جنوبی کوریا میں منگل کی شب ساڑھے دس بجے جب لوگ سونے کی تیاری کر رہے تھے‘ عین اس وقت وہاں کے صدر یون سک یول اچانک ٹی وی سکرین پر نمودار ہوئے اور انہوں نے میرے عزیز ہم وطنو! کہہ کر قوم سے خطاب شروع کر دیا۔ انہوں نے پارلیمنٹ کی انتہائی مضبوط اپوزیشن اکثریتی جمہوری پارٹی پر کچھ الزامات عائد کیے اور کہا کہ اُن کی بہت سی کارروائیاں ریاست مخالف ہیں‘ اس لیے میں ملک میں ایمرجنسی مارشل لاء نافذ کر رہا ہوں۔ فوج کو اقتدار سنبھالنے اور دارالحکومت سیول میں سڑکوں پر ڈیوٹیاں انجام دینے کا حکم دے دیا گیا ہے۔
جنوبی کوریا کے صدر کا یہ غیر متوقع خطاب اور مارشل لاء کا نفاذ ساری قوم اور ممبرانِ قومی اسمبلی کے لیے بجلی کا شدید ترین جھٹکا ثابت ہوا۔ تاہم مارشل لاء کا ممکنہ برسوں پر محیط یہ صدارتی ڈرامہ صرف چھ گھنٹے کے بعد اپنے اختتام کو پہنچ گیا ‘ مگر کیسے؟ یہی ہم آپ کو آج کے کالم میں بتائیں گے کہ جب کسی ملک میں جمہوریت عوام کے دلوں میں رچ بس جاتی اور اس سرزمین میں جڑ پکڑ لیتی ہے تو پھر کسی طالع آزما کا اقتدار پر شب خون مارنا ممکن نہیں رہتا۔ اگرچہ جنوبی کوریا کی تاریخ آمرانہ ادوارِ حکومت اور مارشل لاؤں سے بھری پڑی ہے مگر اس کے باوجود اس ڈرامے کا صرف چھ گھنٹوں میں ڈراپ سین کیسے ہوا‘ آئیے جانتے ہیں۔
تقریباً نصف شب کے قریب جونہی یہ شاک ویو جنوبی کورین عوام اور ممبرانِ پارلیمنٹ تک پہنچی تو وہ سر پٹ پارلیمنٹ کی طرف دوڑ پڑے۔ پارلیمنٹ کے باہر پولیس اور فوج کی بھاری نفری تعینات تھی۔ ممبرانِ پارلیمنٹ کو سکیورٹی والوں نے اندر جانے سے سختی سے روکا مگر اُن کا جوش اور ولولہ سکیورٹی پر غالب آیا اور وہ کسی نہ کسی طرح پارلیمنٹ کی عمارت کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ بعض فوجی بھی اسمبلی کی عمارت کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے اور سپیکر نے اجلاس کی کارروائی کا آغاز کردیا۔
جنوبی کوریا کے صدارتی نوعیت کے جمہوری دستور کے مطابق کسی شدید ایمرجنسی کی صورت میں صدر کو عارضی مارشل لاء لگانے کا اختیار حاصل ہے اور صدر نے اسی اختیار سے فائدہ اٹھایا جبکہ اس وقت جمہوریہ جنوبی کوریا کو کسی جنگ کا سامنا تھا اور نہ ہی کوئی اور ایمرجنسی تھی۔ صدر نے مارشل لاء کے نفاذ کے ساتھ ہی تمام تر سیاسی سرگرمیوں‘ احتجاجوں‘ جلسے جلوسوں اور مین سٹریم اور سوشل میڈیا پر شدید پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ دوسری طرف آدھی رات کو اسمبلی کا اجلاس طلب کر لیاگیا۔ اپوزیشن قائدین نے ایوان کو بتایا کہ صدر کا اقدام جمہوریت پر بدترین شب خون ہے جس کا ابھی اسی وقت تدارک ازبسکہ ضروری ہے۔ ایوان کے اندر یہ اجلاس جاری تھا اور باہر سڑکوں پر جنوبی کورین عوام صدر یون کی گرفتاری اور عہدے سے برطرفی کے پُرجوش نعرے لگا رہے تھے۔ منگل اور بدھ کی درمیانی رات کو ہی حکمران پیپل پاور پارٹی (پی پی پی) کے سربراہ نے اپنے صدر کے غیر دستوری مارشل لاء پر ایوان اور عوام دونوں سے معافی مانگی۔ جنوبی کوریا کے دستور کے مطابق اسمبلی کو بھی یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اکثریتِ رائے سے صدر کے ایسے کسی ایمرجنسی حکم کو مسترد کر سکتی ہے۔ 300 ممبران کے ایوان میں اپوزیشن جماعت ڈیموکریٹک پارٹی سمیت چھ جماعتی اپوزیشن اتحاد کے اراکین نے جمہوریت کے دفاع کے لیے نصف شب کے اجلاس میں شرکت کی۔ ایوان میں نہ صرف اپوزیشن بلکہ بعض سرکاری ارکانِ اسمبلی سمیت 190 ممبران کی اکثریت نے صدارتی حکم نامے کے خلاف بل پاس کیا اور صدر کو کہا کہ وہ ایوان کے فیصلے پر سرِتسلیم خم کر دے اور اپنا حکم نامہ فی الفور واپس لے۔
ایوان کا یہ فیصلہ وصول کر کے جنوبی کورین صدر نے اَنا پرستی کا ثبوت دیا نہ دستور کو منسوخ یا معطل کیا۔ نہ عدالتوں کو مینج کیا اور نہ ججوں کو ڈرایا دھمکایا اور نہ ہی ایوان کے غیر جمہوری کھلاڑیوں کو بڑے بڑے عہدوں کا لالچ دے کر ساتھ ملایا۔ صدر نے ایک اختیار کے مقابلے میں جب دیکھا کہ دوسرا دستوری اختیار غالب آ گیا ہے تو اس نے دستور کے سامنے سر جھکا دیا اور یوں آمرانہ راج کی لمبی سیاہ رات صرف چھ گھنٹے میں سپیدئہ سحر میں بدل گئی۔صبح ساڑھے چار بجے بوقتِ سحر صدر یون سک یول نے ٹی وی پر اعلان کیا کہ وہ ایوان کے فیصلے پر سر تسلیم خم کرتے ہوئے رات کو لگائے گئے مارشل لاء کا حکم نامہ واپس لے رہے ہیں اور فوجی دستوں کو واپس بیرکوں میں جانے کا آرڈر دے دیا گیا ہے۔
15 اگست 1948ء کو جنوبی کوریا جمہوریہ بنا۔ 40 برس تک یہاں آمرانہ نظامِ حکومت کسی نہ کسی شکل میں قائم رہا۔ اس دوران مارشل لاء بھی آتے جاتے رہے۔ 1987ء میں سارے جنوبی کوریا میں قومی سطح پر جمہوریت کے لیے باشعور طلبہ نے نہایت پُرامن قومی تحریک چلائی۔ اس مہم کو جون ڈیمو کریسی موومنٹ کہا جاتا ہے۔ جون کے مہینے میں یہ مہم اپنے نقطہ عروج پر پہنچ گئی تھی۔ ہوا یوں کہ 9 جون 1987ء کو یونیسی یونیورسٹی کے گیٹ پر پولیس کی طرف سے چلائے گئے آنسو گیس کا ایک شیل ایک نوجوان طالب علم کے سینے میں لگا اور وہ ہلاک ہو گیا۔اس ہلاکت کے بعد تحریکِ جمہوریت میں جوش خروش بہت بڑھ گیا۔لہٰذا دس جون سے لے کر 29 جون تک زبردست مہم چلی۔ اس دوران ایک ایک روز میں مختلف شہروں میں سینکڑوں جلوس نکلتے۔ 29جون اس پُرامن مہم کا نقطہ عروج تھا جب اس وقت کے ڈکٹیٹر نے عوامی مطالبات کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے اور صدر کو براہِ راست منتخب کرنے کا مطالبہ منظور کر کے 16 دسمبر 1987ء کو نئے انتخابات کا اعلان کر دیا۔ پھر یہ ڈکٹیٹر سبکدوش ہو گیا۔ تب سے اب تک جنوبی کوریا میں جمہوریت خوش اسلوبی سے اپنا سفر طے کر رہی ہے۔ جس طرح سے عوام اور ارکانِ پارلیمنٹ نے جمہوریت کا دفاع کیا‘ اس سے یہ خوشگوار حقیقت سامنے آئی ہے کہ ایشیائی ملک جنوبی کوریا میں جمہوریت مضبوط بنیادوں پر کھڑی ہو چکی ہے۔
جمہوری پارٹی نے صدر اور وزیر دفاع کے خلاف مواخذے کی قرارداد بھی اسمبلی میں داخل کر رکھی ہے۔ اس کی منظوری کے لیے دو تہائی یعنی 300میں سے 200ووٹوں کی ضرورت ہے۔ چھ جماعتی اپوزیشن کے پاس 192ووٹ ہو چکے ہیں‘ انہیں مزید 8 ووٹوں کی ضرورت ہے۔ آج (ہفتے کے روز) شام سات بجے سائوتھ کورین صدر کے مواخذے پر ووٹنگ ہوگی۔ وزیر دفاع‘ جس نے صدر کو مارشل لاء لگانے کا مشورہ دیا تھا‘ وہ از خود مستعفی ہو چکا ہے۔ آرمی چیف نے بھی اپنا عہدہ چھوڑنے کی پیشکش کی ہے۔تقریباً 74 فیصد جنوبی کورین شہری صدر کے مواخذ ے کے حق میں ہیں۔ دیکھئے کیا نتیجہ سامنے آتا ہے۔ صدر یون سک یول 2022ء میں صدر منتخب ہوئے تھے‘ اس عرصے میں اُن کے اور خاتونِ اوّل کے کئی سیکنڈلز منظر عام پر آ چکے ہیں۔
میں نے چند روز پہلے ایک برطانوی پروفیسر آف بزنس مینجمنٹ کے حوالے سے بتایا تھا کہ 1960ء سے جنوبی کوریا نے اقتصادی ترقی اور خوشحالی کا سفر شروع کیا تھا۔ تاہم 1980ء کی دہائی کے اواخر میں جنوبی کوریا میں سیاسی استحکام آ گیا اور جمہوریت وہاں مضبوط ہو گئی تو پھر اس ملک کی اقتصادی اڑانیں بہت بلندی تک جا پہنچیں۔ 2019ء میں فی کس سالانہ آمدنی 32ہزار ڈالر ہو چکی تھی جو مسلسل بڑھ رہی ہے۔ جنوبی کوریا کو دنیا کی نہایت ترقی یافتہ معیشت سمجھا جاتا ہے۔
جنوبی کوریا کی اس ناقابلِ یقین ترقی میں صنعتوں‘ سڑکوں اور اعلیٰ معیار کی دانش گاہوں کا بہت بڑا حصہ ہے۔ مگر سچ پوچھیں تو یہ ساری برق رفتار ترقی مضبوط جمہوریت اور سیاسی استحکام کا اعجاز ہے۔ اسی لیے تو ساری قوم نے مل کر اعلان کیا: No مارشل لاء!