ہو رہے ہیں۔ سیاست میں زندہ رہنا ایک آرٹ ہے۔ اس کا تعلق مقبولیت اور عوامی پذیرائی سے زیادہ حکمت اور سیاست شناسی سے ہے۔
نواب زادہ نصر اللہ خان کو کبھی وہ مقبولیت نہ مل سکی جو ذوالفقار علی بھٹو کے مقدر میں لکھ دی گئی تھی۔ اس کے باوصف‘ سیاست میں ان کی اہمیت بھٹو صاحب سے کم نہیں تھی۔ ان کاکل اثاثہ حکمت اور سیاست شناسی تھی۔ یہ ایک دن میں پیدا نہیں ہوئی۔ شعر وسخن سے فطری وابستگی اور مجلسِ احرار جیسی جماعت سے تعلق نے ان میں سیاست و خطابت کا عمدہ ذوق پیدا کر دیا تھا۔ انہوں نے اسے بھرپور استعمال کیا۔ اس باب میں وہ ہماری روایت کی نمائندگی کرتے تھے۔ سیاست شناسی نے انہیں منفرد اور ممتاز بنائے رکھا۔ سیاست اسی آرٹ کا نام ہے کہ خود کو پہچانیں اور وہ خلا پُرکریں جس کی طرف کسی کا دھیان نہیں تھا۔
دورِ حاضر میں اس کی ایک مثال مولانا فضل الرحمن ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام کبھی ایک قومی جماعت نہیں بن سکی۔ اس کے باوجود یہ مولانا کا کمال ہے کہ کوئی ایسا ہنگامہ برپا کیے رکھتے ہیں جس سے سیاست ان کے گرد گھومتی رہے۔ وہ اس فن کو سمجھتے ہیں کہ کیسے ہر صورتِ حال میں خو دکو سیاستِ دوراں سے متعلق رکھنا ہے۔ اس سے ایک تو میڈیا ان کی طرف متوجہ رہتا ہے اور دوسری طرف ان کے کارکنوں کی امید بھی زندہ رہتی ہے۔
جماعت اسلامی سمیت‘ ہماری نسبتاً چھوٹی جماعتیں اس فن سے ناآشنا ہیں۔ ان کی قیادت نہیں جانتی کہ خود کو عوام کی نظروں کا مرکز کیسے بنانا ہے۔ مثال کے طور پر اس وقت ملک میں ایک سیاسی بحران ہے‘ بڑی جماعتیں جس پر قابو پانے میں کامیاب نہیں۔ یہ چھوٹی جماعتوں کے لیے سنہری موقع تھا کہ وہ کسی نئے حل کے ساتھ سامنے آتیں۔ مخالفین کی مذمت ا ور 'چور چور‘ کے بیانیے میں جو سیاسی پوٹینشل تھا‘ عمران خان صاحب اس کو اچھی طرح کشید کر چکے۔ دوسری جماعتوں کے لیے اس بیانیے میں اب کچھ نہیں رکھا۔ آج عوام کو سکون اور امید کی ضرورت ہے۔ جو یہ کام کر ے گا‘ وہ انہیں اپنی طرف متوجہ کر سکے گا۔ اگر آج نواب زادہ نصر اللہ خان زندہ ہوتے تو قومی اتفاقِ رائے کے لیے کل جماعتی کانفرنس کا انعقاد کر چکے ہوتے۔ وہ قومی سیاسی جماعتوں کو اس کا حصہ بناتے اورخود سیاست کا مرکز بن جاتے۔ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ وہ حکومت کے خلاف ایک مؤثر اتحاد تشکیل دے چکے ہوتے۔
اہلِ سیاست نے اپنی غیر سیاسی سوچ کے باعث سیاست کی باگ خود اپنے ہاتھوں سے دوسروں کو تھمائی ہے۔ اگر کوئی حکومت میں ہے تو اس کی بقا کے لیے 'دوسروں‘ کی طرف دیکھتا ہے۔ اگر کوئی اپوزیشن میں ہے تو وہ اہلِ سیاست سے بات نہیں کرتا۔ اس کا کہنا ہے کہ بات کروں گا تو 'دوسروں‘ سے۔ جب سب اہلِ سیاست 'دوسروں‘ ہی کی طرف رجوع کر رہے ہیں تو پھر انہیں 'دوسروں‘ کی مداخلت کا گلہ نہیں کرنا چاہیے۔ نواب زادہ نصر اللہ خان جیسے سیاستدانوں کا کمال یہ تھا کہ وہ سیاست کو اہلِ سیاست ہی کے گرد گھمائے رکھتے تھے۔ اس سے جہاں ان کے لیے جگہ پیدا ہوتی تھی‘ وہاں سیاست بھی اپنی فطر ی ڈگر پر چلتی رہتی تھی۔
سیاست کی اس ناکامی میں بڑی سیاسی جماعتوں کا کردار بھی کم نہیں۔ انہوں نے بھی اقتدار تک پہنچنے کے لیے عوام کی طرف رجوع کرنا کم کر دیا ہے۔ (ن) لیگ سیاسی طور پر جامد ہے۔ دوسرے صوبوں میں تو خیر اس کا وجود ہی مشتبہ ہے‘ پنجاب میں بھی اس کی تنظیم متحرک نہیں۔ (ن) لیگ کے فورم سے کوئی سرگرمی نہیں ہو رہی۔ پیپلز پارٹی کا حال بھی زیادہ مختلف نہیں۔ وہ بھی سندھ کی جماعت بن چکی۔ ان دونوں جماعتوں نے جیسے ہمیشہ اقتدار کی غلام گردشوں ہی میں گردش کرنی ہے‘ عوام کے پاس نہیں جانا۔
یہ جماعتیں حکومت میں ہیں۔ ان کا خیال یہ ہے کہ ہماری حکومتی کارکردگی ہی سے ہمارے سیاسی مستقبل کا تعلق ہے۔ یہ بات جزواً درست ہے۔ کارکردگی اہم ہے اور اس کو بہتر بنانا ان کی اخلاقی اور آئینی ذمہ داری ہے۔ اس کے ساتھ مگر انہیں عوام سے بھی اپنا تعلق قائم رکھنا ہے۔ اگر وہ بحیثیت سیاسی جماعت زندہ نہیں رہیں گی تو محض حکومتی کارکردگی عوامی پذیرائی کے لیے کفایت نہیں کرے گی۔ تحریک انصاف کی سیاست میں کارکردگی کا کوئی دخل نہیں۔ کوئی یہ سوال نہیں اٹھا رہا کہ کے پی کی حکومت نے عوام کو کیا دیا۔ تحریک انصاف کے اپنے بیانیے میں کہیں اس کا گزر نہیں۔ اس کے باوجود‘ عوامی سطح پر اس کی مقبولیت برقرار ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو زندہ رہنے کے لیے عوام کے سا تھ اپنے تعلق کو بھی زندہ رکھنا پڑتا ہے۔
سیاست دیواروں سے ٹکرانے کا نام نہیں۔ سیاست کرنے کے لیے پانی کا مزاج چاہیے۔ پانی اپنا راستہ نکالتا ہے۔ اس کو روکا نہیں جا سکتا ہے۔ اگر کہیں رکتا ہے تو راستے میں حائل رکاوٹ کی بنیادوں میں اتر جاتا ہے۔ اہلِ سیاست کی کامیابی یہ ہے کہ اقتدار کی سیاست ان کے گرد گھومتی رہے۔ عوام کو یہی معلوم ہو کہ اقتدار کا فیصلہ ان کے ہاتھ میں ہے۔ آج ایک عام آدمی بھی جانتا ہے کہ اقتدار کی گزرگاہ کون سی ہے۔ یہ اہلِ سیاست کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔ اس وقت مسئلہ یہ نہیں کہ حکومت کس سیاسی جماعت کو ملے۔ مسئلہ یہ ہے کہ حکومت سازی کی باگ اہلِ سیاست کے ہاتھ میں آئے۔ اس کے بعد یہ سوال غیر اہم ہو جائے گا کہ کس سیاسی جماعت کو حکومت ملنی چاہیے۔
سیاسی عمل کی بحالی‘ آج ہمارا سب سے بڑا سیاسی مسئلہ ہے۔ اس کا انحصار سیاسی جماعتوں پر ہے۔ اہلِ سیاست مذاکرات کی بساط ہمیشہ بچھائے رکھتے ہیں۔ وہ خود کو غیر متعلق نہیں ہو نے دیتے۔ وہ اپوزیشن میں ہوں تو بھی بڑے ریاستی معاملات میں شامل ہوتے ہیں۔ اکثر 1973ء کے آئین کی بات کی جاتی ہے۔ یہ متفقہ اس لیے بن سکا کہ اس وقت کے اہلِ سیاست بالغ نظر تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ یہ بھٹو صاحب کی کامیابی نہیں‘ سیاست کی کامیابی ہے۔ آئین مارشل لاء اور غیر جمہوری حکومتوں کا راستہ روکتا ہے۔ یہ ان کی بالغ نظری تھی کہ اہلِ سیاست کا بھرم کسی حد تک قائم رہا۔
آج بڑی جماعتوں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اقتدار کھونا نہیں چاہتیں۔ وہ سسٹم پر زیادہ انحصار کرتی ہیں۔ چھوٹی جماعتوں کے پاس یہ موقع ہوتا ہے کہ وہ مثالی حل کی بات کریں اور تدریجاً اسے حقیقت پسندانہ حل کی طرف لے جائیں۔ اس سے ایک طرف ان کا سیاسی وجود باقی رہتا ہے ا ور دوسری طرف بڑی جماعتوں پر بھی ایک دباؤ قائم رہتا ہے۔ سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا کہ سماج میں سیاست زندہ رہتی ہے۔ اس وقت سیاست نہیں ہو رہی۔ یہ بقا کی ایک لڑائی ہے جو روایتی جنگ کی طرح لڑی جا رہی۔ وہ جنگ‘ جس میں کسی ایک کو زندہ رہنا ہوتا ہے۔ سیاست بقائے باہمی کا درس دیتی ہے۔ وہ دوسروں کے وجود کو تسلیم کرنے کا ہنر سکھاتی ہے۔
اس ملک میں لوگوں کو یہ سمجھایا جاتا رہا کہ روایتی سیاستدانوں نے سب برباد کر دیا۔ اس لیے غیر روایتی لوگوں کو سیاست کرنی چاہیے۔ اس غیر روایتی سیاست نے ریاست اور سماج کو اتنا ہی نقصان پہنچایا جتنا مارشل لاء پہنچاتا ہے۔ سیاست کو روایتی ہی ہونا چاہیے۔ اس میں اصلاح کے امکانات تلاش کرنے چاہئیں۔ آم کا درخت پھل نہ دے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ کیکر سے یہ توقع وابستہ کر لی جائے۔ آم کے درخت کی جگہ آم ہی کا درخت لگے گا تو پھل ملے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں