کوئی گوشہ نشین‘ اپنے علمی کاموں میں منہمک‘ بڑے مراکز سے دور شخص کتنا مرکزی ہوتا ہے‘ یہ دیکھنا ہو تو ڈاکٹر اسلم انصاری کی رخصت دیکھ لیجیے۔ بڑا نقصان ہے اور بڑا دکھ۔ کون یہ دکھ جانے گا:
تُو منکرِ وفا ہے تجھے کیا دکھائوں دل
غم شعلہ نہاں ہے بھلا کیادکھائی دے
سوچتا ہوں کہ 60ء کی دہائی میں کیسے کیسے باکمال اورینٹل کالج‘ پنجاب یونیورسٹی لاہور میں اکٹھے ہو گئے تھے۔ اساتذہ بھی‘ طالبعلم بھی اور اورینٹل کالج میں ان دونو ں کے مستقل ملاقاتی بھی۔ ایک ایک نام ایسا جو تخلیق‘ تحقیق اور تنقید کے میدانوں میں پورے اداروں پر بھاری تھا۔ اساتذہ میں ڈاکٹر سید عبداللہ‘ ڈاکٹر عبادت بریلوی‘ ڈاکٹر وحید قریشی‘ ڈاکٹر عابدی و علیٰ ہذا القیاس۔ طلبہ میں جناب انور مسعود‘ ڈاکٹر خورشید رضوی‘ ڈاکٹر آفتاب اصغر‘ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا‘ ڈاکٹر اسلم انصاری اور بہت سے نامور۔ ملنے والوں میں ناصر کاظمی‘ فیض احمد فیض‘ صوفی تبسم‘ احسان دانش۔ سوچتے جائیے اور نام بڑھتے چلے جائیں گے۔ تمام نام دہرانا مقصد ہے ہی نہیں‘ محض ایک اندازہ کرنا کافی ہے۔ اس تکون کے تینوں نقطوں کو آپس میں ملا دیں تو اس زمانے کے لاہور کا ادبی چہرہ بن جاتا ہے۔ ایسا چہرہ جس کے رنگ کسی کے رخصت ہو جانے کے بعد بھی نہ بجھ سکے ہیں۔ نہ خدوخال آج تک ماند پڑے ہیں۔
پاک گیٹ‘ ملتان کے ایک محلے سے اٹھ کر آنے والا نوجوان اسلم انصاری اورینٹل کے زمانہ طالبعلمی ہی میں مشہور ہو گیا۔ ایسی ناموری جو اس زمانے میں اس کے دیگر طالبعلم ساتھیوں کو حاصل نہیں تھی۔ اُس زمانے کا ملتان ایک قصبے ہی کی طرح سمجھ لیجیے۔ اگرچہ ملتان بھی ادبی مشاہیر سے خالی نہ تھا لیکن لاہور بہرحال اس کے مقابلے میں بہت بڑا ادبی مرکز تھا۔ وجیہ وشکیل نوجوان اسلم انصاری لاہورمیں بہت جلد مرکزِ توجہ بن گیا۔ ایسی غزل لکھنے والے اس وقت نوجوانوں میں تھے ہی کتنے۔ کلاسیکی روایت‘ جدت احساس‘ طاقتور مصرع اور عام فہم انداز‘ اور سب مل کر تاثیر میں گندھے ہوئے۔ شعر اس پر اترتا تھا اور اس کے شعر دل میں اترتے تھے۔ لیکن ٹھہریے! پہلے ذہن میں وہ سارا ماحول تازہ کر لیجیے۔ ان سارے غزل گوئوں کے نام دہرا لیجیے جو اُس زمانے کے لاہور میں موجود تھے۔ جب آپ یہ نام دہرا کر ان کے قدوقامت کو ذہن نشین کر چکیں تو پھر ادراک ہو گا کہ ایم اے کے ایک نوجوان کی شہرت کا آغاز کن شعروں کے ذریعے ہوا تھا۔
میں اس گلی میں گیا لے کے زعم ِرسوائی
مگر مجھے تو وہاں کوئی جانتا ہی نہ تھا
کسے کہیں کہ رفاقت کا داغ ہے دل پر
بچھڑنے والا تو کھل کر کبھی ملا ہی نہ تھا
......
دیوارِ خستگی ہوں مجھے ہاتھ مت لگا
میں گر پڑوں گا دیکھ مجھے آسرا نہ دے
پیچھے ہٹوں تو پائوں پکڑتی ہے یہ زمیں
آگے بڑھوں تو وہم مجھے راستا نہ دے
......
میں نے روکا بھی نہیں اور وہ ٹھہرا بھی نہیں
حادثہ کیا تھا جسے دل نے بھلایا بھی نہیں
جانے والوں کو کہاں روک سکا ہے کوئی
تم چلے ہو تو کوئی روکنے والا بھی نہیں
وہ تو صدیوں کا سفر کرکے یہاں پہنچا تھا
تو نے منہ پھیر کے جس شخص کو دیکھا بھی نہیں
کون سا موڑ ہے کیوں پائوں پکڑتی ہے زمیں
اس کی بستی بھی نہیں‘ کوئی پکارا بھی نہیں
یا ہمیں کو نہ ملا اس کی حقیقت کا سراغ
یا پس پردہ عالم میں کوئی تھا بھی نہیں
میں ملتان سے آبائی تعلق رکھنے والے‘ ڈاکٹر حفیظ الرحمن کے قابل فرزند‘ استاذِ ادب‘ ڈاکٹر وحید الرحمن کا ہمیشہ شکر گزار رہوں گا کہ ڈاکٹر اسلم انصاری کا مجھ سے پہلا بھرپور تعارف انہوں ہی نے کرایا۔ اس سے قبل میں ان کے جستہ جستہ شعر پڑھتا رہا تھا لیکن وحید الرحمن کی عطا کردہ خواب وآگہی (جناب اسلم انصاری کا پہلا شعری مجموعہ 1981ء) وہ چمن تھا جس میں داخل ہوا تو گویا دبستاں کھل گیا۔ یہ جناب اسلم انصاری کی ابتدائی بیس سالہ کاوشوں کا مجموعہ ہے اور اسے ان کے بہترین اردو مجموعے کی حیثیت حاصل ہے۔ اسی مجموعے میں وہ شاہکار نظم بھی شامل ہے جس کی تخلیقی طاقت چار پانچ عشرے گزر جانے کے باوجود اسی آب وتاب کے ساتھ دلوں میں جگمگاتی ہے۔ اس نظم ''گوتم کا آخری وعظ‘‘ نے اردو نظم پر عشروں سے سایہ کیے رکھا ہے۔ میں تخت بھائی‘ ضلع مردان کے بدھ سٹوپاز اور خانقاہ میں گھومتا تھا اور یہ نظم اپنی طاقت کے ساتھ میرے خون میں رقص کرتی تھی۔ یہ نظم وہیں اسی ماحول میں دہرانے کا حق تھا۔ وہیں ان چھوٹی چھوٹی مراقبہ گاہوں میں جاکر پتا چلتا تھا کہ اس نظم کی یہ سطر کیا معنی رکھتی ہے:
''بدن کو تحلیل کرنے والی ریاضتوں پر عبور پائے ہوئے؍ سکھوں کو تجے ہوئے بے مثال لوگو!‘ میں بجھ رہا ہوں‘‘
اُف! کیا نظم ہے کہ اس کی صرف چند سطروں کا اقتباس پیش کرنا ہو تو ناانصافی لگنے لگتی ہے۔ مہاتما بدھ کی جو بھی تعلیمات رہی ہوں‘ اس نظم کے بعد ہم جیسوں کیلئے یہی نظم ان کی تعلیمات کا خلاصہ ہے۔ ڈاکٹر اسلم انصاری کچھ نہ لکھتے صرف یہ لافانی نظم لکھی ہوتی تو ان کے نام کیلئے کافی تھی۔ ''میں دکھ اٹھا کر‘ مرے عزیزو‘ میں دکھ اٹھا کر؍ حیات کی رمزِ آخریں کو سمجھ گیا ہوں: تمام دکھ ہے؍ وجود دکھ ہے‘ وجود کی یہ نمود دکھ ہے؍ حیات دکھ ہے‘ ممات دکھ ہے؍ یہ ساری موہوم و بے نشاں کائنات دکھ ہے؍ شعور کیا ہے؟ اک التزامِ وجود ہے‘ اور وجود کا التزام دکھ ہے؍ جدائی تو خیر آپ دکھ ہے‘ ملاپ دکھ ہے؍ کہ ملنے والے جدائی کی رات میں ملیں ہیں‘ یہ رات دکھ ہے؍ یہ زندہ رہنے کا‘ باقی رہنے کا شوق‘ یہ اہتمام دکھ ہے؍ سکوت دکھ ہے‘ کہ اس کے کربِ عظیم کو کون سہہ سکا ہے؍ کلام دکھ ہے‘ کہ کون دنیا میں کہہ سکا ہے جو ماورائے کلام دکھ ہے‘‘
میں نے اپنے سفرنامے مسافر (2021ء) میں تخت بھائی کے احوال میں اس نظم کے اقتباس تحریر کیے اور مسافر ان کی خدمت میں بھیجی۔ اس کے جواب میں انہوں نے جو دو خطوط بھیجے وہ میرے لیے سند ہیں۔ انہوں نے سفرنامے کی حد درجہ تعریف کی اور یہ بھی لکھا کہ ''تین دن پہلے یہ کتاب ملنے کے بعد آج 22 مئی تک میں نے کسی کتاب کو ہاتھ نہیں لگایا اور یہی سحر آفرین کتاب پڑھتا رہا ہوں۔ بہائیوں کی عبادت گاہ کی منظر کشی کرتے ہوئے آپ نے بلا مبالغہ اعجازِ بیان کی حدوں کو چھو لیا ہے‘‘۔ یہ ایک بڑے تخلیق کار کی طرف سے کمال حوصلہ افزائی تھی۔ مجھے ہمیشہ یہ محسوس ہوا کہ بعد کے زمانوں میں ڈاکٹر اسلم انصاری کو دانستہ نظر اندازکیا جاتا رہا ہے۔ ورنہ ناصر کاظمی کی ''پہلی بارش‘‘ کی بحر‘ اسلوب اور انداز وضع کرنے والے تو اسلم انصاری ہی تھے۔ پہلی بارش کی پہلی بوندیں انہی کی تھیں اور وہ یہ بات کہا بھی کرتے تھے۔ پہلی بارش پر بات کرنے والوں نے ہمیشہ اس پہلو کو نظر انداز کیا ہے۔ خیر فسانہ ختم ہوا۔ اردو‘ فارسی‘ انگریزی‘ پنجابی اور سرائیکی کے شناور ڈاکٹر اسلم انصاری کی سرگزشتِ عمر 22 اکتوبر 2024ء کو تمام ہوئی۔ ایسا تخلیق کار تو خیر‘ ایسا صاحبِ مطالعہ بھی کم ہو گا۔ انہو ں نے جتنا کام کیا‘ جتنی کتابیں لکھیں اتنی تو بہت سے لوگ پڑھ نہیں پاتے۔ ڈاکٹر صاحب! آپ نے کہا تو یہ ہے لیکن سچ یہ ہے کہ آپ جیسا کوئی دوسرا چہرہ نہیں ہے۔
آئنہ خانہ عالم میں کھڑا سوچتا ہوں
میں نہ ہوتا تو یہاں کون سا چہرہ ہوتا