نومبر کے آخری ہفتے‘ جب میں ملتان سے روانہ ہوا تو موسم کا حال خلافِ معمول تھا‘ درجہ حرارت کی صورتحال نومبر کے آخر میں بھی ایسی تھی کہ جیسی کسی زمانے میں اکتوبر کے وسط میں ہوتی تھی۔ دن قابلِ برداشت گرم اور رات نسبتاً خوشگوار۔ ورنہ نومبر کے آخر میں تو اچھی خاصی سردی آ جاتی تھی۔ رات کو کوئی گرم کپڑا پہنے بغیر شام کو باہر نکلنے کا سوچنا بھی محال ہوتا تھا مگر ہمارے اندھا دھند درخت کاٹ کر رہائشی سکیمیں بنانے کے فارمولے نے سارے علاقے کا صدیوں پرانا موسمی پیٹرن بدل کر رکھ دیا ہے۔ گلوبل وارمنگ نے ہمیں اپنی عادت اور حرکات سے آگاہ کرتے ہوئے اس میں تبدیلی کی وارننگ دی ہے مگر حضرت انسان سے زیادہ ڈھیٹ جاندار مالکِ کائنات نے کم از کم اس دنیا میں تو نہیں بھیجا۔ اس کی یہ ڈھٹائی اس کا وصف بھی ہے اور خامی بھی۔شہروں کے ساتھ آباد گائوں اور ان سے متصل باغات اور کھیت سب کے سب قصۂ پارینہ بنتے جا رہے ہیں۔ درخت کٹ رہے ہیں اور کھیت ختم ہو رہے ہیں۔ سبزہ کم سے کم تر ہوتا جا رہا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث پھیلتے ہوئے شہروں نے قریبی گائوں اپنی شکم سیری میں ناپید کر دیے ہیں۔ بقول محسن نقوی مرحوم:
کبھی تو محیطِ حواس تھا‘ سو نہیں رہا
میں تیرے بغیر اداس تھا‘ سو نہیں رہا
میں شکستہ دل ہوں صفِ عدوکی شکست پر
وہ جو لطفِ خوف وہراس تھا‘ سو نہیں رہا
میری وسعتوں کی ہوس کا خانہ خراب ہو میرا گائوں شہر کے پاس تھا‘ سو نہیں رہا
آبادی اورقابلِ کاشت زمین میں نسبتِ معکوس چل رہی ہے۔ آبادی کا سونامی تیزی سے بڑھ رہا ہے اورقابلِ کاشت زمین گھٹ نہیں بھی رہی تو کم از کم اس میں اضافے کا تناسب بڑھتی ہوئی آبادی کی نسبت بہت کم ہے۔ اس خراب تر صورتحال میں سب سے زیادہ نالائقی کا مظاہرہ زرعی سائنسدانوں کی طرف سے دیکھنے میں آ رہا ہے جنہیں موسمیاتی تبدیلیوں کا نہ تو احساس ہے اور نہ ہی وہ ان تبدیلیوں کے آنے والے دنوں میں فصلوں پر پڑنے والے مضر اثرات کے حوالے سے سوچ رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پوری دنیا میں وقوع پذیر ہونے والی موسمی تبدیلیوں کو عمومی طور پر اور ہمارے خطے میں ہونے والی موسمی تبدیلیوں کو خصوصی طور پر سامنے رکھتے ہوئے نئے موسمیاتی پیٹرن کے مطابق اجناس اور فصلوں کے بیج تیار کیے جائیں۔ صورتحال یہ ہے کہ مونگ‘ مسور‘ ماش اور چنے کی دال کی غالب مقدار بیرونِ ملک سے درآمد ہو رہی ہے۔ دیسی مسور تو خیر سے ناپید ہی ہو چکا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ کم پیداوار کے حامل روایتی دیسی مسور کی دیگر ترقی یافتہ اقسام سے پیوند کاری کے ذریعے مقامی طور پر مسور کے زیادہ پیداواری صلاحیت کے حامل بیج کی تیاری کے بجائے اس کا سیدھا سا حل یہ نکالا گیا کہ مسور بھی امپورٹ کر لیا جائے۔ یہی حال دیگر دالوں اور اجناس کا ہے۔ اس سال کپاس کی درآمد پر جو زرِ مبادلہ صرف ہوگا وہ ملکی معیشت کے مزید کڑاکے نکال دے گا۔
میں نے کئی ماہ قبل کہا تھا کہ کپاس کی فصل اور پیداوار کے بارے میں سارے حکومتی اندازے نقش برآب ثابت ہوں گے اور کپاس کا رقبہ حکومتی دعووں کے برعکس بہت کم ہوگا اور اسی حساب سے فصل بھی اندازوں سے بہت کم ہوگی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکومت کا سارا انحصار اور دارومدار محکمہ زراعت پر ہے۔ محکمہ تعلیم کا بیشتر بوجھ تو سرکار نے پرائیویٹ سیکٹر کے کندھوں پر ڈال دیا ہے‘ اب لے دے کر سرکار کا سب سے بڑا محکمہ‘ زراعت کا رہ گیا ہے۔ اس محکمے میں سب سے بڑا وِنگ''ایکسٹینشن‘‘ کا ہے۔ ایکسٹینشن والوں کا کام کاشتکار کی رہنمائی کرنا‘ انہیں جدید طریقۂ زراعت سے آگاہ رکھنا‘ موسمیاتی پیٹرن کے مطابق فصلات کی کاشت بارے گائیڈ کرنا‘ صوبے میں کاشت ہونے والی فصلات کا ڈیٹا اکٹھا کرنا‘ کاشتکاروں کو مختلف فصلات کی ترغیب دینا‘ سہولتیں فراہم کرنا اور زیرِ کاشت رقبے اور فصلات کا تخمینہ لگانا ہے۔ یہ سب کچھ کرنے کیلئے فیلڈ میں جانا پڑتا ہے‘ جان مارنا پڑتی ہے‘ گرمی سردی میں سروے کیلئے نکلنا پڑتا ہے۔ المختصر‘ کام کرنا پڑتا ہے اور سرکاری محکموں کا یہ حال ہے کہ وہ ایک سرائیکی محاورے کی عملی تصویر بن چکے ہیں۔ سرائیکی میں کام چور اور نکمے لوگوں کیلئے ایک محاورہ ہے کہ '' کَم جوان دی موت اے‘‘ یعنی کام کرنا جوان کیلئے موت کے مترادف ہے۔ محکمہ زراعت (ایکسٹینشن) کے ذمے جو اصل کام تھے وہ خاصے محنت طلب اور جان مارنے والے تھے۔ بھلا وہ کیسے سرانجام دیے جاتے؟ لیکن ظاہر ہے سرکاری اہلکار کام کرے یا نہ کرے‘ پیداگیری کرنا تو اس کا وہ حق ہے جو اسے سرکار کی نوکری اختیار کرتے ہی مل جاتا ہے۔ لہٰذا انہوں نے اپنا اصل کام ایک طرف رکھا اور وہ کام شروع کردیے جو سرا سر پیداواری‘ میرا مطلب ہے پیدا گیری سے جڑے ہوئے تھے۔
محکمہ زراعت ایکسٹینشن والوں نے کھیتوں میں جا کر کسان کی مدد اور فصل کا سروے کرنے کے بجائے بیج اور زرعی ادویات کی دکانوں پر چھاپے مار کر لوگوں کو ہراساں کرنا اور ان سے مال بٹورنا شروع کردیا۔آپ کہیں گے کہ جعلی بیج اور ملاوٹ والی زرعی ادویات کی روک تھام کرنا اور ان کے مرتکب افراد کو پکڑنا بھی تو زرعی ترقی کیلئے ناگزیر ہے۔ بالکل درست! لیکن ان کاموں کیلئے علیحدہ سے سرکاری ادارے موجود ہیں۔ مثلاً بیج کی کوالٹی چیک کرنے کیلئے ایک ادارہ فیڈرل سیڈ سرٹیفکیٹس اینڈ ریسرچ ڈپارٹمنٹ ہے۔ یہ ادارہ بیجوں کی منظوری‘ بیج کمپنیوں کی رجسٹریشن کے علاوہ سیڈ کمپنیوں کے پیدا کردہ بیجوں کی کوالٹی‘ جس میں ان کا خالص پن‘ اگائو کی شرح اور غیر منظور شدہ اقسام کے بیجوں کی روک تھام اور مارکیٹ میں فروخت ہونے والے بیجوں کی کوالٹی چیک کرنا‘ یہ کام کرتا ہے۔ یہ محکمہ کافی فعال بھی ہے اور اس کے پاس بہت زیادہ انتظامی اور قانونی اختیارات بھی ہیں۔ اسی طرح زرعی ادویات کی منظوری اور چیکنگ کیلئے ڈپارٹمنٹ آف پلانٹ پروٹیکشن موجود ہے‘ جو اسی کام کیلئے معرض وجود میں آیا اور یہ کام اس کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے کہ وہ ملک میں آنے والی اور بننے والی زرعی ادویات کا معیار‘ خالص پن اور کوالٹی کنٹرول کو مانیٹر کرے اور کسی چیز کے معیار سے کم ہونے یا غیر منظور شدہ اقسام کی زرعی ادویات کی صورت میں ان کے خلاف اقدامات کرے۔ ایسی صورت میں محکمہ زراعت ایکسٹینشن کو چاہیے کہ وہ اپنے مینڈیٹ کے مطابق کام کرے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ محکمہ زراعت ایکسٹینشن والے غیر معیاری اور جعلی بیجوں و زرعی ادویات کے معاملے میں علم ہونے کے باوجود ہاتھ باندھ کر کھڑے رہیں تاہم ان کی ترجیحات میں پہلا کام وہی ہونا چاہیے جو ان کو تفویض کیا گیا ہے نہ کہ اپنی ساری صلاحیتیں زرعی ادویات اور بیجوں کی دکانوں پر چھاپے مارنے میں صرف کر دیں۔
اس ملک میں چھاپے مارنا ہر اُس محکمے کا پسندیدہ کام ہے جسے اس سلسلے میں رتی برابر بھی مینڈیٹ حاصل ہے۔ یار لوگوں نے نو مئی کے معاملے میں ایسے ایسے بندوں کو پکڑ کر پیسے وصول کر کے چھوڑا ہے جن کا اس معاملے سے ہزار کلو میٹر دور کا بھی واسطہ بھی نہیں تھا۔ ہمارے ہاں کی صورتحال پر ایک لطیفہ ہے۔ جنگل میں ایک خرگوش سرپٹ بھاگا جا رہا تھا۔ کسی نے روک کر اس سراسیمگی کے عالم میں بھاگنے کی وجہ پوچھی تو خرگوش نے بتایا کہ جنگل کے بادشاہ نے قانون پاس کیا ہے کہ جن خرگوشوں کے 28 کے بجائے 34 دانت ہوں وہ اس کے اقتدار کیلئے منحوس ہیں‘ اس لیے ان کو پھانسی دے دی جائے۔ پوچھا کہ تمہارے کتنے دانت ہیں؟ خرگوش نے بتایا کہ 28 دانت ہیں۔ پوچھنے والے نے پھر اس طرح بھاگنے کی وجہ دریافت کی تو خرگوش نے بتایا کہ بادشاہ کے سپاہی اپنی آسانی کیلئے پہلے گولی مارتے ہیں اور پھر مردہ خرگوش کے دانت گنتے ہیں۔ قارئین ہم28 دانتوں والے وہ خرگوش ہیں جو 34 دانتوں والے خرگوشوں کے شبہے میں مارے جا رہے ہیں۔