8 فروری کے عام انتخابات میں دیگر تمام جماعتوں کے مقابلے میں زیادہ نشستیں جیتنے کے بعدپاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان نے اعلان کیا تھا کہ اُن کی پارٹی‘ جس کے امیدواروں نے آزاد حیثیت میں انتخابات میںحصہ لیا تھا‘ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت نہیں بنائے گی اور اپوزیشن بنچوں پر بیٹھ کر اپنے دو بڑے مطالبات یعنی بانی پارٹی سمیت قیدیوں کی رہائی اور ''چوری شدہ مینڈیٹ‘‘ کی واپسی کے لیے تحریک کا آغاز کرے گی۔ پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات رؤف حسن نے اس کی یوں وضاحت کی کہ اُن کی پارٹی کی حکمت عملی تین ستونوں پر مبنی ہوگی۔ پارلیمنٹ کے اندر جدوجہد‘ قانونی جدوجہد اور پارلیمنٹ سے باہر آئینی احتجاج کے ذریعے حکومت اور اداروں پر دباؤ ڈالنا۔ گزشتہ تقریباً نو ماہ کے دوران پی ٹی آئی کی قیادت نے ان تینوں محاذوں پر اپنے مقاصد کیلئے جدوجہد کی مگر اس کا فوکس جلسوں‘ جلوسوں‘ مظاہروں اور لانگ مارچوں پر رہا ہے۔ اس محاذ پر زیادہ دباؤ ڈالنے کیلئے پی ٹی آئی نے پختونخوا ملی عوامی پا رٹی کے سربراہ کی قیادت میں چھ جماعتی اتحاد بھی قائم کیا اور اس کے زیراہتمام بڑے شہروں میں جلسے بھی کیے گئے۔ اس دوران تین دفعہ اسلام آباد کی جانب مارچ کیا گیا اور اس میں آخری اور حتمی احتجاجی جلوس 24 نومبر کو بانی پی ٹی آئی کی طرف سے اسلام آباد کے ڈی چوک پر دھرنا دینے کی کال تھی اور پارٹی قائدین کے مطابق اس دھرنے کو پارٹی کے بانی کی رہائی تک جاری رہنا تھا۔ 26اور 27نومبر کی رات کو رینجرز اور پولیس کے ایک مشترکہ آپریشن کے ذریعے محض 26منٹ میں ڈی چوک اور اس کے اردگرد علاقوں کو مظاہرین سے خالی کرا لیا گیا۔
بانی پی ٹی آئی کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور پر مشتمل جلوس کی مرکزی قیادت مظاہرین کو بے یارو مددگار چھوڑ کر موقع سے غائب ہو گئی اور یوں بانی پارٹی کی رہائی اور مینڈیٹ واپس لینے کیلئے‘ جو بانی پارٹی کے مطابق پی ٹی آئی کی فائنل کال تھی‘ ناکام ہو گئی۔ اس غیر متوقع اور اچانک ناکامی کے بعد پی ٹی آئی کے اندر اور باہر سے ایسی آرا کا اظہار کیا جا رہا ہے جن میں 26 اور 27 نومبر کی رات کو پیش آنے والے واقعے کو پی ٹی آئی کی احتجاجی سیاست کے خاتمے کا دن کہا جا رہا ہے‘ کہ اس کے بعد پی ٹی آئی جلسوں‘ جلوسوں‘ مظاہروں اور اسلام آباد پر چڑھائیوں کے ذریعے اپنے سیاسی مقاصد حاصل نہیں کر سکے گی۔ کیا یہ واقعی پی ٹی آئی کیلئے واٹر لُو ثابت ہوگا؟ اور کیا بانی پارٹی کے دوبارہ برسرِاقتدار آنے کا امکان ہمیشہ کیلئے ختم ہو گیا ہے؟ اور کیا پی ٹی آئی‘ جو بلاشبہ 27نومبر تک ملک کی سب سے بڑی‘ سب سے پاپولر اور مضبوط ترین پارٹی تھی‘ باہمی اختلافات‘ دھڑے بندیوں اور گروہوں میں تقسیم ہو کر اپنی سیاسی قوت کھو دے گی؟ ان سوالات کا جواب ڈھونڈنے سے پہلے ضروری ہے کہ اصل مسئلے یعنی بانی پی ٹی آئی کی سیاست کا ایک وسیع تر تناظر میں جائزہ لیا جائے۔
عمران خان نے اسلام آباد میں دھرنے کیلئے اپنا پہلا لانگ مارچ نواز شریف کی حکومت کے خلاف اگست 2014ء میں شروع کیا تھا۔ اس کی بنیاد 2013 کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کا الزام اور ان انتخابات کی صاف‘ شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کیلئے وزیراعظم نواز شریف کے استعفے کا مطالبہ تھا۔ لاہور سے اسلام آباد کیلئے روانگی اور اسلام آباد میں پہنچنے کے 126 دن بعد اس دھرنے کے اختتام تک قومی اور بین الاقوامی میڈیا میں اس دھرنے کو چوبیس گھنٹے کوریج حاصل تھی۔ نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ کی یہ تیسری باری تھی مگر پہلی دو باریوں (1990 تا 1993ء اور1997 تا 1999ء)کے مقابلے میں یہ ٹرم دو لحاظ سے منفرد خصوصیات کی حامل تھی۔ ایک یہ کہ ان کی حکومت ایسے انتخابات میں کامیابی کے بعد قائم ہوئی تھی جن کے بارے میں قومی اور بین الاقوامی آبزرورز کی متفقہ رائے تھی کہ 1988ء کے بعد پاکستان میں جتنے بھی انتخابات ہوئے‘ ان سب کے مقابلے میں 2013ء کے انتخابات نسبتاً صاف‘ شفاف اور غیر جانبدارانہ تھے۔ عمران خان کے مطالبے پر سپریم کورٹ نے دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کیلئے جو کمیشن قائم کیا‘ اس نے بھی اپنی رپورٹ میں کچھ پروسیجرل بے قاعدگیوں کے علاوہ ایسے منظم وسیع دھاندلیوں کے ثبوت ملنے سے انکار کیا‘ جو انتخابات کے نتائج پر اثر انداز ہو سکتے۔ دوسری اہم خاصیت یہ تھی کہ 2008ئکے انتخابات کے نتیجے میں وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے پانچ برس مکمل ہونے کے بعد پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک جمہوری قومی اسمبلی کی پانچ سالہ مدت مکمل ہونے کے بعد پُرامن طور پر انتقالِ اقتدار عمل میں آیا تھا۔ آئے دن حکومتوں کی تبدیلی‘ اسمبلیوں کے بار بار ٹوٹنے‘ چار دفعہ مارشل لائی ادوار کی ملکی تاریخ کے تناظر میں نسبتاً منصفانہ اور آزادانہ انتخابات اور منتخب قومی اسمبلی کی آئینی مدت پوری کرنے کے بعد اقتدار کی پُرامن منتقلی ایک خوش آئند اور جمہوریت کے ارتقا کیلئے ایک حوصلہ افزا اور مددگار پیشرفت تھی مگر پاکستان میں وہ قوتیں‘ جن کے مفادات کو جمہوریت کی ترقی پُرامن انتقالِ اقتدار کی روایت‘ آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی اور عوامی حاکمیت سے خطرات لاحق تھے‘ کیلئے یہ جمہوری روایات قابلِ قبول نہ تھیں۔ لہٰذا انہوں نے ان روایات کو پروان چڑھنے سے پہلے ہی جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا فیصلہ کیا اور اسی مقصد کیلئے اگست 2014ء میں لانگ مارچ اور اسلام آباد میں دھرنا دیا گیا۔ اس کے پس پردہ کردار کون تھے‘ اس راز سے اُس وقت ہی پردہ اُٹھ گیا جب دھرنے کے دوران پی ٹی آئی کے صدر جاوید ہاشمی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا اور بتایا کہ عمران خان نے انہیں خود کہا تھا کہ مقتدرہ نے انہیں یقین دلایا ہے کہ اگر وہ لاکھوں مظاہرین کو اسلام آباد میں لانے میں کامیاب ہو جائیں تو اُن کی مدد کی جائے گی۔ عمران خان کے پیشِ نظر شاید ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کے احتجاج(1977ء)کی مثال تھی جس کے نتیجے میں فوج نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور جنرل ضیا الحق نے اقتدار سنبھال لیا تھا۔ عمران خان کو خود بھی اپنی حمایت میں مقتدرہ کے اقدام کا اتنا یقین تھا کہ وہ بار بار امپائر کی انگلی کے اُٹھ جانے کا تذکرہ کرتے تھے۔
اسلام آباد کے ریڈ زون میں بآسانی داخلے‘ سکیورٹی فورسز کی طرف سے کسی قسم کی رکاوٹ نہ ڈالنے اور پی ٹی وی پر حملے سے احتجاجیوں کے حوصلے اور اعتماد میں مزید اضافہ ہوا۔ اس پرخان صاحب نے سمجھ لیا کہ عوام اُن کی کال پر حکومت کے خلاف ہر اقدام پر تیار ہیں۔ سول نافرمانی تحریک اور یوٹیلیٹی بل ادا نہ کرنے کی کال ان کے ضرورت سے زیادہ اعتماد کو ظاہر کرتی ہے۔ حتیٰ کہ انہوں نے بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو اپنی کمائی بینکوں کے ذریعے بھیجنے کے بجائے ہنڈی اور دیگر غیر قانونی ذرائع سے وطن بھیجنے کی اپیل کی لیکن نہ تو کہیں سول نافرمانی تحریک شروع ہوئی اور نہ ہی کسی نے اُن کے کہنے پر اپنے بل جمع کرانے سے انکار کیا۔ حتیٰ کہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں نے بھی ترسیلاتِ زر کے لیے غیر قانونی ذرائع اختیار نہ کیے۔ اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں تھا کہ عوام میں خان صاحب کی مقبولیت نہیں تھی۔ اس دوران ان کی پارٹی دو صوبوں یعنی پنجاب اور خیبر پختونخوا میں تیزی سے مقبول ہو رہی تھی اور خاص طور پر نوجوانوں میں پی ٹی آئی کے علاوہ کسی اور پارٹی میں کوئی کشش نہ تھی مگر عمران خان تبدیلی لانے کیلئے جن اقدامات کی خواہش رکھتے تھے‘ لوگ ان کے لیے تیار نہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ 126دن کا دھرنا دینے کے باوجود وہ نواز شریف حکومت کو مستعفی ہونے پر مجبور نہ کر سکے اور انہیں دسمبر 2014ء میں سانحہ اے پی ایس کے بعد اپنا دھرنا ختم کرنا پڑا۔ حالانکہ انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ اسلام آباد سے نواز شریف کا استعفیٰ لیے بغیر واپس نہیں جائیں گے۔ (جاری)