شام میں 53سالہ ظالمانہ اقتدار کا خاتمہ

پوچھا جاتا ہے کہ شام میں یہ کیا ہو گیا؟ اس میں حیرانی کیوں‘ ایسا ہونا ہی تھا۔ جب سیاہ رات اپنی انتہا کو پہنچتی ہے تو پھر سپیدئہ سحر ضرور طلوع ہوتا ہے۔ جب ظالم ستم ڈھانے میں آخری حدوں کو چھو لیتا ہے تو پھر مظلوم کا ہاتھ اس کے گریباں تک ضرور پہنچتا ہے۔ یہی کچھ شام میں ہوا اور یہی قانونِ فطرت ہے۔
ہم شام کی پرانی تاریخ اور وہاں کے خونیں انقلابوں اور سازشوں کو چھوڑتے ہوئے موجودہ بشار الاسد کے والد حافظ الاسد کی بدترین ڈکٹیٹر شپ سے بات کا آغاز کرتے ہیں۔ حافظ الاسد 1971ء میں ایک ملٹری شب خون کے ذریعے اقتدار پر قابض ہوا تھا۔ ظلم کی یہ سیاہ رات 29برس تک جاری رہی۔ اس دوران اپنے ہی شہریوں کے قتلِ عام میں حافظ الاسد اور اس کا بھائی رفعت الاسد دوسرے بدترین عرب آمروں کو پیچھے چھوڑ گئے۔ حافظ الاسد کا تعلق شام کے اقلیتی علوی فرقے سے تھا۔ شام میں سنی العقیدہ مسلمانوں کی تعداد تقریباً 78 فیصد ہے۔علوی فرقے کو ابتدا میں فرقہ نصیریہ کہا جاتا تھا اور اس کا آغاز شام میں نویں اور 10ویں صدی کے درمیان ہوا تھا۔ ان کے عقائد نہایت پُراسرار قسم کے ہیں۔ یہ سنی مسلمان ہیں نہ شیعہ۔ حافظ الاسد ایک ملٹری آفیسر تھا اور بعث کمیونسٹ پارٹی کا رکن بھی تھا۔اس نے برسراقتدار آتے ہی اپنی ہیبت قائم کرنے کے لیے شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کو اپنے پاؤں تلے روندا۔ آزادیٔ تقریر تھی نہ آزادیٔ تحریر اور نہ ہی کسی طرح کے سیاسی و دینی اجتماع کی اجازت تھی۔ بس پابندیاں ہی پابندیاں تھیں۔
حافظ الاسد کے زمانے میں جہاں کہیں کچھ لوگوں کے اکٹھے ہونے کی اطلاع ملتی وہاں بدترین قسم کا کریک ڈاؤن کیا جاتا۔ بلامبالغہ اس کے دور میں ہزاروں نہیں‘ لاکھوں بے قصور شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیااورجیلوں میں بھی ڈال دیا گیا اور پھر برسوں تک کوئی ان کا پرسانِ حال نہ تھا۔حافظ الاسد کے بعض قیدیوں کو چالیس چالیس برس کے بعد گزشتہ اتوار کے روزرہائی ملی ۔ میںاور میری بیگم 1970ء کی دہائی کے اواخر میں طائف سے تقریباً ڈیڑھ ہزار کلو میٹر ڈرائیو کر کے براستہ اردن شام گئے تھے ۔دمشق ایک انتہائی خوبصورت شہر ہے جس کے باغات اور عمارتیں آراستہ و پیراستہ ہیں۔قارئین کرام! اگر ایسی کسی حسین بستی پر دیو استبداد کا مہیب سایہ پڑے تو اندازہ لگا لیجئے کہ شہر جمال کا کیا حشر ہوتا ہے۔دمشق کے علاوہ ہم گاڑی میں حما ۃسے گزرتے ہوئے حلب بھی گئے تھے۔ ہماری شام سے واپسی کے تقریباً تین چار برس کے بعد 1982ء میں حافظ الاسد نے سنی مسلمانوں کے مرکز حماۃ پر بدترین نوعیت کا حملہ کیا۔ اس میں حافظ الاسد کے فوجی فیلِ بے زنجیر کی طرح نہتے اہلِ حماۃ پر ٹوٹ پڑے تھے اور اوپر سے جہازوں سے بمباری بھی کی گئی۔ بلامبالغہ اس خونریزی اور قتل و غارت گری میں لاکھوں افراد شہید ہوئے اور سارا شہر کھنڈرات میں تبدیل ہو گیا ۔ وہ زمانہ موبائل فونوں یا آئی ٹی کا نہ تھامگر ایسی خبروں کو لاکھ چھپایا جائے لیکن وہ آہنی پردوں سے باہر آ ہی جاتی ہیں۔ اُن دنوں بھی اس قتلِ عام کی خبریں ساری دنیا کو دہلا گئی تھیں۔جو شامی کسی نہ کسی طرح سعودی عرب پہنچے اوروہاں کی وزارتِ تعلیم میں ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ان میں سے بعض طائف میں ہمارے رفیق کار بن گئے۔ وہ سرگوشیوں میں بتایا کرتے تھے کہ وہاں سیاسی آزادی ہے نہ مذہبی اور خفیہ پولیس کا ایسا بدترین نظام ہے کہ بیوی میاں کی اور میاں بیوی کی مخبری کرتے ہیں۔
جب 2000ء میں بشار الاسد نے اقتدار سنبھالا تو اس نے اپنے ہی شہریوں پر تشدد اور قتل عام کے نئے ریکارڈ قائم کر دیے۔ ڈکٹیٹروں کو یقین ہوتا ہے کہ انسانوں کو ڈرا دھمکا کر خاموش کرایا جا سکتا ہے اور اُن کی گردنوں میں بندوق کے زور پر اپنی اطاعت کا طوق ڈالا جا سکتا ہے مگر انجام کار یہی طوق ڈکٹیٹر کی گردن میں کس دیا جاتا ہے۔ بشار الاسد نے صیدنا یا جیل بنائی جس میں چار زیر زمین منزلیں ہیں وہاں قیدیوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے جاتے تھے اسی جیل سے اتوار کے روز سے ہزاروں قیدی رہا کرائے جا چکے ہیں مگر ابھی تک ہزاروں انہی تہہ خانوں میں مقید ہیں اور ان کے آہنی دروازے کھل نہیں رہے ۔
بشارالاسد نے 2000ء میں اقتدار سنبھالا اور جب اس کے مظالم اس کے باپ حافظ الاسد سے بھی بڑھ گئے تو تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق مختلف حریت پسند جماعتوں نے اس آمرانہ حکومت کے خلاف 2011 ء سے آزادی کے لیے جدوجہد شروع کر دی۔ ان میں بعض شدت پسند بھی موجود تھے۔ شروع میں ان حریت پسندوں کو بڑی کامیابی ملی مگر کچھ سال کے بعد بشار الاسد نے اُن کا قتل عام کیا اور کیمیائی گیس استعمال کر کے لاکھوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
اسی طرح لاکھوں شامی بدترین حالات میں وطن چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ انہوں نے ترکیہ‘ کئی یورپی ممالک بالخصوص جرمنی اور امریکہ میں پناہ حاصل کر لی۔ ٹیکساس میں میرے بیٹے ڈاکٹر بلال کے ایک شامی پڑوسی نے اسے بتایا کہ اتوار8 دسمبر کو اسے نہ صرف شام کی آزادی کی خبر ملی بلکہ اسی روز اس کا بھائی 25 برس بعد جیل سے رہا ہوا ۔اسی طرح اخباری خبر کے مطابق 18 برس کی عمر میں گرفتار ہونے والا لڑکا 57 سال کی عمر میں اتوار کو چہرے پر سفید داڑھی کے ساتھ بدترین جیل سے باہر آیا۔
اتوار کے روز دمشق و حلب اور حماۃ و حمص میں ہی نہیں‘ شام کے چپے چپے پر لوگ یومِ نجات اور یومِ آزادی کی خوشیاں منا رہے ہیں اور بنگلہ دیش کی طرح حافظ الاسد کے مجسموں کو اور بشار الاسد کی تصویروں کو اپنے قدموں تلے روند رہے ہیں اور سڑکوں پر اپنے رب کے حضور سجدئہ شکر ادا کر رہے ہیں۔اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ اس تحریک حریت کے پیچھے ساری قوم کھڑی تھی۔پاکستانی اور مغربی میڈیا ایک غلطی کا مسلسل تکرار کر رہا ہے کہ گیارہ روزہ باغیوں کے حملے میں بشارالاسد کی حکومت زمیں بوس ہو گئی ایسا ہرگز نہیں اس کے پیچھے چودہ سالہ جدوجہد موجود ہے۔
ہیت التحریر الشام کے صدر ابو محمد الجولانی کون ہیں؟ جب 2011ء میں اسد خاندان کے ظلم و استبداد سے نجات کیلئے آزادی کی جنگ شروع ہوئی تو اس میں کئی شدت پسند جماعتیں بھی شامل تھیں۔ مگر بعد میں ان کے ساتھ جو اعتدال پسند عناصر تھے انہوں نے کوئی چھ سات برس قبل اپنے راستے اُن سے الگ کر لیے تھے۔ اب اکثریت اعتدال پسندوں کی ہے۔ موجودہ شامی الائنس کوئی دس بارہ مختلف دینی و سیاسی جماعتوں پر مشتمل ایک گروپ ہے جن کے متفقہ سربراہ 42سالہ باریش اعتدال پسند ابو محمد الجولانی ہیں۔ انہوں نے بار بار اعلان کیا ہے کہ ہم اسلام‘ جمہوریت اور شامی قومیت پر یقین رکھتے ہیں۔
ہماری اب اوّلیں ترجیح شام میں عوام کی منتخب حکومت کا قیام اور تباہی و بربادی کو خوشحالی میں بدلنا ہے۔ شامی شہریوں پر ماسکو کی طرف سے بمباری تو سمجھ میں آتی ہے مگر ہمیں حیرت ہے ایران پر جو ایک طرف اسلام‘ جمہوریت اور آزادی کی بات کرتا ہے اور دوسری طرف وہ برسوں بشار الاسد کے ساتھ مل کر مظلوم شامی شہریوں کا خون بہاتا رہا۔حماس نے بھی حریت پسندوں کو کامیابی پر مبارکباد دی ہے۔
کہنے کو بہت سی باتیں ہیں وہ کسی اگلے کالم پر اٹھا رکھتا ہوں مگر دو باتیں عالم اسلام کے حکمرانوں کو اچھی طرح سمجھ لینی چاہیں۔ ایک تو یہ کہ اپنے ہی شہریوں کا کشت و خون بہادری نہیں بزدلی ہے۔ دوسری بات یہ کہ عوامی حمایت کے بغیر بالآخر اقتدار کا سنگھاسن زمیں بوس ہو جاتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں