کیا سیاست ہار گئی؟

تیسری دنیا کے ''جمہوری‘‘ ملکوں میں جمہوریت ہوتی ہی کتنی ہے‘ اوپر سے اگر سیاست اور ریاست میں کشمکش شروع ہو جائے تو بیچاری رہی سہی جمہوریت بھی جاں بلب ہو جاتی ہے۔
26 نومبر کو طرح طرح کی رکاوٹیں عبور کر کے پی ٹی آئی کارکنوں کا خیبرپختونخوا سے اسلام آباد ڈی چوک پہنچنا حیران کن اور پھر اسی روز رات کی تاریکی میں اُن کا افراتفری میں گاڑیاں چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہونا افسوسناک ہے۔ اسی رات کو ریاستی اور حکومتی سکیورٹی فورسز نے جس طرح اپنی رِٹ قائم کی‘ اس کے بارے میں جب تک مصدقہ اطلاعات نہ مل جائیں کوئی حتمی لب کشائی نہیں کی جا سکتی۔
پی ٹی آئی کے دو قانون دان سیاستدانوں نے ہلاکتوں کے مختلف دعوے کیے ہیں۔ 24 اور 25 نومبر کو حکومتی نمائندوں اور پی ٹی آئی قائدین کے مابین شٹل مذاکرات ہوتے رہے‘ ان مذاکرات میں بانی تحریک سے پی ٹی آئی قیادت کی ملاقاتیں بھی ہوئیں‘ حتیٰ کہ 25 نومبر کو اُن کی ایک ملاقات جیل میں رات گئے بھی خان صاحب سے ہوئی۔ وزیر داخلہ محسن نقوی کے بیان کے مطابق‘ اس ملاقات میں عمران خان نے پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت کی تجویز کو تسلیم کر لیا اور ڈی چوک میں دھرنا دینے کے بجائے سنگجانی کے مقام پر رک جانے اور وہیں جلسہ اور دھرنا دینے پر رضامندی کا اظہار کیا۔ اس سے یوں محسوس ہوتا تھا کہ حکومت نے مزاحمت کے بجائے مفاہمت کی پالیسی کو ترجیح دی ہے۔
تاہم بشریٰ بی بی کی قیادت کی بنا پر احتجاجی مارچ کے شرکا میں بہت جوش خروش پایا جا رہا تھا۔ مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں میں ایک کانسٹیبل کی شہادت کی خبر بھی آئی۔ ہندی زبان کا ایک محاورہ ہے کہ بالک ہٹ‘ تریا ہٹ اور راج ہٹ۔ یعنی بچے‘ عورت اور راج کی ضد شدید ہوتی ہے۔ بشریٰ بی بی نے خان صاحب کے میسج کو بھی ویٹو کر دیا اور کارکنوں کو ڈی چوک تک لے جانے پر بضد رہیں۔ یوں شہرِ اقتدار میں ایک ہی روز میں پہلے تریا ہٹ اور پھر راج ہٹ کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عدالتی فیصلے اور حکومتی اجازت نامے کے بغیر اسلام آباد ڈی چوک آنا خلافِ حکمت تھا۔ جس طرح بغیر انتظامات کے ڈی چوک میں دھرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا اسی تیزی سے 26 نومبر کو بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈاپور نے احتجاجی مارچ کے شرکا کو نامعلوم حالات کے رحم وکرم پر چھوڑا اور خود جلدی سے بھاگ جانے میں عافیت سمجھی۔ دھرنے کی ناکامی کے بعد پی ٹی آئی میں شدید اختلافات پیدا ہو چکے ہیں۔ سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ مستعفی ہو چکے ہیں جبکہ علی امین گنڈاپور نے پارٹی عہدہ چھوڑنے کی پیشکش کی ہے۔
پی ٹی آئی قائدین کو جس بالغ نظری اور ہوشمندی سے کام لینا چاہیے تھا وہ نہیں لیا جا سکا۔ سیاسی تحریکوں میں اہم مرحلہ ہوتا ہے کہ کب کہاں رکنا ہے مگر سیاسی نزاکتوں سے ناآشنا بشریٰ بی بی اس نکتے کو نہ سمجھ سکیں۔ دوسری طرف حکومت نے بھی دور اندیشی سے کام نہیں لیا۔ سیاسی احتجاجوں کو روکنے کے لیے حکومت نے جو پالیسی اختیار کی ہے‘ وہ مستقبل کے لیے بھی ایک مثال بن جائے گی۔ یہ آج کے حکمرانوں اور کل کی ممکنہ اپوزیشن کے حق میں کسی طرح نہیں ہوگا۔
حکومت کو اس بات پر بھی گہرائی سے غور وخوض کرنا چاہیے تھا کہ اس طرح ووٹ اور سٹریٹ پاور سے بھی لوگوں کا اعتماد اُٹھ جائے گا۔ ملک میں جتنی سیاسی سرگرمیوں کی اجازت ہوگی اور جتنی ملکی قوانین کے اندر رہتے ہوئے اظہار کی آزادی ہو گی‘ اتنے ہی لوگ انتہا پسندوں کے نرغے میں آنے سے محفوظ رہیں گے۔ پی ٹی آئی کی قیادت سمیت تمام جماعتوں کے قائدین اپنے ملک کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو انہیں معلوم ہوگا کہ ہماری تاریخ میں بارہا لمحوں نے خطا کی جس کی سزا ہم ابھی تک بھگت رہے ہیں۔ 1960ء کی دہائی سے لے کر 1980ء کی دہائی تک‘ بالعموم سیاستدانوں نے دانشمندی اور بالغ نظری کا ثبوت دیا تھا اور تصادم سے گریز کیا تھا اور یہ بات بھی ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ جہاں جہاں سیاستدانوں نے من مانی کو اپنا شیوہ بنایا وہاں وہاں ہمیں بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔ کالم کی تنگ دامانی کے باعث میں تفصیل میں نہیں جا سکتا۔
مولانا مودودیؒ مملکت خداداد پاکستان میں دستوری جدوجہد کے سب سے بڑے داعی اور جمہوریت کے علمبردار تھے۔ وہ آمریت کے زمانوں میں بھی ایک بات پر حق الیقین رکھتے تھے کہ اپنے مقصد کے لیے جتنی بھی جمہوری وقانونی سپیس موجود ہو‘ صرف اس کے اندر رہتے ہوئے اپنے مقصد کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے۔ مولانا مودودی کو چار بار پسِ دیوارِ زنداں بھیجا گیا۔ تین بار تو ان کی قید بہت طویل تھی جب انہیں 1973ء میں سزائے موت سنائی گئی تو انہوں نے بڑی دھج کے ساتھ تختۂ دار کو چوما۔ جب حکام کی طرف سے انہیں رحم کی اپیل پر دستخط کرنے کو کہا گیا تو انہوں نے اس پیشکش کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ زندگی اور موت کے فیصلے زمینوں پر نہیں آسمانوں پر ہوتے ہیں۔ مولانا مودودیؒ کی اس حق گوئی اور قانون پسندی کی بنا پر جب تک وہ زندہ رہے اس وقت تک اُن کے ہم عصر سیاستدان بھی ہر سیاسی معاملے میں اُن کی طرف دیکھتے اور اُن کی رائے کو بہت اہمیت دیتے تھے۔
وقت کی فوری ضرورت یہ ہے کہ قوم سیاسی حل کی طرف بڑھے۔ سیاست کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ ایک دوسرے کو برداشت کیا جائے۔ پارلیمنٹ کو تمام سیاسی مسائل کے حل کے لیے مرکزی فورم سمجھا جائے۔ وہاں کھل کر ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو سنا جائے‘ ایک دوسرے پر تنقید ضرور کی جائے مگر تنقید برائے تنقید سے اجتناب کیا جائے۔ تمام معاملات کو یہ فورم خود سلجھائے تو عدالتوں میں جانے اور پارلیمانی بھرم کھونے ضرورت باقی نہیں رہتی۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا اسلام آباد دھرنے میں سیاست ہار گئی ہے؟ سیاست تو نہیں ہاری البتہ غیر سیاسی طرزِ احتجاج کو وقتی طور پر ہزیمت ضرور اٹھانا پڑی ہے۔ ریاست کو بھی کچھ اور مزید صبر سے کام لینا چاہیے تھا۔ ہماری سیاسی کارکردگی مثالی نہیں۔ تاریخ کی بھی یہی گواہی ہے کہ ہم نے آزادی کے تقاضوں کو کماحقہٗ پورا نہیں کیا۔ نہ یہاں دستور اور قانون کی بالادستی قائم ہوئی اور نہ ہی حقیقی جمہوری طرزِ حکمرانی اختیار کیا جا سکا اور نہ ہی اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق پاکستان ایک فلاحی ریاست بن سکا۔
ہم نے گزشتہ کالم میں جناب مولانا فضل الرحمن کی خدمت میں اخباری صفحات کے ذریعے اور پھر زبانی گزارش کی تھی کہ وہ ایک قومی مفاہمتی و مصالحتی کمیٹی تشکیل دیں۔ ہم مولانا کے شکرگزار ہیں کہ انہوں نے جمعرات کے روز باقاعدہ اعلان کیا ہے کہ اگر پی ٹی آئی رابطے میں رہے تو وہ مصالحتی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ قارئین کو یاد دلا دوں کہ ہم نے گزشتہ کالم میں ایک عاجزانہ تجویز پیش کی تھی کہ مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں ایک پانچ رکنی قومی مفاہمتی کمیٹی تشکیل دی جائے‘ جس میں مولانا کے علاوہ صدرِ پاکستان آصف علی زرداری‘ سابق صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی‘ محمود خان اچکزئی اور سردار ایاز صادق شامل ہوں۔ مولانا نے اسی تجویز کو پسند کیا ہے اور باقاعدہ مصالحتی کردار ادا کرنے کی پیشکش کی ہے۔ ہمارے خیال میں اب دوطرفہ گولہ باری تھم جانی چاہیے اور باہمی الزام تراشی رک جانی چاہیے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں صدقِ دل کے ساتھ قومی مفاہمت کے لیے آگے بڑھیں گے۔ ہم دعاگو ہیں کہ جلد ازجلد مولانا کا مصالحتی مشن متحرک ہو اور کامیابی سے ہمکنار ہو۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں