اس میں دو رائے نہیں کہ عمران خان 2018ء میں مقتدرہ کی معاونت کے بغیر وزیراعظم نہیں بن سکتے تھے۔ اس مقصد کے لیے نہ صرف انتخابات سے پہلے بلکہ پولنگ کے دوران اور اس کے بعد بھی ایسا ماحول پیدا کیا گیا جس کا واضح مقصد پی ٹی آئی کو اپنی حریف جماعتوں پر سبقت دلانا تھا۔ مثلاً ایک متنازع عدالتی فیصلے کے ذریعے میاں نواز شریف کو نہ صرف وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے علیحدہ کر دیا گیا بلکہ ان پر سیاست میں حصہ لینے پر تاحیات پابندی بھی عائد کر دی گئی۔ پھر 2018ء کے انتخابات کے شیڈول کے اعلان اور نگران حکومتوں کے قیام کے ساتھ ہی مسلم لیگ (ن) کی طرف سے یہ شکایات آنا شروع ہو گئیں کہ ان کے الیکٹ ایبل امیدواروں کو پارٹی وفاداری تبدیل کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ غیرملکی مبصرین نے بھی گلہ کیا کہ انہیں انتخابات کا جائزہ لینے کے لیے بروقت پاکستان کے ویزے جاری نہیں کیے گئے۔ پولنگ کے بعد جب نتائج جمع کرنے کا مرحلہ آیا تو آر ٹی ایس بیٹھ گیا۔ چھ سال گزرنے کے بعد بھی اس بات سے پردہ نہیں اٹھایا جا سکا کہ آر ٹی ایس اچانک کیوں بیٹھ گیا تھا اور بعض حلقوں کے نتائج 48 گھنٹوں سے بھی زیادہ تاخیر کا شکار کیوں ہوئے۔ وزیراعظم شہباز شریف کے ایک حالیہ بیان کے مطابق بانی پی ٹی آئی نے حکومت میں آنے کے بعد اپوزیشن کی طرف سے 2018ء کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے جو پارلیمانی کمیٹی بنانے کا وعدہ کیا تھا‘ اسے پورا نہ کیا گیا۔ پولنگ سے پہلے اور پولنگ کے دوران ایک پارٹی کے حق میں انتخابی نتائج کو متاثر کرنے کے لیے جو اقدامات کیے گئے‘ ان سے پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے میں تو کامیاب ہو گئی مگر وفاق میں اکیلے حکومت تشکیل نہ دے سکی بلکہ اسے دیگر پارٹیوں مثلاً ایم کیو ایم‘ (ق) لیگ اور بلوچستان عوامی پارٹی کے علاوہ آزاد حیثیت میں کامیاب ہونے والے امیدواروں کو ساتھ ملا کر مخلوط حکومت بنانا پڑی۔ ان پارٹیوں کو مرکز میں پی ٹی آئی کے ساتھ شامل کرنے کیلئے جس طاقت اور اثر و رسوخ کا استعمال کیا گیا اس کا اعتراف بعد ازاں ان پارٹیوں کے رہنمائوں نے خود کیا۔
پنجاب اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پی ٹی آئی کے مقابلے میں زیادہ نشستیں حاصل کی تھیں لیکن دیگر پارٹیوں‘ جن میں (ق) لیگ سرفہرست تھی‘ اور آزاد امیدواروں کو شامل کرکے پنجاب میں بھی اس کی حکومت بنا دی گئی۔ حکومت سازی کے عمل میں سہولت کاری فراہم کرنے کے علاوہ عمران خان کی حکومت کو نہ صرف اپنا اقتدار برقرار رکھنے بلکہ اندرونی اور بیرونی مشکلات پر قابو پانے کے لیے بھی مقتدرہ کی معاونت کی ضرورت پیش آئی۔ ایک مرتبہ عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ پارلیمنٹ میں جب کبھی کسی متنازع قانون سازی کا مرحلہ درپیش آتا تھا تو وہ اپوزیشن کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اداروں کی خدمات حاصل کرتے تھے۔ خارجہ محاذ پر چین اور سعودی عرب جیسے ممالک کے ساتھ تعلقات میں اگر تحفظات یا ناراضی پیدا ہوتی تو جنرل قمر جاوید باجوہ کی خدمات سے استفادہ کیا جاتا۔ کاروباری طبقے کو ٹیکس نیٹ میں آنے پر آمادہ کرنے کے لیے بھی ان کی خدمات حاصل کی گئیں۔ جنوری 2020ء میں سوئٹزر لینڈ میں ورلڈ اکنامک فورم کے موقع پر ایک انٹرویو میں خان صاحب نے کہا تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں ان کی حکومت غالباً پہلی حکومت ہے جسے مقتدرہ کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ ان کی جماعت کے رہنما اور وفاقی وزرا ایک پیج کی گردان کرتے نہیں تھکتے تھے۔ بعض کا کہنا تھا کہ مقتدرہ اور حکومت عمران خان کے دور میں جتنے قریب ہوئے اتنے کسی اور دورِ حکومت میں نہیں ہوئے۔ بانی پی ٹی آئی نے یہ بھی اعتراف کیا تھا کہ 2018ء میں ان کی پارٹی نے بغیر کسی ہوم ورک کے اقتدار سنبھالا تھا اور جب بھی انہیں اندرونی معاملات یا خارجہ تعلقات میں کسی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا تھاتو وہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی خدمات حاصل کرتے تھے۔
عمران خان کے پونے چار سالہ دورِ حکمرانی کے قریبی جائزے سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی قریب ترین معتمد شخصیت پر کلیتاً انحصار کرتے تھے جن کے بیانات‘ تقریروں‘ انٹرویوز‘ تحریروں اور صحافیوں سے بات چیت کی پوری چھان بین کے بعد بھی ریاست‘ حکومت‘ معاشرے یا معیشت کے بارے میں کسی ایسے وژن کو تلاش کرنا مشکل ہے جسے عمران خان سے منسوب کیا جا سکتا ہو۔ پہلے وہ مغرب‘ خصوصاً یورپ میں رائج سوشل ڈیمو کریسی کے پُرزور حامی تھے اور سماجی‘ سیاسی اور معاشی مسائل کے حل کے لیے اکثر ان ریاستوں کے نظام میں دیے گئے طریقوں کا حوالہ دیتے تھے لیکن جب وہ ملک کی اندرونی سیاست میں اُلجھتے گئے‘ ان پر روحانی رنگ غالب آتا گیا پھر انہوں نے 'ریاستِ مدینہ‘ کے قیام کے لیے اپنی جدوجہد شروع کر دی۔ شنید ہے کہ اپریل 2022ء میں تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد پی ٹی آئی کے بیانیے کی تشکیل میں بشریٰ بی بی کا اہم کردار تھا۔ اس دوران ایک آڈیو لیک ہوئی جس میں پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے ایک رہنما کو ہدایات دیتے ہوئے سنائی دیتی ہیں کہ عمران خان کی حکومت سے علیحدگی کو ایک سازش‘ اور اس سازش میں کلیدی کردار ادا کرنے پر جنرل باجوہ کو ''غدار‘‘ کے طور پر پیش کیا جائے۔ اطلاعات ہیں کہ پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم کا کنٹرول بھی انہی کے ہاتھ میں تھا اور اس ٹیم کے ارکان انہی سے ہدایات لیتے تھے۔ لیکن پی ٹی آئی کے اسلام آباد میں حالیہ احتجاج نے جلسے‘ جلوسوں اور لانگ مارچ‘ دھرنوں پر مبنی حکمت عملی کی ہوانکال دی ہے۔ سیاسی میدانِ جنگ میں پی ٹی آئی کے یہی دو اہم ہتھیار تھے‘ اس ناکامی کے بعد یوں لگتا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے لیے کوئی بڑا چیلنج کھڑا کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ اس لیے کچھ حلقوں کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ 26 نومبر پی ٹی آئی کا واٹر لُو (Waterloo) ثابت ہوگا‘ مگر ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کیونکہ عمران خان کی سپورٹ قائم ہے۔
واٹرلُو موجودہ بلجیم کا ایک علاقہ ہے جہاں 18جون 1815ء کو ایک تاریخی جنگ لڑی گئی تھی جسے جنگِ واٹرلُو کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہی وہ جنگ تھی جس میں فرانس کے بادشاہ نپولین کی فیصلہ کن شکست ہوئی تھی۔عمران خان کی سپورٹ کب تک قائم رہتی ہے‘ اس کا انحصار دو باتوں پر ہے کہ کیا عمران خان پارلیمانی جمہوریت کے فریم ورک میں اپنی جدوجہد جاری رکھنے کی نئی حکمت عملی پر اکتفا کر لیں گے؟ اور یہ کہ حکومت اس حوالے سے کیا رویہ اختیار کرے گی؟ اگر موجودہ سیٹ اَپ عمران خان کے ساتھ سیاسی کے بجائے ایڈمنسٹریٹو طریقے سے ڈیل کرنے کی کوشش کرے گا تو عمران خان ایک دفعہ پھر اس حکومت کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔