"KMK" (space) message & send to 7575

احتیاط کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے

اس بات سے قطع نظر کہ یوکرین کے مزاحیہ اداکار صدر زیلنسکی نے عوامی مقبولیت کے حصول اور یورپ و امریکہ کے اکسانے پر اپنے سے کئی گنا طاقتور‘ اور عرصہ دراز تک اس کا باقاعدہ حصہ رہتے ہوئے اسے سمجھنے کے باوجود‘ روس کے خلاف احمقانہ اور اپنے ملک کیلئے تباہ کن سٹینڈ لے کر اپنی قبولیت کے زعم میں یوکرین کا بیڑہ غرق کروا لیا‘ امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے اوول آفس میں ہونیوالے توہین آمیز سلوک کا وہ ہرگز مستحق نہ تھا۔ اخلاقی اور سفارتی تقاضے بہرحال طے شدہ باہمی احترام کے اصولوں پر چلتے ہیں اور خاص طور پر دنیا بھر کو اخلاقیات کا سبق دینے‘ برابری کے حقوق کا پرچم بلند کرنے‘ دوسرے ممالک پر انسانی حقوق کی پامالی پر پابندیاں لگانے اور جمہوری اقدار کا ڈھول پیٹنے والے ملک کے صدر کو تو ہرگز اس رویے کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے تھا جس کا مظاہرہ صدر ٹرمپ نے کیا ہے۔
میں کسی طور یو کرینی صدرزیلنسکی کی ان حماقتوں کی حمایت نہیں کروں گا جو اس نے اپنے عوام کو بیوقوف بنانے کے بعد یورپی ممالک اور خاص طور پر امریکی شہ پر نیٹو میں شمولیت جیسے عاقبت نا اندیش فیصلے کے ذریعے اپنے ملک اور عوام کیلئے تباہی و بربادی کے پروانے پر دستخط کیے لیکن اس کیساتھ جو کچھ اس مہذب ملک کے صدر اور نائب صدر اور بعد ازاں وہاں کے میڈیا نے کیا‘ وہ اخلاقیات‘ تہذیب‘ مہمانداری اور سفارتی آداب کے حوالے سے باعثِ شرم تھا ۔
یہ دراصل دو صدور سے زیادہ چودھری اور مزارع کے درمیان نام نہاد برابری کی بنیاد پر ہونیوالی ملاقات تھی اور اس میں چودھری اپنی عالمی‘ اقتصادی‘ مالی اور عسکری طاقت کے زعم میں اپنے پاس آنے والے فریادی مزارع کے رہے سہے کپڑے اتارنے کی کوشش کر رہا تھا۔ یہ وہ مزارع تھا جس نے انہی چودھریوں کے بھروسے پر دوسرے چودھری کو آنکھیں دکھائی تھیں‘ وگرنہ روس اور یوکرین میں بھلا کیا جھگڑا تھا؟ یو کرین سہمے ہوئے کمزور چھوٹے بھائی کی صورت میں مزے سے زندگی گزار رہا تھا اور بہترین نہ بھی سہی‘ مگر کافی بہتر انداز میں چل رہا تھا۔ دنیا بھر کو گندم اور یورپ بھر کو گیس فراہم کرکے اپنے معاملات کو احسن انداز میں چلا رہا تھا‘ اچانک اس نے اپنے مغرب میں واقع یورپ کے نیٹو والے ممالک اور ہزاروں میل دور واقع امریکہ کے جھانسے میں آکر خالی پیلی بڑھک مار کر اپنا ستیاناس کروا لیا۔ لیکن اپنی اس غلطی کی سزا بھی وہ اور اس سے بڑھ کر اس کو اقتدار میں لانے والے عوام بھگت ہی رہے تھے۔ ایسے میں اس گھر آئے فریادی مہمان کے ساتھ جو سلوک کیا گیا وہ بہرحال شرافت کے کسی دائرے میں نہیں آتا۔
امریکی صدر ٹرمپ نے یوکرینی صدر ولودومیر زیلنسکی کے ساتھ یہ سلوک کسی فوری اشتعال یا غصے کے تحت نہیں کیا بلکہ وہ اس کے لیے پوری تیاری سے آیا تھا۔ اس کا آغاز تو اسی وقت ہو گیا تھا جب صدر نے آنے والے مہمان صدر کے کپڑوں کا ٹھٹھا اڑاتے ہوئے اسے غیر مناسب اور سستے قرار دینے جیسے جملوں سے اس کا استقبال کیا۔ مہمان کو مزید بے عزت کرنے‘ پوری دنیا کو عمومی اور امریکی عوام کو خصوصی طور پر اپنی امریکی مفادات کو اولیت دینے کی پالیسی کا عملی مظاہرہ دکھانے کی غرض سے نہ صرف اس ملاقات کو لائیو کوریج دی گئی بلکہ امریکی صدر نے توہین آمیز لمحات کو ممکنہ حد تک طویل کر کے رہی سہی کسر بھی نکال دی۔
یہ ایسی ملاقات تھی جس میں دونوں صدور کا ایجنڈا ایک دوسرے سے قطعاً مختلف تھا۔ یوکرینی صدر کو اپنے ملک اور عوام کی سلامتی کا مسئلہ درپیش تھا اور وہ صدرِ امریکہ سے روسی جارحیت کے باعث یوکرین کی سالمیت کو لاحق خطرات کے خلاف اپنے ملک کی سلامتی اور حفاظت کی ضمانت کا طلبگار تھا جبکہ تاجر پیشہ امریکی صدر یوکرین سے نکلنے والی معدنیات جن کی قیمت کا تخمینہ 500 ارب ڈالر کے لگ بھگ لگایا جا رہا ہے‘ اس جنگ زدہ ملک سے اس کی کمزور صورتحال کی بنیاد پرپرانے کھاتے نکال کر مفت ہتھیانے کے چکر میں تھا۔ صدر ٹرمپ نے سابق امریکی صدر جوبائیڈن کے دورِ صدارت میں یوکرین کو دی جانیوالی دفاعی امداد کی رقم کی وصولی کیلئے ان معدنیاتی ذخائر کے 50فیصد حصص کا مطالبہ کر رکھا تھا اور اس سلسلے میں ایک باقاعدہ معاہدہ بھی تیار کر رکھا تھا اور یوکرینی صدر کو پریشر میں لاکر اس لوٹ مار پر مبنی معاہدے پر دستخط کرانا چاہتا تھا۔ حالانکہ جب سابق امریکی حکومت نے یوکرین کو عسکری امداد دی تھی تو اس کی واپسی جیسی کوئی شرط یا معاہدہ نہ تھا لیکن موجودہ تاجر ذہنیت کے حامل امریکی صدر نے یوکرین کی روز بروز خراب ہوتی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اس موقع پر یوکرین کی معدنیات پر نظریں جما لیں‘ جو نہ صرف بہت زیادہ قیمتی ہیں بلکہ اپنی نایابی اور ہائی ٹیکنالوجی مصنوعات میں استعمال کے حوالے سے بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہیں اور امریکہ یہ معدنیات ہر حال میں ہتھیانا چاہتا ہے۔ امریکی صدر نے یو کرینی صدر کو ان معدنیات سے متعلق معاہدے پر دستخط کرنے کیلئے بلایا تھا اور اسی مقصد کے لیے وقت دیا تھا۔ یہ بات ایسے ثابت ہوئی کہ اس ملاقات کی ناکامی کے بعد امریکی وزیر خارجہ نے اس ملاقات کو محض وقت کا ضیاع قرار دیتے ہوئے کہا کہ یو کرینی صدر نے ہمارا وقت برباد کیا ہے اور اس حرکت پر اسے امریکہ سے معافی مانگنی چاہیے۔
امریکی صدر سے اوول آفس میں ملاقات سے قبل وائٹ ہائوس میں امریکی صدر کے معاونین نے یوکرینی صدر زیلنسکی کو بریفنگ دیتے ہوئے تاکیداً کہا کہ وہ اس ملاقات کا آغاز معدنیات والے معاہدے پر دستخط کرنے سے کریں‘ تاہم یوکرینی صدر نے سابق امریکی حکومت کی مدد کو قرض میں بدلنے جیسی حرکت کے بعد امریکہ کو ناقابلِ اعتبار جانتے ہوئے پہلے اپنے ملک کی سلامتی کی گارنٹی کی بات کی۔ زیلنسکی کو علم تھا کہ اگر اس نے معاہدے پر پہلے دستخط کر دیے تو پھر اس کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں رہے گا‘ اور امریکہ اسے سلامتی کی گارنٹی والے معاملے پر ٹھینگا دکھا دے گا۔ بے دست وپا یوکرینی صدر کو امریکی صدر بار بار یادہانی کراتا رہا کہ ''تمہارے پاس کوئی کارڈ نہیں ہے‘‘۔ وہ بے چارہ صرف ایک کارڈ ہی لے کر آیا تھا جو معدنیات والے معاہدے سے جڑا ہوا تھا اور امریکی صدر اس سے یہی واحد کارڈ کسی قسم کی کوئی گارنٹی دیے بغیر ہتھیانا چاہتا تھا۔ یوکرینی صدر کی جانب سے اس سلسلے میں تاخیر کرنے پر صدر ٹرمپ ہتھے سے اکھڑ گیا اور باقی سب کچھ آپ کے سامنے ہے۔
اس ملاقات سے مجھے چند سال پرانا واقعہ یاد آ گیا۔فیصل آباد سے ممبر صوبائی اسمبلی شیخ اعجاز کسی کام کے سلسلے میں پنجاب سول سیکرٹریٹ میں سیکرٹری ہیلتھ پنجاب اسماعیل قریشی کے دفتر گئے اور کسی بات پر گرم ہو کر انہوں نے سیکرٹری کی میز پر پڑا ہوا پیپر ویٹ اٹھا کر سیکرٹری کو‘ جو خود بڑا زور دار بیورو کریٹ تھا‘ دے مارا۔ اسکے بعد ہوا یہ کہ شیخ اعجاز جیسے ہی سیکرٹریٹ کے دروازے سے داخل ہوتا‘ ہر طرف اس کی آمد کا علم ہو جاتا اور جن دفاتر میں اس کے کسی کام پر عملدرآمد نہیں ہوا ہوتا تھا‘ اس دفتر کا متعلقہ افسر کھسک جاتا تھا۔ صدر ٹرمپ نے یوکرینی صدر کو بے عزت کرنے اور اس کو میڈیا پر لائیو دکھا کر دو چار تگڑے سربراہان کو چھوڑ کر باقیوں کو پیغام دیا ہے کہ کسی کے ساتھ بھی یہ سب کچھ ہو سکتا ہے۔ گمان ہے کہ بہت سے سربراہانِ مملکت نے اپنے مجوزہ دورۂ امریکہ میں صدر ٹرمپ سے ملاقات والے معاملے پر دوبارہ غور شروع کر دیا ہوگا۔ میرا پاکستانی حکمرانوں کو مشورہ ہے کہ اگر ان کے دل میں ایسی کوئی خواہش ہے تو براہ کرم اسے اگلے چار سال کیلئے مؤخر کردیں۔ بعد میں پچھتانے سے کہیں بہتر ہے کہ بندہ پہلے حفاظتی تدابیر اختیار کرلے۔ ویسے میرے اس مشورے کے پیچھے اصل بات یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی تو خیر ہے‘ بحیثیت پاکستانی میری بھی کوئی عزت ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں