"SUC" (space) message & send to 7575

مشرقِ وسطیٰ کی چونکا دینے والی تبدیلیاں

اگرچہ بات مذمت‘ مطالبات اور بیانات سے آگے نہیں بڑھی لیکن 11 نومبر کو سعودی عرب کی میزبانی میں ریاض کی عرب مسلم سربراہی کانفرنس کئی چونکا دینے والے پہلو لائی ہے جن میں سب سے بڑا اور اہم معاملہ اسرائیل کیلئے سعودی عرب کی بظاہر تبدیل ہوتی پالیسی ہے۔ پہلی بار سعودی سربراہ محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ اسرائیل نسل کشی اور قتلِ عام کا مرتکب ہو رہا ہے۔ غزہ میں جنگ کے آغاز سے اب تک یہ سب سے سخت بیان ہے جو سعودی سربراہ کی طرف سے سامنے آیا ہے۔ محمد بن سلمان نے اسرائیل سے کہا کہ وہ مزید اقدامات سے باز رہے‘ انہوں نے لبنان اور غزہ پر اسرائیلی حملو ں کی بھی سخت مذمت کی۔ اس سے بھی چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ انہوں نے کہا کہ اسرائیل ایرانی سرزمین پر حملوں سے باز رہے۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان السعود نے کہا کہ اسرائیلی جارحیت کو روکنے میں پوری عالمی برادری ناکام ہوئی ہے۔ کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ بھی سابقہ اعلامیوں سے مختلف اور سخت ہے۔ مطالبہ کیا گیا ہے کہ عالمی دنیا اسرائیل کو ہتھیاروں کی فروخت روکے۔ لبنان میں فوری جنگ بندی کی جائے۔ اسرائیل غزہ کی پٹی سے مکمل دستبردار ہو۔ تمام گزرگاہیں کھولی جائیں اور انسانی امداد کی رسائی تیز رفتار‘ محفوظ اور یقینی بنائی جائے۔
اس کانفرنس کا اعلان 30 اکتوبر کو کیا گیا اور 11 نومبر کو یہ منعقد ہو گئی۔ یہ کانفرنس دراصل 22 رکنی جوائنٹ عرب لیگ اور 57 رکنی مسلم ممالک کی تنظیم کی مشترکہ کانفرنس تھی۔ ایک دن قبل سعودی وزیر خارجہ نے مصری وزیر خارجہ کی موجودگی میں کانفرنس کے انتظامی اجلاس کی صدارت کی۔ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اس غیرمعمولی کانفرنس میں کن عرب اور مسلم سربراہان نے شرکت کی۔ پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف‘ ترک صدر رجب اردوان‘ لبنانی وزیراعظم نجیب میقاتی‘ فلسطینی صدر محمود عباس‘ نائیجیرین صدر بولا تینوبو‘ شام کے بشار الاسد سمیت خلیجی ممالک کے سربراہان نے اس کانفرنس میں شرکت کی۔ ایرانی صدر مسعود پزشکیان مصروفیات کے سبب اس میں شریک نہیں ہو سکے لیکن نائب صدر محمود رضا عارف نے انکی نمائندگی کی۔ اس سے قبل بھی او آئی سی اور جوائنٹ عرب لیگ کے اجلاسوں میں مسلم اور عرب ممالک اسرائیل کی مذمت میں اعلامیے جاری کر چکے ہیں‘ لیکن سعودیہ کی میزبانی میں بلائی گئی اس کانفرنس میں کئی چیزیں واضح ہوتی ہیں اور مستقبل کی ممکنہ پالیسیوں کے اشارے ملتے ہیں۔
یہ ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ عرب اور مسلم ممالک کے سربراہان اسرائیل کے معاملے میں شدید دہرے دباؤ کا شکار ہیں۔ مسلم ممالک کے عوام کی اسرائیل سے نفرت اور مسلسل احتجاج داخلی پہلو ہے جسے ایک حد سے زیادہ دبایا نہیں جا سکتا۔ حکومتیں‘ بالخصوص بادشاہتیں عرب بہار کی تحریک کے زمانے سے خود کو مسلسل خطرے میں سمجھتی رہی ہیں۔ لیبیا‘ عراق‘ شام وغیرہ کا جو حشر کیا گیا وہ ان کے سامنے ہے۔ کافی ملک‘ بالخصوص عرب ممالک‘ جو خاندانی بادشاہتوں کے ساتھ اقتدار میں ہیں‘ طاقتور فوج رکھنے سے گریزاں بلکہ اسکے متحمل ہی نہیں تھے کیونکہ فوج خود ان کیلئے بڑا خطرہ بن سکتی تھی۔ ایسے میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل مشرقِ وسطیٰ کی سب سے بڑی جنگی طاقت ہے۔ عرب ممالک کمزور فوج اور ساز و سامان کیساتھ اس کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتے۔ اسرائیل اپنی تاریخ میں ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہت سی جارحیتوں کا ارتکاب کر چکا ہے اور اس کے توسیع پسندانہ عزائم چھپے ہوئے نہیں ہیں۔ حال ہی میں شام اور لبنان پر اسرائیلی حملے عرب ممالک کو خوف زدہ کرنے کیلئے کافی ہیں۔ چنانچہ ایک طرف اسرائیل کو ناراض کرنا بھی ممکن نہیں‘ دوسری طرف یہ خوف اپنی جگہ کہ باری باری سب عرب ملک اس کی زد میں آتے جائیں گے۔
لیکن ان میں سب سے بڑا دباؤ امریکہ‘ بالخصوص جوبائیڈن حکومت کاہے‘ جو اسرائیل کی نہ صرف سرپرست اعلیٰ ہے بلکہ اسرائیل کے ہر اقدام کی کھلی حامی بھی۔ اسرائیل کا خوف اور امریکہ کی ناراضی کا خوف‘ اصل میں دونوں ایک تھے۔ انہی دونوں عوامل نے عرب ممالک کو مائل کیا کہ وہ اسرائیل سے تعلقات شروع کریں جو بالآخر اسرائیل کو تسلیم کرنے پر منتج ہوں۔ یہ مذاکرات پسِ پردہ چلتے رہے اور کسی حتمی مرحلے پر پہنچنے کو تھے کہ سات اکتوبر کو حماس کی کارروائی نے انہیں ختم کرکے رکھ دیا۔ یہ حماس کی بڑی کامیابی ہے کہ اس نے نہ صرف فلسطینیوں کا معاملہ دنیا میں پھر سرفہرست رکھ دیا بلکہ مسلم ممالک کو اپنے نرم رویوں سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا۔ مسلم سربراہوں کیلئے ممکن نہ رہا کہ وہ اسرائیل سے تعلقات بنا سکیں۔ جوبائیڈن کے پورے دور میں مسلم ممالک اسرائیل کیلئے سخت پالیسی بنانے سے گریزاں رہے لیکن اب ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاؤس پہنچنے کو ہیں اور بائیڈن اور کملا ہیرس دو ماہ کے مہمان ہیں‘ عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب کو توقع ہے کہ نئی انتظامیہ اسرائیلی معاملات پر نظرثانی کر سکتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ٹرمپ اور محمد بن سلمان کے تعلقات بہت اچھے رہے ہیں اور باوجودیکہ سابقہ دور میں ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کر لیا تھا‘ عرب ملکوں کو توقع ہے کہ وہ بنیادی پالیسی میں ٹرمپ انتظامیہ سے کچھ تبدیلیاں کرا سکیں گے۔ اسی لیے یہ کانفرنس اسوقت منعقد ہوئی ہے جب ٹرمپ اپنی ٹیم تشکیل دینے میں مصروف ہیں۔ بلکہ یہ کانفرنس منعقد ہی اس لیے ہوئی کہ آنے والی امریکی انتظامیہ کو ان ممالک کا رخ دکھا کر پالیسی مرتب کرائی جا سکے۔
سعودی عرب خطے کے عرب ممالک میں سب سے طاقتور اور سب سے بااثر ہے۔ کم و بیش تمام عرب ممالک اسی کی پیروی کرتے ہیں۔ کیا اس کانفرنس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ سعودیہ اسرائیل سے خود کو خطرے میں سمجھ رہا ہے اور آئندہ وقت کی پیش بینی کرتے ہوئے ایک بڑا اتحاد قائم کرنا چاہتا ہے؟ ایک بہت بڑی پیشرفت ایران سعودی عرب تعلقات میں تبدیلی ہے۔ کیا دوسرا نتیجہ یہ نکالا جائے کہ سعودی عرب‘ جو یمن سے ایران کی پراکسی وار بہت مدت سے بھگت رہا ہے‘ یہ کشاکش ختم کرنے کا خواہاں ہے؟ ایرانی صدر نے کانفرنس کیلئے جو پیغام بھیجا اس میں سعودی ولی عہد کا شکریہ ادا کیا ہے۔ جواباً سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے ایرانی بھائیوں کی کامیابیوں کی تمنا ظاہر کی۔ محمد بن سلمان نے یہ بھی کہا کہ سعودیہ ایران تعلقات تاریخی تبدیلی کے موڑ پر ہیں۔ یہ تبدیلی دونوں ممالک کے مفاد میں ہے‘ اس لیے کہ دونوں ایک ہی ملک سے خطرات کا شکار ہیں اور ایران بھی کئی محاذوں پر جنگ کا متحمل نہیں ہے۔
ایک بات جو عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل نے کہی وہ غور طلب ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''دو ریاستی فارمولے کے سوا کوئی حل نہیں ہے جس میں فلسطینی ریاست مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پر مشتمل ہو‘ جو 1967ء کی حد بندی پر مبنی ہو اور مشرقی یروشلم اس کا دارالحکومت ہو‘‘۔ یہ دو ریاستی فارمولا بہت مدت سے زیر بحث ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ اسرائیل اسے ماننے سے انکاری ہے۔ دوسرے یہ کہ اسے ماننے کا مطلب دوسرے الفاظ میں یہ ہو گا کہ عرب اور مسلم ممالک اسرائیل کو تسلیم کر لیں‘ جو بہت بڑا مسئلہ ہے۔ مسلم ممالک کا بنیادی مؤقف یہی رہا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اب اگر عرب ممالک اس کی بات کر رہے ہیں تو کیا وہ اپنے بنیادی مؤقف سے دستبردار ہو رہے ہیں؟ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ چار و ناچار اسرائیل کو تسلیم کر لینے پر کتنے مسلم ملک راضی ہوں گے۔ مثلاً ایران؟ اور کیا مسلم ممالک میں اس مؤقف پر اتفاقِ رائے پیدا ہو سکے گا؟ ایک منٹ کیلئے یہ فرض کر لیں کہ یہ فارمولا سب مان لیتے ہیں تو کیا اس سے عرب اسرائیل جھگڑا ہمیشہ کیلئے ختم ہوسکے گا؟ کیا اسرائیل جو علی الاعلان عراق‘ شام‘ لبنان پر حملے کرتا رہا ہے‘ ہمسایہ فلسطینی ریاست پر جارحیت سے باز آجائے گا؟ میرے خیال میں دو ریاستی فارمولا خطے میں مستقل امن کا راستہ ہرگز نہیں ہے لیکن ان سب کے باوجود یہ کانفرنس ایک اہم تبدیلی کا نشان ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں