اڑھائی عشرے قبل جب پہلی بار لندن آیا تو فضا سے لندن کا نظارہ نہ ہو سکا۔ رات گئے جب اوسلو سے تھوڑے فاصلے پر ٹارپ ایئر پورٹ سے ریان ایئر کی سستی فلائٹ پکڑ کر لندن آیا تو منزلِ مقصود لندن سے باہر‘ لیکن لندن سے منسوب سٹین سٹڈایئر پورٹ پر اترا لہٰذا کچھ پتا نہ چلا کہ لندن فضا سے دیکھنے میں کیسا لگتا ہے۔ تاہم لندن کے بارے میں گمان ہی نہیں بلکہ یقین تھا کہ یہ شہر سیمنٹ‘ ریت‘ بجری اور سریے کا بحرِ بے کنار ہو گا۔ کسی مغربی کاسمو پولیٹن شہر کے بارے میں بھلا ہم اور سوچ بھی کیا سکتے تھے؟ ویسے بھی ہم جیسے لوگ کسی چیز کو دیکھے اور اس کا مشاہدہ کیے بغیر اندازے لگانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے‘ میں بھلا کون سا مختلف تھا۔ میرا خیال تھا کہ ہماری زمین جتنی زرخیز ہے اتنی زرخیز زمین بھلا روئے ارض پر کہاں ہو گی۔ جتنا سبزہ ہمارے ہاں ہو سکتا ہے بھلا یورپ کے سرد اور نامعقول موسم میں اُدھر کیسے ہو گا۔ جیسی زراعت اور کاشتکاری ہمارے ہاں ہے‘ برطانیہ میں تو اس کا عشرِ عشیر بھی نہیں ہوگا۔ لیکن آہستہ آہستہ یہ خام خیالی دور ہونے لگی اور اپنے موسم‘زمین‘ زرخیزی اور سبزے سے متعلق غلط فہمی ہوا ہو گئی۔
فضا سے تو پہلی بار لندن کا درشن نہ ہو سکا مگر اگلی صبح جب ریڈنگ میں برادرم طارق حسن کے گھر سے نکل کر سڑک پر نظر دوڑائی تو اندازہ ہوا کہ جتنا سبزہ اور جتنے درخت صرف اس چھوٹی سی سڑک پر تھے‘ اتنے درخت شاید پورے پرانے بہاولپور روڈ پر نہیں تھے۔ یاد رہے کہ ملتان شہر کے قلب میں واقع یہ سڑک اپنے درختوں کی وجہ سے کبھی ٹھنڈی سڑک کہلاتی تھی۔ پھر اس کے درخت اللہ جانے کہاں چلے گئے۔ اس سڑک کے متوازی دوسری سڑک ابدالی روڈ تھی۔ اس سڑک پر بھی کسی زمانے میں شیشم‘ بڑ اور پیپل کے پرانے درخت ہوا کرتے تھے۔ پھر یہ سڑک بھی دیگر سڑکوں کی طرح کمرشل ہو گئی۔ بینک‘ پلازے اور کاروباری ادارے پھیلتے گئے اور رہائشی کوٹھیاں کم ہوتی گئیں۔ اس سارے عمل میں درختوں کی خواہ مخواہ ہی کمبختی آ گئی اور ساری سڑک گنجی ہو گئی۔ حالانکہ کمرشل ہونے کے باوجود اس سڑک پر درخت مزے سے سایہ فگن رہ سکتے تھے مگر ہم اور کچھ کریں یا نہ کریں کسی نہ کسی بہانے درختوں کو کاٹنے کے لیے ضرور تیار رہتے ہیں۔ لہٰذا اس سڑک پر جیسے ہی کنکریٹ کا جنگل اُگا‘ درخت غائب ہو گئے۔ اب ٹھنڈی سڑک تپتی ہوئی سڑک ہے اور یہ شہر جو کبھی آموں کے باغات سے گھرا ہوتا تھا‘ اب سموگ کی آماجگاہ ہے۔
لندن میں رہنے والے بتاتے ہیں کہ یہ شہر گزشتہ سو سال سے تو یقینا اسی طرح کا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ گزشتہ سو سال سے اس شہر میں تعمیر و ترقی نہیں ہوئی یا نئی عمارات اور آبادیاں وجود میں نہیں آئیں۔ مطلب یہ کہ اس شہر کا نقشہ‘ سڑکیں‘باغات اور پارک اسی سائز کے ہیں جس طرح سو سال پہلے تھے۔ کسی حکومت نے کسی پارک سے ایک انچ جگہ کسی کو الاٹ نہیں کی۔ کسی باغ کا کوئی حصہ کمرشل نہیں کیا۔ کسی سڑک کو چوڑا کرتے ہوئے گھر یا دکانیں ملیا میٹ نہیں کیں اور کسی جگہ پر انکروچمنٹ نہیں ہوئی۔ لندن سٹی ایئر پورٹ شہر کے قلب سے محض پانچ میل دور ہے ‘کسی بزرجمہر کو یہ عقل نہیں آئی کہ وہ کہے کہ یہ زمین اب دنیا کی قیمتی ترین زمین ہے اور اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ایئر پورٹ یہاں سے کسی اور جگہ منتقل کر دیا جائے اور یہ زمین کمرشل کرکے اس پر پلازے بنا دیے جائیں یا شہر میں پیدا ہونیوالی رہائشی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے اس جگہ کثیر المنزلہ رہائشی فلیٹس بنا دیے جائیں۔ اگر کسی نے ایئر پورٹ کو ختم کرکے اسکا کمرشل استعمال دیکھنا ہو تو وہ لاہور والے والٹن ایئر پورٹ کا حال دیکھ لے‘ ساری بات سمجھ آ جائے گی۔
پہلی بار تو لندن کو فضا سے دیکھنے کا اتفاق نہ ہوا مگر اگلے ہی سال لندن ہیتھرو ایئر پورٹ پر اترا تو دن کا وقت تھا اور خوش قسمتی سے میری سیٹ کھڑکی کی جانب تھی۔ نیچے جا بجا سبزے کی پرتیں پھیلی ہوئی تھیں۔ جگہ جگہ رہائشی علاقوں کے درمیان درختوں کی بہار دکھائی پڑتی تھی۔ سڑکوں کے کنارے درختوں کی قطاریں تھیں۔ ایسے ایسے وسیع و عریض پارک تھے کہ بندہ حیران رہ جائے کہ اتنے مہنگے شہر کے قلب میں سینکڑوں ایکڑ زمین ان پارکوں نے گھیر رکھی تھی۔ بڑے بڑے پارکوں کی تعداد درجن بھر کے لگ بھگ ہے۔ چھوٹے چھوٹے پارکس کی تو گنتی ہی ممکن نہیں۔ صرف رچمنڈ پارک کا رقبہ 2360 ایکڑ ہے۔ بُشی پارک کا رقبہ 1100 ایکڑ ہے۔ ریجنٹ پارک 1410 ایکڑ پر مشتمل ہے اور شہرہ آفاق ہائیڈ پارک 350 ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے۔ شہر کے وسط میں شاہی رہائش گاہ بکنگھم پیلس سے جڑا ہوا سینٹ جیمز پارک 57 ایکڑ پر مشتمل ہے۔ صرف آٹھ عدد رائل پارکس آف لندن کا رقبہ 4842 ایکڑ ہے۔ اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ یہ شہر کس قدر سر سبز ہو گا۔
کہیں پڑھا کہ سموگ کا آغاز اسی شہر سے ہوا۔ پانچ دسمبر 1952ء کو سموگ نامی مصیبت نے اس شہر سے اپنی رونمائی کرائی اور اب اس شہر میں اس کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام ایسا شاندار ہے کہ عقلمند لوگ گاڑی کے بجائے ٹیوب (انڈر گرائونڈ ریلوے) کو ترجیح دیتے ہیں۔ شہر کا شاید ہی کوئی مقام ایسا ہو جہاں پبلک ٹرانسپورٹ کی رسائی نہ ہو۔ زیادہ سے زیادہ پانچ سات منٹ چلیں تو آپ کو اپنا مطلوبہ بس سٹاپ‘ انڈر گرائونڈ سٹیشن یا اپنی منزلِ مقصود مل جائے گی۔ ٹرین تو رہی ایک طرف‘ بسیں بھی اپنے مقررہ اوقات کے مطابق چل رہی ہیں۔ بس سٹاپ پر لگی ہوئی روشن سکرین آپ کی مطلوبہ بس کی آمد بتا رہی ہو گی اور بس زیادہ سے زیادہ ایک دو منٹ کے فرق سے پہنچ جائے گی۔ اور اسکی بنیادی وجہ صرف ٹریفک کی زیادتی اور اشاروں کا بند ہونا ہو گا‘وگرنہ تاخیر کا کوئی امکان نہیں۔
سڑکیں لاہور سے کہیں تنگ اور چھوٹی ہیں‘ اوپر سے ٹریفک کا ازدحام ہے لیکن ٹریفک جام ہونے کے واقعات اور امکانات بہرحال لاہور سے کہیں کم ہیں اور اس کی بنیادی وجہ صرف اور صرف ٹریفک قوانین کی پابندی ہے۔ شہر میں نجی کاروں اور دیگر گاڑیوں کی غیر ضروری نقل و حرکت کم کرنے اور اس کی حوصلہ شکنی کرنے کی غرض سے تین چار اقدامات کیے گئے ہیں۔ پہلا تو یہ کہ سینٹرل لندن میں پارکنگ کی جگہیں بہت محدود کردی گئی ہیں۔ دوسرا یہ کہ پارکنگ فیس اتنی زیادہ کردی گئی ہے کہ اگر کسی کو پارکنگ مل بھی جائے تو فیس ادا کرتے ہوئے اس کے کڑاکے نکل جائیں۔ مزید یہ کہ سینٹرل لندن میں گاڑی لانے کی صورت میں اس گاڑی پر Congestion چارجز‘ یعنی رکاوٹ پیدا کرنے کی فیس عائد کی گئی ہے جو اچھی خاصی ہے۔ اس کے علاوہ دھویں اور کاربن کے خراج کی مد میں Ultra Low Emission Zone میں داخل ہونے پر جرمانہ نما ٹیکس عائد ہے۔ اس جرمانے سے الیکٹرک گاڑیاں مستثنیٰ ہیں؛ تاہم روایتی پٹرول والی گاڑیوں پر یہ فیس اتنی ہے کہ بندہ اپنی گاڑی اس پابندی والے علاقے میں لاتے ہوئے سو بار سوچتا ہے۔
ادھر ہمارے ہاں یہ عالم ہے کہ سموگ بڑھتی جا رہی ہے۔ برسوں سے کوششوں کے باوجود یہ کم ہونے کے بجائے زیادہ ہو رہی ہے۔ کبھی ہم اس کا ملبہ فصلوں کو جلانے پر ڈالتے ہیں اور کبھی اس کا سبب اینٹوں کے بھٹوں کو بناتے ہیں اور آخری بہانہ یہ ہے کہ یہ سارا فساد بھارت سے آنے والے دھویں نے ڈال رکھا ہے۔ سموگ کے خاتمے کیلئے لندن شہر ہمارے سامنے ایک مثال ہے اور کامیاب تجربات سے استفادہ کرنا احساسِ کمتری نہیں‘ اگر خود عقل کو آزمائش میں ڈالنا مشکل ہے تودوسروں کے تجربات سے فائدہ اٹھانے میں کیا مانع ہے؟ لیکن ہم نے نہ صرف خود کو عقل کل سمجھ رکھا ہے بلکہ من حیث القوم منصوبہ بندی‘ سمجھداری‘ عقلمندی اور سیکھنے جیسی بدعات سے مکمل کنارہ کشی بھی اختیار کر رکھی ہے۔ خود کو عقل کل سمجھنا کسی مسئلے کا حل نہیں‘ بلکہ بے شمار مسائل کا پیش خیمہ ہے۔