کہا جاتا ہے: اسوقت زمین پر آبادی سوا آٹھ ارب ہے‘ کیا یہ زندہ لاشیں ہیں‘ کیونکہ انسانیت تو مر چکی ہے۔ انسان کے حروفِ اصلی ''ا ن س‘‘ ہیں اور انس کے معنی میلان اور محبت کے ہیں‘ یعنی انسان کہلانے کا حقدار وہ ہے جو اپنے جیسے انسانوں کیلئے اپنے دل میں محبت اور رحم کے جذبات رکھے۔ انسان کی فطرت چند چیزوں سے مرکب ہے: ملکوتیت جب معراج پر ہو تو انسان فرشتہ خصلت کہلاتا ہے‘ قوتِ غضبیہ بے قابو ہو تو انسان بہیمیت اور درندگی کا مظہر بن جاتا ہے‘ اگر شریعت کے تابع رہے تو شَجاعت کا وصفِ کمال پیدا ہوتا ہے۔ قوتِ شہوانیہ اگر بے قابو ہو تو انسان حیوانیت کا مظہر بن جاتا ہے اور اگر وہ شریعت کے تابع ہو جائے توانسان عفت اور پاکدامنی کی صفات کا حامل ہوتا ہے۔ طلبِ مال کی جبلّت اگر بے قابو ہو تو انسان میں افراط وتفریط یعنی حِرص اور بُخل کی صفات پیدا ہوتی ہیں اور یہ اعتدال پر آ جائے تو انسان میں سَماحت وسخاوت کی صفات پیدا ہوتی ہیں۔
اس وقت امریکہ اپنی مادّی قوت اور حربی صلاحیت کے غلبے کے سبب سپر پاور بنا ہوا ہے اور دنیا کو اپنے ڈھب پر چلانا چاہتا ہے۔ لیکن کیا اخلاقی اعتبار سے بھی امریکہ کو دنیا کی قیادت کا حق حاصل ہے‘ اس سوال کا جواب نفی میں ہے‘ کیونکہ وہ عالمی ضمیر کی آواز پر کان دھرنے کے بجائے اسرائیل کی سفّاکیت‘ درندگی اور مظالم کا پشتیبان بنا ہوا ہے۔ اب تک وہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی چار قراردادوں کو ویٹو کر چکا ہے۔ یورپ جو کبھی سپر پاور تھا‘ اب امریکہ کا تابعِ مُہمَل بنا ہوا ہے۔ تابعِ مہمل سے مراد ہے: ''جو آنکھیں بند کر کے کسی کے پیچھے چل پڑے‘ اُس کی اپنی کوئی رائے اورترجیح نہ ہو‘‘۔ جس طرح فرد کا ضمیر ہوتا ہے‘ اسی طرح قوموں کا بھی ایک اجتماعی ضمیر ہوتا ہے۔ جب الجزائر امریکہ کی نوآبادی تھا‘ وہاں آزادیِ وطن کی جدوجہد جاری تھی‘ فرانس طاقت کو استعمال کر رہا تھا اور الجزائر کے گلی کوچوں میں انسانوں کی لاشیں بکھری ہوتی تھیں۔ فرانس کے ایک دانشور ژاں پال سارتر نے ان مظالم پر احتجاج کیا۔ اُس وقت کے فرانس کے صدر چارلس ڈیگال سے کہا گیا: آپ ژاں پال سارتر کو قید کیوں نہیں کر دیتے‘ اس نے کہا تھا: ژان پال سارتر تو فرانس ہے‘ میں فرانس کو کیسے قید کر سکتا ہوں۔ یعنی ژاں پال سارتر فرانس کے اجتماعی ضمیر کی آواز تھا۔ لیکن آج مغرب کا اجتماعی ضمیر مر چکا ہے‘ اُس کے دانشور اور فلسفی بھی عصبیت‘ نسلی تفاخر اور نَخوت کا شکار ہو چکے ہیں۔
حضرت علیؓ کا قول ہے: ''کفر کی حکومت قائم رہ سکتی ہے‘ لیکن ظلم کی حکومت قائم نہیں رہ سکتی‘‘۔ مگر ایک قانونِ قدرت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ ظالموں کو ڈھیل دیتا ہے‘ مہلت دیتا ہے‘ اس مہلت کو وہ اپنے لیے نعمت سمجھتے ہیں‘ مگر درحقیقت یہ اُن کیلئے زیادتیِ عذاب کا سبب بنتی ہے۔ قرآنِ کریم میں ہے: (1) ''اور میں انہیں ڈھیل دیتا ہوں‘ بیشک میری خفیہ تدبیر بہت مضبوط ہے‘‘ (القلم: 45)۔ (2) ''بیشک کافر اپنی سی چال چلتے ہیں اور میں خفیہ تدبیر فرماتا ہوں تو آپ کافروں کو اُنکے حال پر چھوڑ دیں‘ انہیں تھوڑی سی مہلت دے دیں‘‘ (الطارق: 15 تا 17)۔ (3) ''(اے رسولِ مکرم!) اور جھٹلانے والے سرمایہ داروں کو مجھ پر چھوڑ دیجیے‘ انہیں تھوڑی سی مہلت دے دیجیے‘ بیشک ہمارے پاس (ان کیلئے) بھاری بیڑیاں‘ بھڑکتی ہوئی آگ‘ حلق میں پھنسنے والا کھانا اور دردناک عذاب ہے‘‘ (المزمل: 11 تا 13)۔
ہماری نظر میں کسی ملک وقوم کی منتخب پارلیمنٹ اُس کی اجتماعی دانش کی عکاس ہوتی ہے‘ کسی ملک وقوم کے فلسفی اور دانشور اس کی اجتماعی ضمیر کی آواز ہوتے ہیں‘ وہ مقبول اور نامقبول کے بجائے صحیح اور غلط میں انتخاب کرتے ہیں اور صحیح سَمت پرکھڑے ہوتے ہیں‘ خواہ وہ موقف اُس وقت قوم کی جذباتیت کے سامنے نامقبول ہی کیوں نہ ہو۔ جب امریکہ نے ویتنام پر جنگ مسلّط کر رکھی تھی‘ شمالی ویتنام میں ہوچی مِن کی قیادت میں آزادی کی جنگ جاری تھی‘ امریکہ ٹنوں کے حساب سے ویتنام کی سرزمین پر بارود برسا رہا تھا اور پورا یورپ امریکی جارحیت کا حامی تھا۔ ایسے میں برطانوی فلسفی لارڈ برٹرینڈ رسل نے ویتنام کی جنگ کے خلاف آواز بلند کی‘ امریکہ کو جارح اور غاصب قرار دیا اور ویتنام میں امریکی مظالم کے خلاف جنگی جرائم کی ایک غیر سرکاری عدالت قائم کی اور اس میں علامتی طور پر امریکہ پر جنگی جرائم کا مقدمہ دائر کر کے اُسے ظالم قرار دیا تھا‘ چنانچہ اس اخلاقی دبائو کے نتیجے میں بالآخر امریکہ کو ویتنام سے اپنی فوجیں واپس بلانا پڑیں‘ ویتنام آزاد ہو کر ایک متحدہ مملکت بن گیا اور آج ویتنام ترقی پذیر ممالک میں سرفہرست ہے۔
کہا جاتا ہے: ''غزہ میں اسرائیل نے جتنا گولہ بارود پھینکا ہے‘ اُسکی طاقت وتوانائی کو جمع کیا جائے تو یہ ناگا ساکی اور ہیرو شیما پر پھینکے جانے والے امریکی ایٹم بموں سے پانچ گنا زیادہ ہے‘‘۔ بلاشبہ ساڑھے 14 ماہ سے زیادہ عرصے تک غزہ کے فلسطینیوں کی مزاحمت اور اُن کی عزیمت اور استقامت مثالی ہے‘ اب تک مُعتَد بہ تعداد میں فلسطینیوں کا زندہ بچ جانا بھی ایک خارقِ عادت چیز ہے۔ اسرائیل کسی بھی فلسطینی کو معاف کرنے کیلئے تیار نہیں ہے‘ وہ ہر اس شخص کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہے‘جس کا تعلق فلسطین سے ہے‘ ان ظالموں کے دلوں میں رحم کا کوئی جذبہ نہیں ہے۔ بقول خالد قدومی ''صہیونیوں کیلئے اچھا فلسطینی وہ ہے جو مر چکا ہے‘ جو زندہ ہے وہ ان کے نزدیک دنیا کا سب سے برا آدمی ہے اور وہ اس کو مٹانے کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں‘ اس کیلئے ضروری نہیں کہ وہ مسلح ہو‘ بس اس کا فلسطینی ہونا کافی ہے‘‘۔
بشار حکومت کے خاتمے کے بعد شام کے اسلحے کے ذخائر اور اُن کے جنگی اسلحہ تیار کرنے والے کارخانوں کا تباہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ بشار الاسد حکومت کو اسرائیل اپنے لیے خطرہ نہیں سمجھتا تھا‘ لیکن اس کے زوال کے بعد اس کے اسلحے کے تمام ذخائر کو تباہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ تمام معلومات اسرائیل کو فراہم کر دی گئی تھیں اور اسرائیل یہ نہیں چاہتا تھا کہ یہ اسلحہ شام میں انقلاب برپا کرنے والی نئی قیادت کے ہاتھ آئے۔ اسرائیل نے مقبوضہ گولان پہاڑیوں سے آگے بڑھ کر شام کے مزید علاقے پر قبضہ کر کے اُسے بفر زون قرار دیا ہے۔ اگرچہ عرب ممالک نے بیانات کی حد تک اس کی مذمت کی ہے‘ لیکن عملی اقدام کوئی نہیں کیا۔ جی سیون ممالک کے رہنمائوں نے کہا: شام میں جامع اور غیر فرقہ پرست حکومت کو اقتدار کی منتقلی کی حمایت پر تیار ہیں‘ چین نے بھی شام کی صورتحال پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے شامی خودمختاری کے احترام کا مطالبہ کیا ہے۔ شام کے اکثر حصے یعنی حَلب‘ حِمص‘ لاذقیہ‘ حَماۃ‘ دمشق اور دَرعا پر ''ھیئۃ تحریر الشام‘‘ کے مسلح جنگجوئوں کا قبضہ ہے‘ جبکہ ایک حصے یعنی دیر الزور‘ رقہ وغیرہ پر کرد افواج اور ترکیہ سے متصل علاقے پر سیرین نیشنل آرمی اور ترک افواج کا قبضہ ہے۔ امارتِ اسلامیہ افغانستان کے برعکس باضابطہ طریقے سے انتقال اقتدار کے بعد شامی حکومت کے دنیا سے رابطے اور سفارتکاری میں مشکل نہیں ہے۔ امریکہ بھی شامی حریت پسندوں سے رابطے میں ہے‘ یورپی ممالک بھی ان کو خوش آمدید کہہ رہے ہیں۔ محمد الجولانی کی پالیسی میں لچک بھی دکھائی دے رہی ہے۔ اس کے باوجود اندرونی اور بیرونی طور پر ان کیلئے خطرات بہت ہیں۔ اپوزیشن اتحاد میں کسی ایک گروہ کا غیر ذمہ دارانہ رویہ اور ایک معمولی غلطی بھی اس اتحادکے وجود کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ اس لیے شامی رہنمائوں کو حکمت سے کام لینے کی ضرورت ہے۔
حالیہ تاریخ کا ایک اور سبق یہ ہے کہ طاقت ہی کو سب کچھ سمجھ لیا گیا ہے۔ طاقت کے مقابل انسانیت‘ انسانی اقدار‘ عدل وانصاف اور توازن واعتدال سب اقدار بے معنی ہو کر رہ گئی ہیں‘ یعنی صرف طاقتور کو جینے کا حق ہے‘ کمزور اقوام کیلئے دنیا میں داد رسی کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ حکومتیں اور حکمران مصلحت پسندی کا شکار ہیں‘ اصول پامال ہو رہے ہیں‘ گویا انسان زندہ ہے‘ انسانیت مر چکی ہے۔