"AIZ" (space) message & send to 7575

پشاور میں حجیت حدیث کانفرنس

پشاور پاکستان کا اہم شہر اور صوبہ خیبر پختونخوا کا دارالحکومت ہے۔ یہ شہر سیاسی‘ سماجی اور مذہبی اعتبار سے ایک اہم شہر شمار ہوتا ہے جہاں بڑی بڑی تقریبات کا انعقاد ہوتا رہتا ہے۔ پشاور کے دوست عرصۂ دراز سے مجھے وہاں آنے کی دعوت دے رہے تھے لیکن مصروفیات کی وجہ سے میں نہ جا سکا۔ کچھ عرصہ سے دوستوں کا اصرار بہت زیادہ بڑھ گیا تھا‘ ایسے میں پشاور کی شوریٰ علمائے اہل حدیث نے مجھے حجیت حدیث کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی تو یہ دعوت قبل کر لی۔ دو روزہ حجیت حدیث کانفرنس ہر سال پشاور میں منعقد ہوتی ہے جس میں ملک بھر سے جید علماء شرکت کرتے ہیں۔ مولانا عبدالعزیز نورستانی‘ مولانا امین اللہ پشاوری‘ مولانا عنایت الرحمن‘ مولانا عبدالبصیر اور دیگر جید علما ان اجتماعات میں تشریف لاتے اور علمی نکات سے لوگوں کو مستفیض کرتے ہیں۔ 20 نومبر کی شام کو میں اپنے دوستوں کے ہمراہ پشاورکیلئے روانہ ہوا اور رات گئے ہم پشاور پہنچے ‘جہاں شوریٰ علمائے اہلحدیث کے اراکین نے جامعہ محمد بن اسماعیل البخاری میں بڑے پُرتپاک انداز سے ہمارا استقبال کیا۔ رات کے کھانے کے بعد کچھ دیر ان سے مختلف امور پر تبادلۂ خیال ہوتا رہا اور پھر تمام ساتھی محو خواب ہو گئے۔ فجر کی نماز کی ادائیگی کے بعد ایک مرتبہ پھر آرام کا موقع میسر آیا‘ البتہ ظہر کی نماز سے قبل صوبہ بھر سے آنے والے بہت سے اہم اور ممتاز ساتھیوں سے گفت وشنید کا موقع ملا۔ مولانا امین اللہ پشاوری سے ماضی میں بہت سی ملاقاتیں رہیں اور ایک مرتبہ پھر خوشگوار ملاقات کا موقع میسر آیا۔ نمازِ عصر کی ادائیگی کے بعد حجیت حدیث کے موضوع پر میرا خطاب تھا۔ جب میں پنڈال میں پہنچا تو ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو موجود پایا۔ اس موقع پر میں نے جن گزارشات کو دوست احباب کے سامنے رکھا‘ ان کو کچھ کمی بیشی اور ترامیم کے ساتھ قارئین کی نذر کرنا چاہتا ہوں:
اس دنیا میں انسان کے پاس جتنی بھی نعمتیں موجود ہیں‘ ان میں سے کوئی نعمت بھی صراطِ مستقیم کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ چنانچہ انسان کو ہر حال میں صراطِ مستقیم پر گامزن رہنے کیلئے بھرپور انداز سے کوشش کرنی چاہیے۔ اگر انسان مالدار ہو اور صراطِ مستقیم پہ نہ ہو تو اسے قارون کے انجام پر نظر رکھنی چاہیے۔ اگر انسان عہدیدار ہو اور ہدایت پہ نہ ہوتو ہامان کا انجام آنکھوں کے سامنے ہونا چاہیے۔ اگر وہ حاکمِ وقت ہو اور ہدایت پر نہ ہو تو فرعون و نمرود کا انجام اس کے پیش نظر ہونا چاہیے۔ اگرگمراہ انسان کا تعلق کسی بڑے خاندان سے ہے تو اس کو ابولہب کے انجام سے عبرت حاصل کرنی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ صاحبِ بصیرت لوگ صراطِ مستقیم کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور وہ کسی بھی قیمت پر اس راستے سے دستبردار ہونے کے لیے آمادہ وتیار نہیں ہوتے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے مختلف ادوار میں مختلف رسولوں کو بنی نوع انسان کی ہدایت کیلئے مبعوث فرمایا اور آخر میں نبی پاک حضرت محمد کریمﷺ کو انسانیت کی ہدایت کیلئے مبعوث فرما کر اس بات کو واضح فرما دیا کہ آپﷺ کا راستہ ہی سیدھا راستہ ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے بنی نوع انسان کی رہنمائی کیلئے آپﷺ کے قلبِ اطہر پر قرآن مجید کا نزول فرمایا۔ سورۃ النحل کی آیت 44 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''یہ ذکر (کتاب) ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے‘ لوگوں کی جانب جو نازل کیا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کر بیان کر دیں‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ آل عمران کی آیت 164 میں اعلان فرماتے ہیں ''بیشک مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ انہی میں سے ایک رسول ان میں بھیجا‘ جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے‘ یقینا یہ سب اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے‘‘۔ اس آیت مبارکہ پہ غور کرنے سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ نبی کریمﷺ لوگوں کو کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے اور ان کا تزکیہ فرمایا کرتے تھے۔
کتاب وسنت کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جس طرح قرآن مجید کی آیات ایک دوسرے کی تفسیر اور وضاحت کرتی ہیں اسی طرح احادیث طیبہ بھی قرآن مجید کے متن کی مکمل طور پر وضاحت کرتی ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے کئی ایسی باتوں کا ذکر کیا جن کے مکمل مفہوم کو سمجھنے کیلئے ہمیں حدیث وسنت سے مراجعت کی ضرورت پڑتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں سورۂ لہب کا نزول فرمایا‘ اس میں ابولہب اور اس کی بیوی کی تباہی اور بربادی کا ذکر ہے۔ اگر قرآن مجید سے ابولہب کے حالات کو معلوم کرنا چاہیں تو بات سمجھ نہیں آتی لیکن حدیث اور سیرت کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ابولہب نبی کریمﷺ کا سگا چچا تھا جو آپﷺ کی عداوت میں اس حد تک بڑھ گیا کہ ہمہ وقت آپﷺ کے مشن کی ہر حالت میں مخالفت کیا کرتا تھا۔ اسی طرح سورۃ الفیل میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہاتھی والوں کے انجامِ بد کا ذکر کیا۔ ہاتھی والوں کے واقعے کی تفصیل بھی ہمیں کتبِ سیرت میں ملتی ہے کہ ابرہہ ہاتھیوں کے ایک لشکر کے ساتھ بیت اللہ کے حوالے سے ارادۂ بد لیے آیا تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کو پرندوں کے ذریعے سنگسار کر دیا۔ قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے نمازوں کی فرضیت کا مختلف مقامات پہ ذکر کیا اور سورۃ البقرہ کی آیت 238 میں ارشاد فرمایا کہ ''نمازوں کی حفاظت کرو‘ بالخصوص درمیان والی نماز کی‘‘۔ احادیث کے متن پہ غور کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ درمیانی نماز ''عصر کی نماز‘‘ ہے۔
تنہا قرآن مجیدکو کافی سمجھنے والا فجر‘ ظہر‘ عصر‘ مغرب اور عشاء کے نہ تو مواقیت کا تعین کر سکتا ہے اور نہ ہی ان کی رکعتوں کے بارے میں کوئی حتمی بات کر سکتا ہے۔ اسی طرح نماز کی ادائیگی میں قیام‘ رکوع‘ سجود‘ تشہد اور سلام جیسے امور سے متعلق رہنمائی قرآن مجید سے نہیں بلکہ احادیث طیبہ سے حاصل ہوتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں فرضیتِ حج کا ذکر کر کے سورۃ البقرہ کی آیت 197 میں اس کے مہینوں کا ذکر کیا اور ارشاد فرمایا ''حج کے مہینے معلوم ہیں‘‘۔ ان معلوم مہینوں کو ہم قرآن مجید سے نہیں جان سکتے بلکہ ان کے بارے میں ہمیں احادیث طیبہ سے معرفت ملتی ہے کہ شوال‘ ذیقعد اور ذوالحج میں احرام باندھنے والا شخص حج کا احرام باندھ رہا ہوتا ہے۔ ایسا شخص 8 ذوالحجہ سے 12 ذوالحجہ تک اراکین حج کو مکمل کرتا ہے اور اہلِ تقویٰ اور اہلِ احسان 13ویں ذوالحجہ کو بھی ساتھ ملا کر اس فریضے سے سبکدوش ہوتے ہیں۔ یہ تمام تفاصیل احادیث سے حاصل ہوتی ہیں۔ ولادت کے بعد سر کو مونڈھنا اور عقیقے سے متعلق معلومات کتب احادیث ہی میں موجود ہیں۔ اسی طرح نکاح کے آداب اور شرائط‘میت کی تجہیز وتکفین کی تمام معلومات بھی انسان کو کتب احادیث ہی سے حاصل ہوتی ہیں۔
انسان ارکانِ اسلام کی بجا آوری سے لے کر اپنے معاشی ومعاشرتی اور دیگر امور کے انجام دہی کے لیے حدیث وسنت کی رہنمائی کا محتاج ہے۔ بعض لوگ جو اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ تنہا قرآن مجید سے دین سے متعلقہ تمام معلومات حاصل ہو سکتی ہیں‘ وہ استخفافِ سنت کہ عارضے میں مبتلا ہیں‘ ان لوگوں کو اپنے ایمان کی فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر انسان صراطِ مستقیم پہ رہنا چاہتا ہے تو اس کو حضرت رسول اللہﷺ کے فرامین کے ساتھ تمسک اختیار کرنا ہو گا‘ اس لیے کہ یہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کا فرمان ہے کہ رسول اللہﷺ کی زندگی بہترین نمونہ ہے‘ آپﷺ کی اتباع کرنے والا اللہ کی محبت کا حقدار ہے اور جو آپﷺ کی اطاعت کرتا ہے وہ درحقیقت اللہ کی اطاعت کرتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو حدیث و سنت کے ساتھ تمسک اختیار کرنے کی توفیق دے‘آمین!
جملہ علما اور عوام نے بڑی دلجمعی کے ساتھ ان گزارشات کو سنا اوربعد ازاں انتہائی گرم جوشی سے مجھے الوداع کیا۔ واپسی پر اٹک میں قرآن وسنہ موومنٹ اٹک کے چیئرمین حافظ شیر محمد‘ بھائی ابوبکر خالد اور دیگر کارکنان و دوست احباب نے ایک پرتپاک ضیافت کا اہتمام کر رکھا تھا۔ یوں یہ سفر اپنے جلو میں بہت سی خوشگوار کو یادوں کو لیے اختتام کو پہنچا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں