انگریز جاتے جاتے ہی گئے اور اُن کے جانے کا ہندوستان کو خاصا انتظار کرنا پڑا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد 1948ء سے 1958ء تک ملک میں ایسی سیاسی افراتفری رہی کہ آج بھی اُس زمانے کی روداد پڑھیں تو حیرانی ختم نہیں ہوتی۔ اس دس سالہ دور نے ہماری اجتماعی سیاسی قابلیت کو ننگا کر کے رکھ دیا ۔ اتنے لیڈران کرام تھے‘ اتنے وزیراعظم اور اس سارے ٹولے میں پاکستانی قوم کو کوئی قابلِ قدر لیڈر نہ ملا۔ یہ دور ختم ہوا تو ایوب خان آ گئے اور یہ اقتدار میں آئے تو جانے کا نام نہ لیا۔ اس ملک کی جان انہوں نے چھوڑی تو قوم کو تحفے میں یحییٰ خان ملے اور اُنہوں نے اپنے دورِ اقتدار میں ایسے گل کھلائے کہ ہم جیسے گناہگاروں کو اُن کی رنگینیوں پر رشک آتا ہے۔ بھٹو کے بعد ضیاالحق آئے تو اُنہوں نے اس قوم کو دوبارہ مسلمان بنانے کی ٹھانی۔ گیارہ سال اس قوم کی گردن پر بیٹھے رہے اور پروردگار اُنہیں مزید زندگی بخشتا تو انہوں نے اقتدار سے چمٹے رہنا تھا۔ ان سب ادوار میں قوم کو انتظار کرنا پڑا کہ ان ادوار کے زعما کب جاتے ہیں اورکب کسی نئے سورج کے طلوع ہونے کی نوید ملتی ہے۔ موجودہ دور بھی انتظار کا ہے اور قوم کے سامنے امتحان یہ ہے کہ انتظار کی گھڑیاں کیسے گزارنی ہیں۔
قوم کا مستقبل نہیں جانتے لیکن اپنا ذاتی مستقبل ہمیں صاف نظر آ رہا ہے۔ اگرپروردگار نے مزید زندگی بخشی تو ہماری بقیہ زندگی ایک عدد ایکسٹینشن کی مار رہ جائے گی۔ عمر اب پچھتر سال ہونے کو ہے‘ ایکسٹینشن کا حساب ساتھ جوڑیں توکیا رہ جاتا ہے؟ ضیاالحق وغیرہ کے دور میں تو امید رہتی تھی کہ بہتری آئے گی اور قوم کا مستقبل روشن ہو گا۔ اس عمر میں اب ہم بہتری کی کیا امید رکھیں؟ ہمارا حال تو استاد ذوق والا ہے:
جاتے ہوائے شوق میں ہیں اس چمن سے ذوقؔ
اپنی بلا سے بادِ صبا اب کبھی چلے
تو بادِ صبا چلتی رہے‘ ہمارے کس کام کی ہو گی؟ بھٹو اس ملک کو ایک نئی جہت دے سکتے تھے لیکن ایک تو وہ اپنے ہندوستان کے خبط سے نہ نکل سکے اور اُن کے دور میں بھی ہندوستان سے تعلقات خراب رہے۔ لیکن اُس سے بھی بڑی بات یہ کہ نعرے تب لگتے تھے ایشیا سرخ ہے اور حالت یہ کہ ملک کو ضیاالحق کے حوالے کر گئے۔ حوالے اس لحاظ سے کہ 1977ء کی دھاندلی کی جَھک نہ مارتے تو شاید سیاسی بحران پیدا نہ ہوتا اور کسی کو اقتدار پر قبضہ کرنے کا موقع نہ ملتا۔ یہاں یاد رکھنا چاہیے کہ کوئی سویلین حکمران دھاندلی افورڈ نہیں کر سکتا۔ کرے تو ہضم کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ قوم نے دھاندلی کرنے اور نبھانے کا راز سمجھ لیا ہے۔
دوسرا موقع قوم کو نئی جہت دینے کا‘ عمران خان کو ملا۔ اپنے تین ساڑھے تین سالہ دورِ اقتدار میں بہت کچھ کرسکتے تھے لیکن باجوہ جیسوں کو بغل میں رکھا جوکہ بہت بڑی حماقت تھی۔ سیاست کا تو پہلا اصول ہے کہ جس سیڑھی سے آپ اقتدار کے چکنے بمبو پر چڑھتے ہیں اُسی سیڑھی کو پہلے لات مارنی چاہیے نہ کہ اُس سیڑھی سے آپ چمٹے رہیں۔ عمران خان سہولت کاری کی سیڑھیوں سے چمٹے رہے اور اس حد تک کہ انہی سیڑھیوں سے وہ دھڑام سے نیچے گرے۔ اور کیا بیکار کے لوگ اپنے گرد اکٹھے رکھے۔ بزدار جیسا شخص کسی گنتی میں آتا ہے؟ لیکن تمام عرصہ وہ ان کے منصب دارِ پنجاب رہے۔ کے پی میں بھی ایک نمونے کا بطور چیف منسٹر انتخاب ہوا۔ کہاں وہ کرکٹ کے میدان کی کہانیاں کہ ٹیلنٹ کو جانچنے کی نظر رکھتے تھے اور کہاں سیاست کا یہ مزاحیہ کھیل جہاں ٹیلنٹ بزدار جیسوں میں ہی نظرآیا۔
لیکن کیا کہیں کہ اس وقت عوامی لیڈر کوئی ہے تو عمران خان ہی ہے۔ (ن) لیگ کی حالت ایک چلے ہوئے کارتوس کی ہے۔ سیاسی افادیت رہی نہیں‘ دیکھا جائے تو پنجاب سے بھی فارغ ہو چکے ہیں۔ یہ تو اگلوں کی مہربانی ہے کہ چلے ہوئے کارتوسوں کو نمائشی قسم کا اقتدار مل گیا ہے۔ نمائشی ہی ہے کیونکہ اصل کی بات کریں تو کہانی نہ صرف لمبی بلکہ ذرا پیچیدہ ہو جاتی ہے۔ پیپلز پارٹی اس انتظار میں ہے کہ (ن) لیگ کا بیکارپن اس حد تک ثابت ہو جائے کہ فیصلہ ساز پیپلز پارٹی پر انحصار کرنے کو مجبور ہو جائیں۔ اور اس مجبوری کے عالم میں بلاول بھٹو زرداری کو اس بے چارے ملک کا وزیراعظم بنادیا جائے۔ اور کوئی ایجنڈا پیپلز پارٹی کے سامنے نہیں ہے۔ اور زرداری صاحب کی بھی یوں سمجھئے آخری خواہش ہے۔ خود دو بار اس ملک کے صدر بن گئے ہیں اور یہ بات بھی کسی معجزے سے کم نہیں لیکن اب وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ اُن کی زندگی میں ان کا بیٹا اپنے نانا اور اپنی ماں کی تقلید کرے۔
آج کل کراچی جانا نہیں ہوتا‘ نہیں تو بڑا دل کرتا ہے اپنے اُردو بولنے والے دوستوں سے پوچھوں کہ سنہ 47ء سے پہلے جو طوفان برپا کیا گیا اُس کے محرکات اور مقاصد کیا تھے۔ سچ پوچھئے تو اب تک یہ ماجرا سمجھ نہیں آیا۔ دلوں میں کون سی خلش تھی‘ ذہنوں میں کیا فکر تھی‘ جس کی بنا پر وہ تاریخ ساز فیصلے ہوئے۔ نتیجہ اُن فیصلوں کا ہمارے سامنے ہے۔ اب تو کسی بھول کی گنجائش رہی نہیں کیونکہ پچھتر چھہتر سال بعد اُس تجربے کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ ناکامی اور کامیابی کا موازنہ اہلِ دانش خود کر سکتے ہیں۔ میں غریب اور لاچار جب ان سوالات پر غور کرتا ہوں تو حیرانی بڑھتی جاتی ہے۔ یہ کہنا جیسا کہ کہا جاتا تھا کہ ہم اور وہ مختلف ہیں‘ ہمارا رہن سہن مختلف‘ ہمارا اٹھنا بیٹھنا مختلف‘ چھوٹے پن کی دلیل نظر آتی ہے۔ امریکہ میں ہر ملک سے لوگ آئے ہوئے ہیں۔ اُن کی سیاہ فام آبادی بھی خاصی بڑی ہے۔ وہ تو نہیں کہتے کہ فلاں ہم سے مختلف ہیں اور اُن کے ساتھ رہنا محال ہے۔ انگلستان نے کتنے باہر کے لوگ قبول کیے ہیں۔ پچھلا وزیراعظم اُن کا ایک ہندو تھا۔ لیبر پارٹی کی موجودہ لیڈر نائیجیریا کی ایک سیاہ فام ہے۔ ہم کمال کے لوگ تھے کہ آٹھ سو سال سارے ہندوستان پر حکومت کی اور جب وقت نے کروٹ لی تو جمہوریت کے مسلمہ اصولوں سے خوف کھانے لگے۔ اگر یہ ہمارے ورثے میں تھا تو کوئی عجب نہیں کہ جمہوری اصولوں کو سمجھنے میں ہمیں اتنی دِقت محسوس ہوتی ہے۔
چھوٹے پن کا کیا علاج ہے‘ محدود سوچ کا کیا علاج ہے؟ کیا کہتے ہیں ہم کہ نظریات کا یہ قلعہ ہے۔ قلعے کی بات کریں تو رونا آتا ہے‘ نظریات کی بات چھڑے تو ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔ مسئلہ البتہ یہ ہے کہ جہاں ہر چیز کا متبادل ہو سکتا ہے جو خطۂ زمین ہمارے ورثے میں آیا ہے اُس کا کوئی متبادل نہیں۔ جوان لوگ تو باہر کی سوچ رکھ سکتے ہیں‘ اس عمر میں ہم تو کسی باہر کے پٹرول پمپ پر کام کر سکتے ہیں نہ کسی میکڈونلڈ پر نوکری۔ ہم نے تو یہیں رہنا ہے‘ اسی لیے بہتری کی اُمنگ اسی خطے کے حوالے سے ہے نہ کہ کسی اور جگہ سے۔ بادِ صبا چلے تو یہیں۔ شبِ مہتاب بھی بھلی یہیں لگے۔
اتنا تو حق یہاں کے لوگو ںکو ہونا چاہیے کہ خود فیصلہ کریں کہ کن سیاسی سوداگروں نے ان پر بیٹھنا ہے۔ مسیحا نہ تھا نہ ہے لیکن روزمرہ کے معاملات تو چلنے ہی ہیں۔ یہ کس نے چلانے ہیں؟ کوئی تو والی وارث ہو اس قوم کا۔ تجربات ہو رہے ہیں لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ سب ناکام چل رہے ہیں۔ سیاست کی طرف واپس آنا پڑے گا اور کہیں نہ کہیں عوام سے رجوع کرنا پڑے گا۔ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اور جو عوام کی ترجمانی کے دعویدار ہیں کچھ اپنے تجربات سے سیکھیں اور کچھ وقت کا انتظار کریں۔ اپنی صفیں درست رکھیں اور بیکار کی کارروائیوں میں توانائیاں برباد نہ کریں۔ یہ وقت بھی گزر جائے گا۔