کسی ملک کی فی کس سالانہ آمدن اس کے شہریوں کی معاشی بہبود جانچنے کا ایک اہم پیمانہ ہے۔ پاکستان فی کس سالانہ آمدن کے حوالے سے جنوبی ایشیائی خطے کے کئی ممالک سے پیچھے ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں فی کس سالانہ آمدن تقریباً 1664 ڈالر ہے‘ جو بھارت‘ بنگلہ دیش اور سری لنکا سے کم ہے۔ اس تفاوت کو سمجھنے کے لیے اُن تاریخی‘ اقتصادی اور پالیسی عوامل کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے جنہوں نے اپنے آغاز سے ہی ملک کی اقتصادی ترقی کی رفتار کا تعین کر دیا تھا۔ 1947ء میں‘ آزادی کے وقت پاکستان کو زرعی معیشت وراثت میں ملی تھی۔ اُس وقت ملک کا صنعتی شعبہ اور انفراسٹرکچر بہت کمزور تھا۔ پاکستان جن علاقوں پر مشتمل ہے وہ سبھی زرعی علاقے تھے جبکہ بھارت کے حصے میں جو علاقے آئے وہاں صنعتی شعبہ بہت مضبوط تھا۔ یعنی تقسیم ہند کے وقت صرف زمین ہی نہیں بلکہ معیشت بھی تقسیم ہو گئی تھی۔ اس معاشی تقسیم کی وجہ سے پاکستان کو صنعتی مصنوعات کے لیے بھارت پر انحصار کرتا پڑتا تھا۔ چھوٹی سے چھوٹی شے بھی درآمد کرنا پڑتی تھی۔ان معاشی مشکلات کے باوجود ابتدائی برسوں میں اقتصادی ترقی کے فروغ پر خصوصی توجہ مرکوز کی گئی۔ زرعی اصلاحات اور ٹیکنالوجی کے فروغ سے آنیوالے 1960ء کی دہائی کے سبز انقلاب نے ملک کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کیاجس سے ملکی معیشت تیزی سے پھلی پھولی اور فی کس سالانہ آمدن نے امید افزا نمو ظاہر کی‘ یہاں تک کہ اس حوالے سے پاکستان نے کچھ علاقائی ممالک کوکافی پیچھے چھوڑ دیا‘ تاہم یہ ترقی ناپائیدار ثابت ہوئی۔ اس کی بنیادی وجہ پاکستان کی ایک عالمی تجارتی بلاک سے غیر ضروری وابستگی تھی۔ یہ پیش رفت تجارتی عدم توازن اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے غیر پائیدار ثابت ہوئی۔
بد انتظامی‘ نہ ہونے کے برابر ترقی‘ متضاد اور ناقص اقتصادی پالیسیوں اوربار بار حکومت کی تبدیلی نے طویل مدتی اقتصادی منصوبہ بندی کو متاثر کیا۔ ہر نئی حکومت نے اپنے پیشرو کی پالیسیوں سے متضاد پالیسیاں متعارف کرائیں۔ اس عدم تسلسل کی وجہ سے صنعتی ترقی متاثر ہوئی جس کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوئی۔ان حالات سے طویل مدتی اور مربوط منصوبہ بندی سے نمٹنے کے بجائے بیرونی امداد اور قرضوں پر انحصار کی پالیسی اپنائی گئی۔ خود انحصاری پر توجہ دے کر ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کے بجائے ہر نئی حکومت نے قلیل مدتی معاشی پالیسیوں کو ترجیح دی۔ اس غلط روش کی وجہ سے معیشت ابتدا سے ہی غلط راستے پر چل نکلی اوراس پر عالمی مالیاتی ادارے غالب آ گئے۔نتیجتاً ملکی معیشت پسماندگی کا شکار ہو کر رہ گئی۔
دوسری طرف تعلیم اور صحت کی سہولتوں پر سرمایہ کاری نہ ہو سکی اور انسانی سرمایے سے غفلت برتنے کی وجہ سے بڑے مسائل پیدا ہوئے ۔ تعلیم اور صحت فی کس آمدنی کے اہم محرک ہوتے ہیں مگر ہمارے ہاں ان شعبوں میں سرمایہ کاری ہمیشہ ناکافی رہی ہے۔ پاکستان کی شرح خواندگی تقریباً 62 فیصد ہے جبکہ بھارت میں تقریباً 78فیصد‘ بنگلہ دیش میں 74فیصد اور سری لنکا میں 92 فیصد ہے۔ کم شرح خواندگی اور ناقص تعلیمی معیار جیسے عوامل افرادی قوت کی اقتصادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی صلاحیت کو محدود کرتے ہیں۔24 کروڑ سے زائد آبادی کے ساتھ پاکستان خطے میں آبادی میں اضافے کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ آبادی میں تیزی سے ہونے والے اضافہ جی ڈی پی میں اضافے کے فوائد کو کم کرتا ہے‘ فی کس آمدنی کو جمود کا شکار بناتا ہے یا اس میں سست روی کا سبب بنتا ہے۔ سیاسی عدم استحکام اور بدعنوانی کی وجہ سے ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری متاثر ہو رہی ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کا سلسلہ متاثر ہونے کی وجہ سے پاکستان میں ہمسایہ ممالک کے مقابلے میں کم صنعتی ترقی ہوئی ہے اور اب تک صرف بنیادی انفراسٹرکچر ہی بہتر ہو پایا ہے۔
اگر اس حوالے سے پاکستان کا علاقائی ممالک کے ساتھ تقابل کیا جائے تو بھارت نے 1990ء کی دہائی میں ملکی و غیرملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے‘ صنعتی اور آئی ٹی کے شعبے کو فروغ دینے اور ایک آزاد تجارتی منڈی کا نظام متعارف کرانے کے لیے اپنے ہاں اقتصادی لبرلائزیشن کی بنیاد رکھی تھی۔ علاوہ ازیں بھارت کے مستحکم جمہوری ڈھانچے‘ تعلیم اور ٹیکنالوجی میں اصلاحات نے اسے پائیدار ترقی کے راستے پر گامزن کیا۔انہی اقدامات کی بنا پر بھارت کسی حد تک پسماندگی سے نکلا ہے۔ اس کے علاوہ عالمی تجارتی معاہدوں اور مختلف تجارتی بلا کس میں شمولیت نے بھی بھارت کی معیشت کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اپنی اس پالیسی کی وجہ سے بھارت نے نہ صرف تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا بلکہ ان ممالک کی رہنمائی کرنے کی کوشش بھی کی جن سے بھارت کی معیشت کو کا فی فائدہ پہنچا۔ دوسری طرف بنگلہ دیش جو کبھی اقتصادی لحاظ سے پاکستان سے کمزور تھا‘ نے برآمدی صنعتوں بالخصوص ٹیکسٹائل پر توجہ مرکوز کرکے اسے کافی پیچھے چھوڑ دیا۔اس ضمن میں بنگلہ دیش نے خواتین افرادی قوت اور دیہی ترقی کو بھی بطورِ خاص ترجیح دی۔اسی طرح سری لنکا کی بات کریں تو اپنے سیاسی اور معاشی بحرانوں کے باوجود سری لنکا نے تعلیم اور صحت کے میدانوں پر خاص توجہ مرکوز کی ۔ ان دونوں شعبوں میں سرمایہ کاری نے سری لنکا میں ہنر مند افرادی قوت پیدا کی جس سے وہاں فی کس سالانہ آمدن میں اضافہ ہوا ہے۔
ان علاقائی ممالک کے ساتھ بڑھتی ہوئی خلیج کو پُر کرنے کیلئے پاکستان کو کثیر جہتی نقطہ نظر اپنانا ہو گا۔ اس کیلئے افرادی قوت کی ترقی‘ تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت میں سرمایہ کاری میں اضافہ ناگزیر ہے۔ پڑھی لکھی اور ہنر مند افرادی قوت ہی جدت اور پیداواری صلاحیت کو فروغ دے سکتی ہے۔ اسی طرح پاکستان کو اقتصادی تنوع کی بھی ضرورت ہے۔ زراعت پر انحصار کو کم کرنا ہو گا اور آئی ٹی کی صنعت کو فروغ دینا ہو گا۔ فرسودہ ٹیکنالوجی کو ترک کرنے اور اسکی جگہ جدید ٹیکنالوجی کو دینے اور قابلِ تجدید توانائی جیسے شعبوں میں توسیع سے جی ڈی پی کو فروغ مل سکتا اور نئی ملازمتیں پیدا ہو سکتی ہیں۔ پاکستان کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ آبادی پر قابو پانے کا ہے۔ یہ ایک ٹائم بم ہے‘ اس پر فوری قابو نہ پایا گیا تو مستقبل میں یہ تباہی اور بربادی کا اہم عنصر ہو گا۔ اس کیساتھ کسی قسم کی منصوبہ بندی سود مند ثابت نہیں ہو سکتی۔خاندانی منصوبہ بندی کے پروگراموں کو فروغ دینے سے آبادی میں اضافے کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ان عوامل کے علاوہ فی کس آمدنی میں کمی کی بڑی وجہ یہاں گڈ گورننس یعنی اچھی حکمرانی کی کمی ہے۔ ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ ناگزیر ہے۔ غربت‘ افلاس اور پسماندگی کا خاتمہ صرف ایک ایسے نظام میں ہی ممکن ہوتا ہے جو منصفانہ بنیادوں پر استوار ہو۔ جس میں لوٹ کھسوٹ اور نا انصافی نہ ہو۔ حکمرانوں کو جوابدہ ٹھہرانے‘ بدعنوانی کو کم کرنے اور سرمایہ کاروں کیلئے سازگار ماحول پیدا کرنے کیلئے ایک شفاف نظام کلیدی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔
پاکستان کیلئے علاقائی تجارتی تعاون بڑھانا بھی بہت ضروری ہے۔ یہ ترقی کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ ہمسایہ ممالک کیساتھ تجارتی تعلقات کو مضبوط کرنے سے پاکستانی اشیا اور خدمات کیلئے نئی منڈیاں مل سکتی ہیں‘ جس سے اقتصادی ترقی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ پاکستان کی کم سالانہ آمدن تاریخی اعتبار سے نظرانداز کیے جانیوالے سماجی و سیاسی چیلنجوں سے جڑے گہرے ساختی مسائل اور پالیسی کی بدانتظامی کی علامت ہے۔ اگرچہ پاکستان میں فی کس سالانہ آمدنی علاقائی ممالک کے برابر کرنا ایک مشکل کام ہے لیکن یہ ناقابلِ عمل نہیں ۔ پڑوسیوں سے سیکھ کر اور طویل مدتی اصلاحات پر توجہ مرکوز کر کے پاکستانی شہریوں کے معیارِ زندگی کو بہتر اور خطے میں ایک مسابقتی کھلاڑی کے طور پر اپنا مقام محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔ پائیدار اقتصادی ترقی کی طرف گامزن ہو نے کا یہ ایک اہم فارمولا ہے۔