عربی کا مقولہ ہے: ''مَنْ اَحَبَّ شَیْئًا اَکْثَرَ ذِکْرَہٗ‘‘ ترجمہ: جو جس چیز سے محبت کرتا ہے‘ وہ اس کا ذکر کثرت سے کرتا ہے۔ اگر اس اصول پر پرکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے حد درجہ محبت تھی۔ سورۂ توبہ کی آیت 40 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اگر تم نے اُس (رسول) کی مدد نہ کی تو بیشک اللہ اُن کی مدد کا فیصلہ کر چکا ہے‘ جب کافروں نے انہیں اس حال میں بے وطن کیا کہ وہ دو میں سے دوسرے تھے‘ جب وہ دونوں غار میں تھے‘ جب وہ اپنے 'صاحب‘ سے فرما رہے تھے: تم غم نہ کرو‘ بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ پس اللہ نے اُن پر اپنی قلبی طمانیت نازل فرمائی اور ایسے لشکروں سے اُن کی مدد فرمائی جن کو تم نے نہیں دیکھا اور (آخرِ کار اللہ نے) کافروں کے کلمۂ کفر کو مغلوب کر دیا اور (انجامِ کار) اللہ کا کلمۂ حق ہی بلند و بالا رہے گا اور اللہ سب پر غالب‘ بڑی حکمت والا ہے‘‘۔
اس آیۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے مختلف انداز سے چھ بار حضرت ابوبکر صدیقؓ کا ذکر فرمایا ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے: تین مقامات میں دونوں کا ذکر ایک ہی کلمے میں ہے اور وہ ہیں: (1) 'اِثْنَیْن‘ (دو‘ یعنی ایک رسول اللہﷺ اور دوسرے حضرت ابوبکر صدیقؓ)‘ (2) ضمیرِ تثنیہ'ھُمَا‘ (وہ دونوں یعنی ایک رسول اللہﷺ اور دوسرے ابوبکر صدیقؓ)‘ (3) 'مَعَنَا‘ (ہمارے ساتھ) میں 'نَا‘ بمعنی ہم‘ ضمیر جمع متکلم‘ (یعنی ایک رسول اللہﷺ اور دوسرے ابوبکر صدیقؓ)۔ تین مقامات میں رسول اللہﷺ کا ذکر جدا ہے: (1) 'ثَانِیْ‘ (دوسرے)، (2) 'یَقُولُ‘ (وہ کہہ رہے تھے) صیغہ واحد غائب‘ اس سے رسول اللہﷺ مراد ہیں، (3) 'لِصَاحِبِہٖ‘ میں 'ہ‘ ضمیرِ متصل‘ اس سے رسول اللہﷺ مراد ہیں۔ اسی طرح حضرت ابو بکر صدیقؓ کا ذکر بھی تین مقامات پر جدا ہے : (1) 'لِصَاحِبِہٖ‘میں 'صاحب‘ سے مراد تعیین کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیقؓ ہیں۔ مفسرین کرام نے لکھا: چونکہ حضرت ابوبکرؓ کا صحابی ہونا قرآنِ کریم میں منصوص ہے‘ اس لیے آپ کی صحابیت کا انکار کفر فقہی ہے۔ (2) 'لَا تَحْزَنْ میں واحد مذکر مخاطب کی ضمیرِ مستتر 'اَنْتَ‘اس سے حضرت ابوبکر صدیقؓ مراد ہیں‘ (3) 'فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلَیْہِ‘ میں 'ہ‘ ضمیر متصل‘ اس سے بھی حضرت ابوبکر صدیقؓ مراد ہیں‘ کیونکہ غم انہیں لاحق تھا‘ مگر یہ غم اپنی ذات کیلئے نہیں بلکہ رسول اللہﷺ کی حفاظت کیلئے تھا۔ اس کے علاوہ پوری آیت میں چار جگہ نبی کریمﷺ کا ذکرِ مبارک مزید بھی ہے: (1) 'اِلَّا تَنْصُرُوْہٗ‘ اور 'فَقَدْ نَصَرَہٗ‘ اور 'اِذْاَخْرَجَہٗٗ اور 'وَاَیَّدَہٗ‘ میں چار بار 'ہٗ‘ ضمیرِ متصل کا ذکر ہے اور ان ضمائر کا مصداق تعیین کے ساتھ رسول اللہﷺ کی ذاتِ گرامی ہے‘ الغرض اس ایک آیۂ مبارکہ میں مجموعی طور پر رسول اللہﷺ کا ذکر دس مرتبہ آیا ہے۔
سفرِ ہجرت میں ابوبکر صدیقؓ کی رسول اللہﷺ کے ساتھ رفاقت اور غارِ ثور میں بلاشرکتِ غیرے معیّتِ مصطفیﷺ ایسا بے مثال شرف ہے کہ اس کے مصداق میں اہلِ سنت اور اہلِ تشیع کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کا اس ایک آیت میں رسول اللہﷺ اور آپ کے رفیقِ غار حضرت ابوبکر صدیقؓ کا بالترتیب دس بار اور چھ بار مدح کے طور پر ذکر کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ دونوں ہستیاں اللہ تعالیٰ کو محبوب ہیں۔ یہی معیت و رفاقت آج روضۂ انور میں بھی ہے اور یقینا حشر و جنت میں بھی ہو گی۔ امام رازی نے لکھا ہے: اللہ تعالیٰ نے النساء: 69میں انعام یافتہ طبقات کا ذکر فرمایا اور اُس میں ' مقامِ نبوت‘ کے بعد 'مقامِ صدیقیت‘ کو بلافصل بیان کرکے بتا دیا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک نبوت کے بعد صدیقیت اعلیٰ ترین منصب ہے‘ اسی طرح آپﷺ کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خلافت بھی بلا فصل ہے ۔ قرآنِ کریم میں رسول اللہﷺ کی ہجرت کا پس منظر ان کلمات میں بیان ہوا ہے: ''اور (اے رسولِ مکرّم! ) یاد کیجیے: جب کفار آپ کے خلاف سازشیں کر رہے تھے کہ آپ کو قید کر دیں یا شہید کر دیں یا جلاوطن کر دیں‘ وہ اپنی سازشوں میں مصروف تھے اور اللہ اپنی خفیہ تدبیر فرما رہا تھا اور اللہ تعالیٰ سب سے بہتر خفیہ تدبیر فرمانے والا ہے (الانفال:30)‘‘۔
امام ابن جریر اپنی سند کے ساتھ حضرت ابن عباسؓ سے روایت کرتے ہیں: قریش کے قبائلی سردار 'دارالندوۃ‘ (مجلسِ شوریٰ) میں جمع ہوئے‘ وہاں ابلیس ایک بزرگ شخص کی صورت میں آیا۔ قریش کے سرداروں نے اس کو دیکھ کر پوچھا: تم کون ہو‘ اس نے کہا: میں شیخِ نجد ہوں‘ میں نے سنا ہے کہ تم یہاں کسی اہم مسئلے پر مشورے کیلئے جمع ہو‘ میں نے چاہا کہ میرا مشورہ بھی اس معاملے میں شامل ہو جائے۔ انہوں نے کہا: ٹھیک ہے تم بھی آجاؤ۔ شیخِ نجد نے کہا: تم اس شخص کا کوئی مؤثر بندوبست کرو ورنہ یہ تمہارے معاملات پر قابض ہو جائے گا۔ کسی نے کہا: اس شخص کوقید کر لو‘ پھر حوادث روزگار کا انتظار کرو حتیٰ کہ یہ ہلاک ہو جائے‘ جیسا کہ اس سے پہلے اور شعرا مثلاً زہیر اور نابغہ ہلاک ہو چکے ہیں۔ شیخ نجد نے چلا کر کہا: نہیں نہیں‘ یہ رائے بالکل ناپختہ ہے‘ اگر تم نے اس کو قید کر لیا تو اس کا رب اس کو قید سے نکال لائے گا اور اس کے اصحاب اس کو تمہارے ہاتھوں سے چھڑا لیں گے۔ پھر انہوں نے مزید سوچ بچار کیا۔ کسی نے کہا: اس کو شہر بدر کر دو حتیٰ کہ تم سب کو اس سے نجات مل جائے۔ شیخ نجد نے کہا: یہ رائے بھی ٹھیک نہیں ہے‘ کیا تم کو اس کی زبان دانی‘ طلاقتِ لسانی اور دلوں میں اترنے والی شیریں بیانی کا علم نہیں ہے۔ یہ جہاں بھی ہوگا‘ اپنا ایک جتھا بنالے گا‘ پھر تم پر حملہ کر کے تم سب کو ملیامیٹ کردے گا‘ سو کوئی اورمنصوبہ بنائو۔ تب ابوجہل نے کہا: میں تمہیں ایک ایسا مشورہ دیتا ہوں کہ تم نے اس سے بہتر مشورہ پہلے نہیں سنا ہوگا۔ سب نے پوچھا: وہ کیا ہے؟ ابوجہل نے کہا: ہم ہر قبیلے سے ایک کڑیل نوجوان اور ایک پختہ جوان کو لے لیں‘ ہر ایک کے ہاتھ میں ایک برہنہ تلوار ہو اور سب مل کر یکبارگی ان پر ٹوٹ پڑیں اور جب سب مل کر ان کو قتل کر دیں گے تو ان کا خون ہر قبیلے کے ذمہ ہو گا اور مجھے یقین ہے کہ بنو ہاشم قریش کے تمام قبائل سے جنگ نہیں کر سکیں گے۔ پھر جب وہ قصاص لینے میں مشکل محسوس کریں گے تو دیت لینے پر راضی ہو جائیں گے اور ہم کو ان کی ایذا رسانی سے نجات مل جائے گی۔ شیخ نجد نے بے ساختہ کہا: بخدا یہی وہ صحیح اور صائب رائے ہے جو اس شخص نے پیش کی ہے‘ اس کے علاوہ (ان سے نجات کا) کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ پھر وہ نبیﷺ کو قتل کرنے کا عزم لے کر اٹھے اور اس مجلس سے منتشر ہو گئے۔ اس اثنا میں حضرت جبرئیل نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپﷺ کو اللہ تعالیٰ کا یہ حکم پہنچایا کہ آپ آج رات اپنے بستر پر نہ گزاریں‘ پھر آپ کو مدینہ منورہ ہجرت کی اجازت مل گئی اور جب آپﷺ مدینہ منورہ پہنچ گئے تو آپ پر سورۃ الانفال نازل کی اور اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں آپ پر اپنی نعمتوں کو یاد دلایا اور یہ آیت (الانفال:30) نازل فرمائی‘‘ (جامع البیان، جز:9،ص:300 تا 301)۔
چنانچہ ہجرت کی شب رسول اللہﷺ نے حضرت علیؓ کو اپنے بستر پر لٹایا اور ہدایت کی کہ اہلِ مکہ کی جو امانتیں آپﷺ کے پاس تھیں‘ وہ انہیںواپس کر دیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایسے عالَم میں جب قریشِ مکہ آپﷺ کی جان کے درپے تھے‘ تب بھی اُن کی نظر میں مکہ کی سرزمین پر آپﷺ سے زیادہ کوئی امین نہیں تھا‘ اس لیے وہ اپنی امانتیں آپ کے پاس رکھا کرتے تھے۔ پس آپﷺ نے اہلِ مکہ کی امانتیں لوٹانے کیلئے حضرت علیؓ کو امین بنایا اور سفرِ ہجرت کی تیاری اور رفیقِ سفر بنانے کیلئے امین حضرت ابوبکر صدیقؓ اور ان کے خاندان کو بنایا۔ اس راز داری میں ان کی اہلیۂ محترمہ‘ ان کی صاحبزادی‘ ان کے صاحبزادے اور ان کے غلام‘ سب شریک تھے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ رسول اللہﷺ کی ذاتِ گرامی کو نہ صرف حضرت ابوبکر صدیقؓ بلکہ آپ کے پورے گھرانے پر بھرپور اعتماد تھا اور پورے مکہ میں یہ واحد خاندان تھا جو رسالت مآبﷺ کے سفرِ ہجرت میں آپ کا معین و مددگار بھی تھا اور ساری معلومات کا امین بھی تھا۔