اگر کسی ایک صدر کا انتخاب پوری دنیا پر اثر انداز ہوتا ہے تو وہ امریکہ ہے‘ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر اگر یہ کہوں کہ ان نتائج کے خود امریکہ پر اتنے اثرات مرتب نہیں ہوتے جتنے باقی دنیا پر‘ تو یہ غلط نہ ہوگا۔ امریکہ کی ہر دور میں کچھ پالیسیاں تو وہ ہیں جو تبدیل نہیں ہوتیں یا ان میں معمولی تبدیلیاں آتی ہیں۔ لیکن ریپبلکن یا ڈیمو کریٹ صدر کی تبدیلی سے دنیا کے مختلف خطوں اور ان کی صورتحال میں بسا اوقات بہت بڑی بڑی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ پاکستان بھی ان مثبت یا منفی نتائج کی زد میں آتا رہا ہے۔ ڈیمو کریٹ صدر جمی کارٹر (1977ء تا 1981ء) اور ریپبلکن صدر رونلڈ ریگن (1981ء تا 1989ء) کی مثال لے لیجیے۔ 1979ء میں جب روس نے افغانستان پر حملہ کیا اور افغان فوجوں کے ساتھ ساتھ روسی ایجنڈے کے افغان سربراہوں نے کابل کا اقتدار سنبھال لیا تو پاکستان کیلئے ایک سنگین صورتحال پیدا ہو گئی۔ کارٹر انتظامیہ نے اس معاملے کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا؛ چنانچہ دو سال تک انہوں نے اس معاملے میں دخل نہیں دیا۔ نیم دلی سے امداد کی پیشکش کی گئی تو وہ اتنی معمولی تھی کہ صدر پاکستان جنرل ضیاالحق نے اسے مونگ پھلی جیسی مدد کہہ کر مسترد کر دیا۔ مزے کا نکتہ یہ ہے کہ جمی کارٹر مونگ پھلی کے کاشتکار تھے۔ لیکن 1981ء میں ریپبلکنز کے آتے ہی صورتحال تبدیل ہو گئی۔ ریگن انتظامیہ کو اس وقت نظر آنے لگا تھا کہ روس کو افغان سرزمین پر شکست دی جا سکتی ہے۔ چنانچہ اس نے پاکستان اور افغان مزاحمت کو غیر مشروط اور بھر پور امداد پہنچانا شروع کی۔ بطور صدر‘ رونلڈ ریگن کا دورانیہ آٹھ سال رہا۔ یہ آٹھ سال پاکستان کیلئے نہایت اہم تھے۔ اسی زمانے میں پاکستان نے ایٹمی صلاحیت حاصل کی‘ ایف سولہ کے جدید ترین طیارے فضائی بیڑے میں شامل ہوئے اور سب سے اہم‘ ٹیلو ں والی زمین میں روس پھنس کر رہ گیا۔ آگے کے ایجنڈے پر عمل اس کیلئے ممکن نہ رہا۔ پاکستان کے حوالے سے اس جنگ کے مثبت اور منفی پہلوئوں پر بہت بات ہو چکی ہے اور یہاں یہ ہمارا موضوع نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ امریکی صدر کی تبدیلی سے دنیا اور اس خطے میں کتنی بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ یہ محض ایک مثال ہے ورنہ دنیا بھر سے بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔
اب 5 نومبر کو یہ فیصلہ ہونا ہے کہ نیا امریکی صدر کون ہوگا؟ ڈیمو کریٹ امیدوار کملا ہیرس یا ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ؟ یہ انتخاب ابھی تک معلق ہے‘ اور کسی طرف بھی جا سکتا ہے۔ مقابلہ نہایت سخت ہے اور یہ تجزیہ آسان نہیں کہ کون سا امیدوار وائٹ ہائوس میں مقیم ہونے والا ہے۔ دونوں کے حق میں وزن ڈالنے والے بہت سے عناصر موجود ہیں۔ چونکہ 5 نومبر میں اب محض چند دن باقی ہیں اس لیے تجزیہ کار نسبتاً بہتر اندازہ لگانے کی پوزیشن میں ہیں۔ ذہن میں رکھیے کہ امریکی ریاستیں اپنی اپنی پولنگ کی تاریخیں طے کرنے میں آزاد ہوتی ہیں اور ان کے فیصلے کے مطابق ہی پولنگ شروع ہوتی ہے۔ جن ریاستوں میں ووٹنگ کا عمل شروع ہو چکا ہے ان میں الاسکا‘ اریزونا‘ ارکنساس‘ کیلیفورنیا‘ کولوراڈو‘ کنکٹیکٹ‘ ڈیلاوئیر‘ فلوریڈا‘ جارجیا‘ گوام‘ ہوائی‘ انڈیانا‘ مشی گن‘ نیویارک‘ اوہائیو‘ واشنگٹن‘ وسکونسن وغیرہ شامل ہیں۔ یہ 25 ریاستیں ہیں‘ جن میں اس وقت بھی ووٹر امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ کر رہے ہیں البتہ یہ فیصلہ 5 نومبر کو سامنے آئے گا۔ اب تک کے اعداد وشمار کے مطابق 60 فیصد ووٹرز نے ووٹ ڈالا ہے۔ امریکی نظام انتخاب الگ طرز کا ہے۔ خلاصہ یوں سمجھیے کہ اٹھارہ کروڑ پینسٹھ لاکھ ووٹرز پہلے اپنی اپنی ریاستوں میں اپنے ریاستی نمائندوں کو چنیں گے‘ اور پھر یہ نمائندے‘ جنہیں ایک اسمبلی سمجھ لیجیے‘ صدر کا انتخاب کریں گے۔ ابھی ریاستوں کے اندرونی انتخاب‘ گورنرز اور قانون ساز ایوان کی بات چھوڑتے ہوئے صرف صدارتی انتخاب کی بات کرتے ہیں۔ صدر کا انتخاب الیکٹورل کالج کرتا ہے اور ریاستوں کے چنیدہ نمائندے یہ الیکٹورل کالج بناتے ہیں۔ ہر ریاست کے پاس اپنے کچھ ووٹ ہیں اور تمام ریاستوں کے ووٹ مل کر الیکٹورل کالج بنتا ہے۔ 48 ریاستوں میں زیادہ ووٹ لینے والا ہی جیتا ہوا تصور ہوتا ہے لیکن نبراسکا اور مین میں یہ اصول لاگو نہیں ہوتا بلکہ وہاں الگ طریقہ ہے۔ کل 538 ووٹ مل کر الیکٹورل کالج بناتے ہیں۔ اس نظام میں ضروری نہیں کہ وہ امیدوار صدر بنے جس نے سب سے زیادہ عام اور مقبول ووٹ حاصل کیے۔ 2016ء میں ہیلری کلنٹن نے عام ووٹ ڈونلڈ ٹرمپ سے زیادہ حاصل کیے تھے لیکن وہ الیکٹورل کالج ہار گئی تھیں۔ تمام امریکی ریاستوں کو سیاسی اعتبار سے تین اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ڈیمو کریٹس کی بالا دستی والی ریاستیں جنہیں نیلی ریاستوں کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ریپبلکنز کی بالادستی والی ریاستیں جنہیں سرخ ریاستیں کہا جاتا ہے اور جھولتی ہوئی یعنی سوئنگ ریاستیں‘ جو کسی بھی طرف جا سکتی ہیں۔ انتخاب کے موقع پر یہی سوئنگ ریاستیں سب سے زیادہ اہم ہو جاتی ہیں۔ صدر کو منتخب ہونے کیلئے 270 الیکٹورل ووٹ درکار ہوتے ہیں۔ نیلی ریاستیں یعنی ڈیمو کریٹس کی حامی ریاستیں اس وقت 21سمجھی جا رہی ہیں۔ ان میں الیکٹورل ووٹ 226 ہیں۔ جبکہ ریپبلکنز کی حامی ریاستیں 22 ہیں اور یہاں الیکٹورل ووٹ 235 ہیں۔ سات ریاستیں جھول رہی ہیں۔ مشی گن‘ وسکونسن‘ جارجیا‘ پنسلوینیا‘ نواڈا‘ ایریزونا‘ شمالی کیرولائنا۔ بنیادی طور پر یہ جنگ کا اصل میدان ہیں۔ اریزونا کے 11 ووٹ‘ جارجیا 16 ووٹ‘ مشی گن 15 ووٹ‘ نواڈا 6 ووٹ‘ شمالی کیرولائنا 16 ووٹ‘ پنسلوینیا 19 ووٹ اور وسکونسن کے 10 الیکٹورل ووٹ ہیں۔ یہ کُل 93 ووٹ ہیں جن کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ ریپبلکن ریاستوں میں ٹیکساس کے 40 ووٹ ہیں۔ لیکن دوسری طرف کیلیفورنیا‘ جو ڈیمو کریٹ سٹیٹ سمجھی جاتی ہے‘ کے پاس سب سے زیادہ‘ 54 ووٹ ہیں۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ چار جھولتی ریاستوں میں ریپبلکن کا پلہ بھاری ہے اور تین ریاستوں میں ڈیمو کریٹ کا۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ برتری بہت معمولی یعنی ایک سے دو فیصد ہے۔ لہٰذا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مقابلہ کتنا سخت ہے۔ ایک نامور تجزیہ کار ویب سائٹ کے مطابق اس وقت تک ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس 231 ووٹ ہیں جبکہ کملا ہیرس 214 ووٹ لیے ہوئے ہیں۔ ایک طرف ووٹنگ جاری ہے اور دوسری طرف ووٹروں کو اپنے حق میں متحرک کرنے کیلئے‘ جو ابھی متذبذب ہیں ‘ دونوں پارٹیاں اور ان کا حامی پریس ہر طرح کوشش کر رہا ہے۔
پاکستان کے حوالے سے بات کریں تو بائیڈن دور بلکہ تمام ڈیمو کریٹس کے ادوار پاکستان کے لیے بہتر نہیں تھے۔ جبکہ ٹرمپ سابقہ دور میں پاکستان کے خلاف اتنے تحفظات نہیں رکھتے تھے۔ ان کے دور میں بانی پی ٹی آئی نے امریکہ کا دورہ کیا تھا جسے کامیاب سمجھا جاتا ہے۔ وہ سابق پاکستانی وزیراعظم کے معترف بھی رہے۔ اس لیے پی ٹی آئی ٹرمپ کا برسر اقتدار آنا بہتر سمجھتی ہے۔ کملا ہیرس کی صورت میں پاکستان کے لیے بائیڈن دور سے الگ کوئی بڑی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ یہی صورتحال غزہ اور فلسطین کی ہو گی۔ جبکہ ٹرمپ کی صورت میں پالیسی میں تبدیلی ممکن ہیں۔ امریکی مسلم ووٹروں کیلئے یہ بہرحال مشکل سوال ہے کہ وہ کس جماعت کو ووٹ دیں۔ ایک طرف ڈیمو کریٹس ہیں جن کی کھلی حمایت سے غزہ میں نسل کشی جاری رہی اور اسرائیل نے پورے خطے کو جہنم بنا کر رکھ دیا۔ دوسری طرف ٹرمپ ہیں جنہوں نے اپنے دور میں اسرائیل کی حمایت میں کئی اقدامات کیے۔ دونوں میں تقابل کیا جائے تو بائیڈن کی ناپسندیدگی ٹرمپ کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ اس لیے بظاہر مسلم اور عرب نژاد ووٹ ریپبلکن کے حق میں ہے۔ دوسری طرف کملا ہیرس کو سیاہ فام اقلیت کی حمایت زیادہ حاصل ہے۔ نیز پہلی ممکنہ خاتون صدر ہونے کا بھی فائدہ انہیں مل سکتا ہے۔
دنیا امریکہ کی طرف دیکھ رہی ہے۔ یہ ایسی بیگانی شادی ہے جس میں عبداللہ کا دیوانہ ہونا بنتا ہے۔ اس لیے کہ بہت کچھ یہ انتخاب طے کرے گا کہ عبداللہ کے ساتھ آگے کیا ہونے والا ہے۔