میں یہ راز کافی عرصہ ہوا جان چکا ہوں کہ اگر آپ کو زندگی میں کوئی لڑائی لڑنی پڑے تو اسے لڑنے کے دو ہی طریقے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ یہ لڑائی اس وقت لڑیں جب آپ سچ پر ہوں۔ آپ کو سو فیصد اپنے سچ پر یقین ہو اور آپ کے پاس سارے حقائق موجود ہوں۔ دوسرا راز یہ ہے کہ حالات جو بھی ہوں آپ اس سچ پر ڈٹے رہیں۔ میرا ماننا ہے کہ اگر آپ نے جھوٹ کے ذریعے کوئی جنگ لڑنی ہے تو وہ آپ کو فتح نہیں دلوا سکتی۔ اگر آپ جیت بھی گئے تو آپ کے اندر سے وہ خوشی کبھی نہیں ابھرے گی جس کا ہر بندے کو لڑائی کے انجام کے بعد انتظار ہوتا ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ بندہ سچائی کے ساتھ ہار جائے نہ کہ جھوٹ بول کر جیت جائے۔
یہ سب باتیں مجھے پی ٹی آئی کے چیئر مین بیرسٹر گوہر کی پریس کانفرنس سن کر یاد آرہی تھیں۔ پی ٹی آئی نے اب تک سوشل میڈیا اور ٹی وی پر جو بیانیہ بنایا تھا وہ جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوا۔ کہاں لطیف کھوسہ صاحب نے 278 لاشوں سے سلسلہ شروع کیا جو سو‘ پچاس سے ہوتا سینکڑوں لاشوں تک پہنچا اور آخرکار بیرسٹر گوہر نے اعلان کیا کہ وہ لاشوں کے ان تمام اعدادوشمار سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم پارٹی لیول پر صرف بارہ انسانی جانوں کے نقصان کو کنفرم کرتے ہیں۔ باقی جو کچھ کہا گیا ہے یا کہا جارہا ہے اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ اندازہ کریں کہ اتنی بڑی پارٹی کا یہ حال ہے کہ سینکڑوں لاشوں کا کہنے کے بعد اب کہہ رہے ہیں کہ ان خبروں میں کوئی حقیقت نہیں۔
وہی بات کہ پی ٹی آئی جھوٹ کا سہارا لے رہی تھی وہ ناکام رہا۔ پی ٹی آئی لیڈروں کا خیال تھا کہ اگر شروع میں دس بارہ لاشوں کا کہیں گے تو اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ پاکستان جیسے ملک میں بھلا دس بارہ بندے مرنے سے کیاہوتا ہے۔ یہاں درجنوں کے حساب سے تو لوگ سڑکوں پر حادثوں میں مارے جاتے ہیں۔ ستر ‘اسی ہزار بندہ تو دہشت گردی میں مارا گیا۔ ہم اگر دس بارہ لوگوں کی موت کا کہیں گے تو یہ بات لوگوں کے کانوں کے اوپر سے گزر جائے گی لہٰذا موقع بڑا اچھا ہے اور ہر طرف بھانت بھانت کی بولیاں بولی جارہی ہیں ‘ کوئی بڑا فگر دے دیں‘ آگ بھڑک اٹھے گی۔ نہ صرف پاکستان کے اندر ہنگامہ کھڑا ہو جائے گا بلکہ پاکستان سے باہر بھی بہت بڑا ردعمل آئے گا جسے سنبھالنا پاکستانی حکومت کے لیے مشکل ہو جائے گا۔ یہ کام لطیف کھوسہ صاحب نے شروع کیا جب ایک بڑے ٹی وی چینل کے شو میں بم پھوڑا اور کہا کہ 278 لوگ مارے گئے ہیں۔ کھوسہ صاحب کے اعتماد سے لگتا تھا کہ وہ شو میں آنے سے پہلے لاشیں گن رہے تھے اور ابھی ان لاشوں کی گنتی مکمل ہوئی ہے۔ جو لوگ اسلام آباد میں رہتے ہیں وہ کھوسہ صاحب کی اس بات پر ہنس رہے تھے کہ جب آپریشن ختم ہوا تو اس کے ایک گھنٹے بعد تو ڈی چوک کھل چکا تھا‘ اسلام آباد کی ٹریفک بحال ہوچکی تھی‘ رکاوٹیں ہٹائی جارہی تھیں۔ شاید خود کھوسہ صاحب کو بھی اندازہ نہ ہوگا کہ اگر جناح ایونیو اور ڈی چوک پر 278گولیوں سے چھلنی لاشیں پڑی ہوں تو وہاں کیا قیامت کا عالم ہوگا‘ لیکن وہاں تو ٹریفک نارمل ہوچکی تھی۔
سوال یہ ہے کہ لطیف کھوسہ جیسے بندے کو یہ فگر کس نے دیا جسے انہوں نے بلاجھجھک ٹی وی چینل پر بریک کر دیا اور اب پارٹی چیئرمین کہہ رہاتھا کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔ اب کھوسہ صاحب غائب ہیں۔ان سے پوچھنا چاہیے کہ آپ کی پارٹی تو صرف بارہ لاشوں کو مان رہی ہے تو باقی 266 لاشیں کہاں ہیں کیونکہ آپ تو وہ لاشیں خود گن کر آئے تھے؟ اگر آپ کی اپنی پارٹی ہی آپ کے دیے گئے فگرز پر یقین نہیں کرتی تو میڈیا یا لوگ کیسے کریں گے۔لطیف کھوسہ صاحب کوئی عام آدمی نہیں ہیں جنہیں کوئی بھی آسانی سے کسی غلط بیانی سے بیوقوف بناسکتا ہے۔وہ بہت پرانے وکیل ہیں۔ بینظیر بھٹو سے زرداری تک سب کے مقدمات لڑ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ اس ملک کے اٹارنی جنرل رہ چکے ہیں۔ وہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے دور میں ان کے مشیر تھے جن کا عہدہ وفاقی وزیر کے برابر تھا۔ سب سے بڑھ کر وہ گورنر پنجاب کے عہدے پر فائز رہے جو کہ بہت بڑا اعزاز سمجھا جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے چھ سال تک سینیٹر بھی رہ چکے ہیں اور اب ایک بڑی پارٹی کے ایم این اے ہیں۔ لاہور میں دو ڈھائی لاکھ لوگوں نے انہیں اپنا نمائندہ مقرر کیا ہے۔ اگرچہ سارا ووٹ انہیں عمران خان کی وجہ سے پڑا ہے اور وہ لاہور کی سیٹ سے جیتے ہیں۔ کتنے بڑے بڑے مقدمات میں وہ پیش ہوتے رہے ہیں۔ کیا اس لیول کے بندے کو یہ غیرذمہ دارانہ بات کرنی چاہیے تھی؟ کیا ایسا بیان دینا چاہیے تھا جس سے ملک میں آگ لگ جاتی اور ہنگامے شروع ہوجاتے۔ شاید یہی مقصد تھا کہ لوگ یہ سن کر گھروں سے باہر نکل آئیں گے اور یوں پی ٹی آئی جو مقصد چوبیس نومبر کی کال سے حاصل نہ کرسکی وہ اس بیان سے پورا کر لے گی کہ ایک رات میں‘ ایک گھنٹے میں 278لوگ گولیوں سے مارے گئے تھے۔
فرض کر لیں لطیف کھوسہ اور باقی پی ٹی آئی کے ان جھوٹے فگرز کے بعد ہنگامے شروع ہو جاتے تو کیا ہوتا؟ مزید لوگ مرتے‘ گھروں‘ دکانوں کو جلایا جاتا۔ خون کی ہولی کھیلی جاتی۔ اور جب تک پتا چلتا کہ یہ فیک نیوز تھی اس وقت تک تباہی ہوچکی ہوتی۔ کیونکہ اس کال کے شرکاکی اکثریت خیبرپختونخوا سے آئی تھی لہٰذا جب اس خبر نے پھیلنا تھا تو زیادہ ردعمل بھی اس صوبے کے عوام سے ہی آنا تھا۔جب آپ اس صوبے سے آئے لوگوں کے بارے میں یہ کہیں گے کہ پونے تین سو لوگ اسلام آباد میں مارے گئے تویقینا وہاں پانچ ہزار تو زخمی بھی ہوں گے۔ یوں ایک نئی آگ بھڑک جانی تھی جس نے اسلام آباد کے علاوہ جہاں خیبرپختونخوا میں تشدد کو ہوا دینی تھی‘ پنجاب میں بھی ردعمل آنا تھا۔ پنجاب میں پہلے بھی لوگ باہر نہیں نکلے جس کا پی ٹی آئی کو بڑا دھچکا لگا۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی پی ٹی آئی قیادت میں پہلے اس احتجاج کے معاملے پر سنگین اختلافات ہیں۔ پنجاب کی قیادت دھرنوں‘ مارکٹائی اور تشدد سے دور رہنے کو ترجیح دے رہی ہے۔سلمان اکرم راجہ ریکارڈ پر کہہ چکے ہیں کہ انقلاب آٹھ دس ہزار بندوں سے نہیں آئے گا۔ ہمیں لمبے سیاسی مرحلوں کے بعد تبدیلی لانا ہوگی۔ لیکن اس بات پر خیبرپختونخوا تیار نہیں۔ وہ عمران خان کی ' مارو یا مرجائو‘پالیسی پر چل رہے ہیں جس کا نتیجہ سامنے ہے۔
اگر کھوسہ صاحب جیسا بندہ‘ جو اعلیٰ عہدوں پر فائز رہا ہے اور اب بھی ایم این اے ہے‘ وہ ٹی وی پر بیٹھ کر اتنا بڑا جھوٹ بول رہا ہے اور اس جھوٹ کو پی ٹی آئی خود پھیلا رہی تھی‘ اس کے بعد بندہ کس سے گلہ کرے۔ فرض کریں اگر پورے ملک میں آگ لگ جاتی تو کیا اس ملک میں لطیف کھوسہ کا اپنا گھر نہیں ہے؟ پی ٹی آئی والے جو فیک نیوز اور جعلی تصویریں پھیلا رہے تھے وہ یاد رکھیں جب دنگے فسادات ہوتے ہیں تو اس میں کوئی نہیں دیکھتا‘ نہ کسی کو پتہ ہوتا ہے کہ جلنے والا گھر پی ٹی آئی والے کا ہے یا ان کے مخالفین کا۔ہجوم سب کچھ جلا کر راکھ کر دیتا ہے۔ شکر کریں آپ کے278 والے جھوٹ کے باوجود یہ ملک‘شہر اور سب سے بڑھ کر آپ کے اپنے گھر جلنے سے بچ گئے ہیں۔
راحت اندوری کا شعر یاد آتاہے:
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے