پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شیر افضل مروت کے مطابق بانی پی ٹی آئی نے پارٹی قیادت اور اتحادی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کے مشورے کو تسلیم کرتے ہوئے سول نافرمانی کی تحریک کو فی الحال ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ انہوں نے سول نافرمانی کی تحریک کی کال واپس لے لی ہے۔ اگر حکومت نے مذاکرات شروع کرنے میں تاخیر یا غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا اور پی ٹی آئی کے دو اہم مطالبات پر کسی پیشرفت کا امکان نظر نہ آیا تو پی ٹی آئی رہنما کے مطابق‘ سول نافرمانی کی کال دوبارہ دی جا سکتی ہے۔ کچھ اسی قسم کی بات پی ٹی آئی رہنما اور سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے بھی کی ہے کہ سول نافرمانی کی کال پر عمل درآمد کو فی الوقت مؤخر کیا گیا ہے۔
دو متحارب فریق جب طاقت کے استعمال کے بجائے بات چیت کے ذریعے مسئلے کے حل کا فیصلہ کرتے ہیں تو اسی طرح کا مؤقف اختیار کرتے ہیں‘ یعنی ایک قدم پیچھے ہٹتے ہیں مگر ناکامی کی صورت میں سخت اقدام کا حق بھی رکھتے ہیں۔ پی ٹی آئی نے بھی سول نافرمانی کی تلوار کو ابھی نیام میں نہیں ڈالا بلکہ حکومت کے سر پر بدستور لٹکائے رکھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے بظاہر گیند حکومت کی کورٹ میں پھینک دی ہے۔کچھ تجزیہ کاروں کے خیال میں 26 نومبر کے دھچکے کے بعد پی ٹی آئی ایک لمبے عرصے تک حکومت کے خلاف کسی بڑی احتجاجی تحریک شروع کرنے کے قابل نہیں اور حکومت کو بھی اس حقیقت کا ادراک ہے‘ اس لیے خطرہ ہے کہ حکومت پی ٹی آئی کی طرف سے سول نافرمانی کی تحریک کو موخر کرنے کے اقدام کو اس کی کمزوری سمجھ کر مذاکرات سے منہ موڑ لے یا ان کو شروع کرنے میں غیر ضروری تاخیر سے کام لے۔ اس وقت تک ایسا ہی دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو حکومت کو اُس صورتحال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جس سے اس وقت پی ٹی آئی گزر رہی ہے۔ اگر عمران خان 25 مئی 2022ء کو پی ڈی ایم حکومت کے مستعفی ہونے اور نئے انتخابات کرانے کے فیصلے کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کے اعلان سے سبوتاژ نہ کرتے تو شاید وہ اور ان کی پارٹی کو موجودہ حالات کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ بانی پی ٹی آئی نے متعدد مواقع پر اپنے سیاسی اور غیر سیاسی حریفوں کی طاقت کا غلط اندازہ لگایا اور ایسے فیصلے کیے یا اہم مواقع ہاتھ سے جانے دیے جن سے ان کی مشکلات میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا گیا۔
جنگ ہو یا سیاست‘ درست وقت پر درست اقدام کو بڑی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ اس وقت پی ٹی آئی کی طرف سے غیر مشروط مذاکرات کی پیشکش ایسا ہی اقدام ہے۔ گو کہ گزشتہ ڈھائی برس سے پی ٹی آئی اسے یہ کہہ کر ٹھکراتی آئی ہے کہ وہ مذاکرات کرے گی تو صرف مقتدرہ کے ساتھ‘ کہ بقول بانی پی ٹی آئی یہ ایک کٹھ پتلی اور بے اختیار حکومت ہے۔ لیکن حالات نے بانی پی ٹی آئی کو احتجاجی سیاست کو چھوڑ کر حکومت کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ کر دیا ہے۔ اگرچہ بعض رہنماؤں کی طرف سے اب بھی ابہام پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ماحول کو خراب کرنے کیلئے اشتعال انگیز بیانات اور دھمکیوں کا سہارا لیا جا رہا ہے مگر 15 دسمبر کو پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے واضح اور دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ بانی پارٹی نے نہ صرف سول نافرمانی کی تحریک کو مؤخر کرنے بلکہ حکومت کے ساتھ غیر مشروط مذاکرات کی تجویز سے بھی اتفاق کیا ہے۔ 17 دسمبر کو بانی پی ٹی آئی کی ہمشیرہ علیمہ خان نے بھی جیل میں اپنے بھائی سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے بات چیت میں اس بات کی تصدیق کی کہ پی ٹی آئی نے محاذ آرائی کے بجائے مذاکرات کے ذریعے اپنے مطالبات منوانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اُسی دن قومی اسمبلی میں دونوں جانب سے جو تقریریں کی گئیں‘ ان سے بھی مصالحت کی خواہش بلکہ اسے عملی جامہ پہنانے کیلئے ٹھوس اقدامات کرنے کا تاثر اجاگر ہوتا ہے۔ شیر افضل مروت نے مذاکرات کیلئے ٹی او آرز طے کرنے اور تمام سٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ رکھنے کی تجویز دی۔ رانا ثناء اللہ نے اپوزیشن کو سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے ذریعے حکومت کو ڈائیلاگ کی باضابطہ دعوت دینے کی تجویز دی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں کیمپوں میں ہارڈ لائنرز فی الحال سائیڈ لائن کر دیے گئے ہیں اور اعتدال پسند مصالحتی عناصر کو مذاکرات کا آپشن آزمانے کا موقع دیا گیا ہے۔ ممکن ہے کہ آئندہ چند دنوں میں حکومت اور اپوزیشن کے نمائندوں کے مابین مذاکرات کا باقاعدہ آغاز ہو جائے مگر اس سے جلد کسی نتیجے پر پہنچنے کی توقع کرنا درست نہیں ہوگا کیونکہ دونوں جانب ایسے عناصر بھی موجود ہیں جو گزشتہ سال الیکشن کے حوالے سے مذاکرات کے ناکام تجربے کے بعد ان کوششوں کو بے سود سمجھتے ہیں مگر اس کے باوجود مذاکرات کے انعقاد کا قوی امکان موجود ہے کیونکہ پاکستان کے اندر اور باہر‘ دنیا میں برق رفتار تبدیلیوں سے جو چیلنج ابھر رہے ہیں انکے پیش نظر مذاکرات کے سوا کوئی اور چارہ نظر نہیں آتا۔ ظاہر ہے کہ مذاکرات میں پی ٹی آئی اپنے اہم مطالبات یعنی جیلوں میں بند پارٹی قائدین اور کارکنوں کی رہائی اور 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات پر اعلیٰ عدالتی کمیشن کی تشکیل کو ترجیح دے گی جبکہ حکومت کی جانب سے مؤقف پیش کیا جائے گا کہ مذاکرات کیلئے کوئی پیشگی شرائط قبول نہیں کی جائے گی‘تاہم مذاکرات میں اپوزیشن کی طرف سے اٹھائے گئے ہر مسئلے پر بات کی جا سکتی ہے۔ اگرچہ دونوں صفوں میں سپائلرز بھی موجود ہیں اور خود بانی پی ٹی آئی کے موقف کے بارے بھی حکومت تذبذب کا شکار ہے مگر 17 دسمبر کو قومی اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن کے مابین سیز فائر سے جو خوشگوار ماحول پیدا ہوا ہے‘ اسے ہر جانب سے خوش آمدید کہا گیا ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے بات چیت کیلئے اپنے دفتر اور رہائش کی پیشکش کو ایک اہم پیشرفت قرار دیا جا رہا ہے۔ رانا ثناء اللہ کے اس بیان کہ سپیکر قومی اسمبلی ان مذاکرات کیلئے سہولت فراہم کرنے بلکہ انہیں جاری رکھنے اور نتیجہ خیز بنانے میں بھی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں‘ سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت مذاکرات کے انعقاد کو سنجیدگی کیساتھ لے رہی ہے۔ ایک ٹی وی پروگرام میں رانا ثناء اللہ نے متوقع مذاکرات کے اہم اور بنیادی خدوخال پر سے بھی پردہ اٹھایا۔ ان کے مطابق مذاکرات میں طے ہونے والے امور پر حتمی فیصلہ میاں نواز شریف اور عمران خان کریں گے جبکہ مقتدرہ کو پوری طرح آن بورڈ رکھا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق اتحادی جماعتوں کیساتھ صلاح مشورہ کے بعد حکومتی مذاکراتی ٹیم تشکیل دی جائے گی اور اس ٹیم میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے نمائندوں کو بھی شامل کیا سکتا ہے۔ پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم میں سنی اتحاد کونسل اور مجلس وحدت المسلمین کے نمائندوں کو پہلے ہی شامل کر لیا گیا ہے۔ اس سے مذاکرات کا دائرہ وسیع ہوگا لیکن ملک میں داخلی محاذ پر جو چیلنجز موجود ہیں‘ اُنکے پیش نظر مذاکرات کو صرف اپوزیشن اور حکومت کے درمیان ڈائیلاگ تک محدود رکھنے کے بجائے اہم اور فوری حل طلب مسائل مثلاً تشدد اور دہشتگردی کی ابھرتی ہوئی لہر‘ بلوچستان کے حالات اور سندھ کی طرف سے دریائے سندھ سے چھ کینال کے منصوبے پر اعتراض اور مرکز اور صوبوں میں پانی کی منصفانہ تقسیم کے مسائل کو بھی ڈائیلاگ کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔ اگر حکومت اور اپوزیشن میں اس ڈائیلاگ سے اہم انتظامی و سکیورٹی مسائل پر بھی اتفاقِ رائے پیدا ہو جائے تو اس سے ملک میں سیاسی استحکام کو مضبوط بنیاد فراہم ہو سکتی ہے کیونکہ ان مسائل کی وجہ سے ہی ملک کے دو صوبوں میں حالات خراب ہو رہے ہیں۔ ڈائیلاگ کو صرف حکومت اور اپوزیشن کی ایک دوسرے سے شکایات اور گلے شکووں تک ہی محدود نہیں رکھا جا سکتا بلکہ اس کو ایک گرینڈ ڈائیلاگ میں تبدیل کرکے اور دیگر سٹیک ہولڈرز کو اس میں شامل کر کے ملک کی ترقی اور عوام کی بھلائی کیلئے مستقل اور پائیدار امن‘ استحکام‘ مصالحت اور اتحاد کی بنیاد رکھنے میں بھی کامیابی مل سکتی ہے۔