کسی کے بارے میں بھی پورا سچ بولنا تو شاید ممکن نہیں‘ آدھے یا ادھورے سچ سے ہی ذہین قارئین پوری بات کی تہہ تک پہنچ جاتے ہیں۔ دیکھیے یاس یگانہ چنگیزی نے ادھوری بات کی کیسے تعریف و توصیف کی ہے۔
بات ادھوری مگر اثر دونا ؍ اچھی لکنت زبان میں آئی
عمران خان نے 24 نومبر کو اسلام آباد کی طرف مارچ کی کال دے دی ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں سے کچھ سنجیدہ تجزیہ کار قوم کو خبردار کر رہے تھے کہ کچھ نیا ہونے والا ہے۔ اس بار تحریک انصاف کی فائنل احتجاجی کال میں کیا نیا ہونے والا ہے‘ اس کے بارے میں کوئی حتمی پیشگوئی کرنا خاصا دشوار کام ہے کیونکہ کئی برسوں سے خان صاحب بار بار اس طرح کی بے نتیجہ کالیں دے کر پارٹی قائدین اور کارکنوں کو تھکا چکے ہیں۔ یہ کال بھی گہرے غور و فکر اور پارٹی قیادت سے مشورے کے بغیر دی گئی ہے۔ تحریک انصاف کی احتجاجی تحریک کی کامیابی کے امکانات کا تجزیہ کرنے سے پہلے پاکستان بالخصوص پنجاب اور خیبرپختونخوا کے سیاسی منظر نامے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
بات تو سچ ہے مگر خاصی تلخ ہے کہ اس وقت مذکورہ بالا دونوں صوبوں میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اپنا سیاسی وجود بڑی حد تک کھو چکی ہیں۔ لہٰذا شاید اسی لیے بلاول بھٹو اپنا راستہ (ن) لیگی حکومت سے الگ کرنا چاہتے ہیں۔ اگر پی ٹی آئی پھونک پھونک کر قدم رکھے گی اور سیاسی حکمت عملی تیار کرے گی تو بآسانی اگلا الیکشن جیت سکتی ہے‘ مگر احتجاج کی کسی جذباتی کال کے نتیجے میں تحریک انصاف نقصان اٹھا بیٹھی تو ان دونوں پارٹیوں کی غیر مقبولیت کی بنا پر خالی میدان کو پُر کرنے سے محروم رہ جائے گی۔
اس فائنل احتجاجی کال کا اعلان پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی نے کیا نہ ہی قومی اسمبلی کے اندر اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے بلکہ یہ اعلان عمران خان کی بہن علیمہ خان نے جیل میں خان صاحب سے ملاقات کرنے کے بعد ان کے وکیل فیصل چودھری کے ہمراہ کیا۔ فیصل چودھری پی ٹی آئی کے نان ورکنگ رہنما فواد چودھری کے بھائی ہیں۔ اس لحاظ سے یہ خاصا معنی خیز ہے کہ اب فواد چودھری بھی شاید تحریک میں کوئی بھرپور کردار ادا کریں گے۔ ہمارے خیال میں عمران خان کو احتجاج کی کوئی بھی کال دینے سے پہلے ایک نہایت اہم بات کی طرف توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے۔ تحریک انصاف کے بارے میں بالعموم یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ایک طرف اس کے سارے قائدین میں وہ اُلفت و یگانگت نہیں جو کسی بھی پارٹی کے لیے روحِ رواں کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی طرح ان کے اہلِ خانہ کے بارے میں بھی یہ تصور کیا جاتا ہے کہ خان صاحب کی ہمشیر گان اور اُن کی بیگم صاحبہ کے درمیان بھی اتفاق نہیں‘ اختلاف ہے۔ بانیٔ تحریک انصاف کو پارٹی کی رسمی و غیررسمی قیادت کے درمیان پائی جانے والی رنجشوں اور غلط فہمیوں کو دور کرانا چاہیے تاکہ وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن سکیں اور آزمائش کی کسی بھی گھڑی میں مل کر ثابت قدم رہ سکیں۔
اس طرح کی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ پی ٹی آئی کے سینئر رہنما 24 نومبر کے احتجاجی اعلان سے مطمئن نہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف کے یہ قائدین بانیٔ پی ٹی آئی کو یہ کال واپس لینے کے لیے آمادہ کریں گے۔ البتہ پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا ہے کہ وہ خان صاحب کو اپنا باس سمجھتے ہیں اور ان کا کوئی بھی اعلان ہمارے لیے حکم کا درجہ رکھتا ہے۔ اس لیے ان کے فرمان پر من و عن عمل کیا جائے گا۔
ہونا یہ چاہیے کہ خان صاحب مختلف پارٹی مناصب پر اپنے ہی مقرر کردہ قائدین پر مکمل اعتماد کریں کیونکہ انگریزی محاورے کے مطابق ادھورا اعتماد عدم اعتماد کے مترادف ہوتا ہے۔ یقینا جوشیلے پارٹی کارکن کسی بھی احتجاجی تحریک کی جان ہوتے ہیں مگر ان کے جذباتی نعروں یا مشوروں پر کسی تحریک کو اچانک شروع نہیں کیا جا سکتا۔ کسی بھی احتجاجی تحریک‘ کہ جس کی اگلی منزل دھرنا ہو‘ اس کے لیے ایک نہیں ہزار چیزیں مدنظر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ سب سے پہلے تو موسمی حالات‘ لاجسٹک‘ اشیائے خورو نوش کی فراہمی‘ دھرنے کے قیام پر موسم کی مناسبت سے حفاظتی انتظامات وغیرہ ضروری ہوتے ہیں۔
پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں احتجاجی سیاسی تحریک کسی ایک جماعت کے بس کی بات نہیں۔ جب بھی اس طرح کی تحریک چلی ہے تو اس کے لیے بالعموم اپوزیشن کی اکثر جماعتوں کا اتحاد بنایا گیا۔ ان سیاسی اتحادوں کی طرف سے چلائی گئی کئی تحریکیں بظاہر ''کامیابی‘‘ سے ہمکنار ہوئیں مگر دراصل وہ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے بجائے کسی حادثے سے دوچار ہو گئیں اور بحران کا فائدہ مقتدرہ نے خوب اٹھایا۔ 1969ء میں ایوب خان کے خلاف چلائی گئی تحریک اگرچہ کامیاب تو ہوئی کہ ایوب خان نے بنیادی جمہوریتوں کا طریق انتخاب ختم کر کے ''ون مین ون ووٹ‘‘ کا مطالبہ منظور کر لیا۔ اسی طرح اپوزیشن پارٹیوں کے دیگر کئی مطالبات بھی مان لیے گئے مگرحادثہ یہ ہوا کہ ایوب خان نے اپنے ہی بنائے ہوئے دستور کے مطابق اقتدار سپیکر قومی اسمبلی کے حوالے کرنے کے بجائے آرمی چیف جنرل یحییٰ خان کے سپردکر دیا۔ اس طرح ایک بار پھر ملک کو مارشل لاء کی بھٹی میں جھونک دیا گیا۔ یحییٰ خان کی دوغلی پالیسیوں کی بنا پر ملک دولخت ہو گیا۔ اُس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کی تحریک یوں 'کامیاب‘ ہوئی کہ اقتدار بھٹو صاحب کے پاس رہا‘ نہ ہی اپوزیشن کی احتجاجی جماعتوں کے ہاتھ آیا بلکہ جنرل ضیا الحق نے اقتدار اپنے قبضے میں لے لیا۔ یہ تحریک بھٹو صاحب کی سزائے موت پر منتج ہوئی۔
تحریکوں میں ایک اہم ترین مرحلہ ہوتا ہے When to Stop? مگر جب ایک بار تحریک شروع ہو جاتی ہے تو پھر احتجاجی گھوڑا بگٹٹ بھاگتا ہے اور باگیں تحریک چلانے والوں کے ہاتھ میں بھی نہیں رہتیں۔ اسلامی جمہوری محاذ نے پیپلز پارٹی کے خلاف تحریک کو بھٹو صاحب سے کامیاب مذاکرات کر کے اسے تقریباً کنارے لگا لیا تھا مگر پھر بھٹو صاحب اپنی حد سے زیادہ خود اعتمادی کے اظہار کے لیے تسلیم شدہ مطالبات کی باقاعدہ منظوری کے اعلان سے پہلے بیرونِ ملک دورے پر روانہ ہو گئے۔ اس دوران غیر جمہوری قوتوں کو اپنا کھیل کھیلنے کا موقع مل گیا۔ بھٹو صاحب دورے سے واپس آئے تو اس دوران غیبی قوتوں نے کچھ اور فیصلے کر لیے اور پھر جو ہوا وہ ہماری تاریخ کا ایک انتہائی افسوسناک باب ہے۔
تحریک انصاف کے بعض سنجیدہ زعما کا کہنا ہے کہ جب ہمیں اعلیٰ عدالتیں ریلیف دے رہی ہیں اور ستاروں کی رفتار بھی کچھ ہم پر مہرباں نظر آ رہی ہے تو ایسے میں ہمیں خوب سوچ سمجھ کر مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنا چاہیے۔ احتجاج کرنا اور احتجاجی تحریک چلانا ہر سیاسی جماعت کا بنیادی دستوری حق ہے جس سے اسے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ اس مقبول عوامی پارٹی کے لیے ہمارا بن مانگے مشورہ یہ ہوگا کہ وہ جو بھی فیصلہ کرے خوب غور و خوض کے بعد پارٹی قیادت کے فورم سے متفقہ طور پر کرے۔ خیر‘ اب خان صاحب اپنی ہمشیرہ کے ذریعے فائنل کال دے چکے ہیں۔ یہ اب پارٹی قیادت کا مسئلہ ہے کہ وہ اس اعلان پر خان صاحب سے نظرثانی کرانے میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں۔ خان صاحب کو اس حقیقت پسندی سے کام لینا چاہیے کہ اہلِ پنجاب انہیں ووٹ تو دیں گے مگر ''مارو یا مر جاؤ‘‘ قسم کی کسی تحریک کے لیے بڑی تعداد میں نہیں نکلیں گے۔